میرا ڈیننگ

میرا ڈیننگ
آج ایک سال ہو گیا اسے دیکھے ہوے، مگر اب بھی بہت یاد آتا ہے۔

صاحبو شادی سے اگلے ہی روز صبح صبح میری سابقہ بیگم کو ایک کال آئی اور اس نے اس زور و شور سے رونا شروع کیا کہ ہر بد خیال اسکے بولنے تک میرے دل و دماغ پہ چھا گیا۔ دل ہی دل میں تعزیت کے جملے موزوں کرتے ہوے جب چار پانج بار پوچھا تو ہچکیوں سے روتی بیگم (سابقہ) نے کہا “میرا کیناگارٹ مر گیا”۔ فورا تمام سسرالی رشتہ داروں کا نام یاد کیا مگر دماغ میں کچھ نہ آیا۔ کون کیناگارٹ؟ میرا کتا، بیگم نے ایک چیخ ماری اور اس زور سے روئیں کہ مجھے میرے والد کی موت پر اپنا رونا یاد آ گیا۔ ساتھ ہی ہچکیوں میں کہا، “تم پاکستانی ہو، تم میرا غم نہیں سمجھو گے”۔ اور وہ سچی تھی کہ مجھے سمجھ نہ آیا کہ اتنا ماتم ایک کتے کیلیے؟

اب کچھ دیر تو میں ہونق یہ سوچتا رہا کہ اس موقع پر کہنا کیا ہے کہ کسی کتے کی تعزیت کا اس سے پہلے تجربہ نہ تھا۔ سو بہت سوچ کر کہا، حوصلہ کیجیے، اللہ کی رضا۔ جب پھر بھی کوئی خاص فرق نہ پڑا تو میں نے کہا مرحوم بہت سمجھدار تھے، جیسے ہی پتہ چلا آپ کی زندگی میں میں آ گیا ہوں، سمجھ گئے کہ میری اب ضرورت نہ رہی ہے۔ شکر ہے اس بات پہ روتی ہوئی بیگم ہنس پڑیں اور کم از کم ہمارا ولیمہ ہو گیا۔ مجھے شک ہے کہ شاید اس نے ولیمہ، مرحوم کے قلوں کی روٹی سمجھ کر ہی کھایا تھا۔

“کیناگارٹ” کی موت کے بعد میری بیگم کا مسلسل اصرار رہا کہ کتا پالا جائے مگر میں کسی نہ کسی بہانے ٹالتا رہا۔ کتے مجھے بھی پسند ہیں مگر میں ہمیشہ کتے سے خوفزدہ ہی رہا ہوں۔ بقول استاد یوسفی، کون جانے کب بھونکنا چھوڑ کر کاٹنا شروع کر دے۔ میرے اک کلائنٹ نے، جو کتوں کے کینل(کتا گھر) چلاتے ہیں، کیس جیتا تو بطور شکریہ صبح صبح مجھے کہا سر ایک جرمن شیپرڈ ہے، لیجیے گا؟ اب اصولا تو نا ہی بنتی تھی مگر مفت کی شے میں یہ برائی ہے کہ اصولوں کو ڈگمگا دیتی ہے۔ چنانچہ ایک پیارا سا جرمن شیپرڈ ہمارے گھر آ گیا۔ اور سچ پوچھیے تو اتنا پیارا تھا کہ دل میں ہی آ گیا۔

بیگم نے نووارد کا نام لارڈ ڈیننگ کے نام پر ڈیننگ تجویز کیا اور میرے احتجاج کو رد کر دیا کہ میرے ایک دوست کی لا فرم بھی اسی نام سے تھی۔ یقین کیجیے آج بھی قسمیں کھاتا ہوں کہ نام اسکو چڑانے کیلیے نہیں رکھا۔ لوگ بال ہٹ، تریاہٹ کہتے ہیں، زوجہ ہٹ شاید زوجہ کے خوف سے اردو لغت میں نہیں ڈالا گیا۔
خیر ہوا یہ کہ دو دن بعد جولیا “ہدایت نامہ برائے ٹہل سیوا ڈیننگ” ہمیں تھما کر خود ضروری کام سے تین دن کیلیے جرمنی چلی گئیں اور میں “سلیپنگ ود دی اینیمی” کے احساسات کے ساتھ جاگنے لگا۔ میرا کتوں سے خوف مجھے اس کے زیادہ قریب جانے سے روکتا تھا مگر “ہدایت نامہ” میں درج تھا کہ دو وقت سیر بھی کرانی ہے۔ مجھے یہ خوف کہ یہ سیر کراتے مجھے ہی پڑ گیا تو میں تو زیادہ دور تک بھاگ بھی نا پاؤں گا۔ اب آپ سے کیا چھپانا، تین دن میں بیگم کا کوٹ، بوٹ اور دستانے پہن کر ڈیننگ کو واک کرواتا رہا کہ اسے لگے مالکن ہی ہے۔ بلکہ سچ پوچھیے تو آواز بھی زرا نسوانی نکال کر اسے پکارتا تھا۔
ان تین دن میں میرا اور اس کا وہ تعلق قائم ہوا جو ماں اور بچے کا ہوتا ہے۔ میں اسے کھلاتا، پھراتا تھا۔ قانون کے مطابق جب کہیں وہ فضلہ گراتا تو اٹھا کر پلاسٹک بیگ میں ڈالتا تھا اور اسکے قریب آتا جاتا تھا۔ یہی تین دن اسے بھی میرے اتنا قریب لے آئے کہ وہ مجھ سے ایسے ہی پیار کرتا تھا جیسے بچہ اپنے باپ سے۔ تین دن بعد جب بیگم آئیں تو کتا تو انکا تھا، بچہ میرا بن چکا تھا۔ تب ہی مجھے یہ گیان بھی پرتاب ہوا کہ اپنا کتا پالنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے، کہ کسی اور کے کتے سے ڈر نہیں لگتا۔

ہم دونوں کو ڈیننگ بہت پیارا تھا۔ہم اسکی تعریف کرنے والوں کو اپنا دوست اور اس کی برائی کرنے والوں کو برا خیال کرتے تھے۔ یادش بخیر میرے ایک دوست میرے پاس تشریف لائے۔ اک دور کے سرخے اب شدید نمازی مسلمان ہو چکے تھے اور ڈیننگ کے پاس آنے پر یونہی بدکتے تھے جیسے کسی دور میں کسی بوژوا مرد کو دیکھ کر۔ عورت تو خیر بوژوا بھی ہو تو مادے کی جدلیات پر حاوی ہوتی ہے۔ مجھے یاد ہے اک بار انھوں نے ڈیننگ کے بارے میں کچھ برا کہ دیا تھا۔ کافی عرصے تک میں دل ہی دل میں ان سے ناراض رہا۔
ڈیننگ تھا بھی بہت پیار لینے والا۔ بچہ تھا سو کوئی نہ کوئی غلطی ضرور کرتا اور پھر فورا ایسی معصوم شکل بنا لیتا کہ ڈانٹنے کی ہمت نہ پڑتی۔ میری اور جولیا کی ایسی ایسی چیز اس نے خراب کی کہ اگر ہم خود بھی ہوتے تو کبھی ایک دوسرے کو معاف نہ کرتے، مگر اسکی بار ہم ایک دوسرے کو کہہ دیتے، کچھ نا کہنا ابھی بچہ ہے۔

میری اور اسکی زندگی کا ایک پیٹرن سا بن گیا تھا۔ میں صبح اٹھتا اور اسکا جنگلہ کھولتا۔ پھر میں کافی اور پہلا سگریٹ پیتے ہوے اخبار پڑھتا اور وہ کانی آنکھ سے کبھی مجھے دیکھتا اور کبھی اس کھلونے کو جو پاس پڑا ہوتا۔ جرمن شیپرڈ بہت ذہین کتا ہوتا ہے، وہ جانتا تھا کہ جب تک میں صبح ایک دو سگریٹ نہ پی لوں مجھے چھیڑنا کافی کتا کام ہو سکتا ہے۔ افسوس یہ بات ایک بیگم کو کبھی سمجھ نہیں آتی۔ خیر دفتر سے واپسی پر ہم واک کرتے، اکٹھے کھیلتے اور یقین کیجیے اک دوسرے سے باتیں کرتے۔ کئی بار میں نے پنجابی میں اس سے بیگم کی برائیاں بھی کیں اور اس نے ایک “ہئو فیر” (پھر کیا ہوا) جیسی آواز نکال کر حوصلہ بھی دیا۔

اسے میری جدائی برداشت نہ ہوتی تھی۔ کتنی بار ایسا ہوا کہ رات کو وہ اپنا جنگلا کھول کر دبے پاؤں سیڑھیاں چڑھتا، میرا دروازہ دھکیل کر میرے بیڈ کے پاس آ کر بیٹھ جاتا۔ پہلی بار جب آدھی رات کو میری آنکھ کھلی اور اسے دیکھا تو یقین کیجیے میری چیخ اتنی شدید تھی کہ ڈیننگ بھی ایسے بھاگا جیسے پکڑا جانے پر ایک چور، چور چور کہ کر بھاگ پڑتا ہے۔ مگر دوستو، چرخ نیلی فام کو دو محبت کرنے والے دل کب بھاتے ہیںئ خواہ ان میں سے ایک کتے کا ہی کیوں نہ ہو۔

جب ایک سال قبل میری بیگم سے علہدگی ہوئی تو کتا جو محبت میں اسکے نام کیا تھا، قانونی طور پر اسی کا ٹھرا۔ ہم تینوں اکٹھے بزریعہ سڑک جرمنی گئے اور کچھ دن اکٹھے وہاں رہے۔ مجھے یاد ہے جب اسے چھوڑ کر میں گاڑی میں بیٹھا تو وہ دروازے کے شیشے سے مجھے یونہی دیکھتا تھا جیسے کوئی بچہ اپنے اس باپ کو، جو اسے یتیم خانے میں جمع کرا کر چلا جائے۔ اگلے کتنے ہی روز میں ڈیننگ کی تصویر کو دیکھتے ہوے سوتا تھا۔ میرا سابقہ سسرال ایک پرفضا وادی میں ہے۔ سنا ہے ڈیننگ وہاں بہت خوش ہے اور بھاگتا پھرتا ہے۔ سنا ہے سارا قصبہ اس کا دیوانہ ہے۔ خیال آتا ہے کہ شاید کبھی وہ سوچتا ہو، میں کیسا بے وفا نکلا۔ کتنے ہی ایسے رشتے ہیں جنکی بے وفائی کا ہمیں گلہ رہتا ہے یہ جانے بغیر کہ وہ رشتہ ہمارے لیے کیسے تڑپ رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

صاحبو آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ یہ مجھے کیا ہوا، میں یہ کیا کتا کہانی لے کر بیٹھ گیا۔ آج میں بھی بس یہی کہوں گا کہ “آپ پاکستانی ہیں، آپ نہیں سمجھیں گے”۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply