اپنی میز پر پڑی ہدیٰ کی میل دیکھ کر میں بیتا بانہ انداز میں اُس کی طرف بڑھتی ہوں۔ کرسی پر بیٹھنا جیسے گویا میں بھول ہی گئی ہوں۔ کاغذ میرے ہاتھ میں اور نگاہیں حروف پر سرپٹ بھاگتی تھیں۔← مزید پڑھیے
شکیلہ کی ماں اپنے سسرال کے گاؤں کی بڑی چوہدارئن تھی، سسرال کی اپنی ملکیت زمین بھی کافی تھی ،ساتھ اس کی شادی پہ اس کے بھائی چوہدری فیروز نے ڈھوک شرفو والے چوہدریوں کی اس گاؤں میں وراثت سو← مزید پڑھیے
ڈاکٹر خالد سہیل کی مشہور آٹو بائیو گرافی THE SEEKERپر تبادلہ خیال کا دوسرا حصہ سچ جاننے کی جستجو کرنا ایک بہت ہی کٹھن اور دشوار گزار راستے کا انتخاب کرنے کے مترادف ہے۔ سچائی ایک پہیلی ہے۔ ایک معمہ← مزید پڑھیے
لاہور ، پنجاب اور پنجابی سے احمد بشیر کے والہانہ قلبی تعلق کے متعلق ایک مکالمہ قابلِ ذکر ہے۔۔۔ ہماری پہلی ملاقات کا واقعہ ہے۔۔۔ میں نے کراچی میں انکے قیام اور اردو زبان پردست رس کے متعلق یہی تاثر← مزید پڑھیے
A Tale of Weeping Willow & Me. یہ نظم پہلے انگریزی میں خلق ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’قصّے سناتے رہو کہ لوگ شاید سوچ بچار کریں ۔‘‘ قال الملاٗرکوع ۱۱، الاعراف ۶، (القران) پہلا قصہ بارش ہے اور میں ویپنگ وِلّو کے← مزید پڑھیے
اُس کی آنکھ کھلی تو وہ زمین پر الٹا پڑا ہوا تھا۔تھوڑا دور دیکھا تو کئی لوگ زمین پر پڑے ہوئے تھے ہر طرف پتھر بکھرے ہوئے تھے۔ کہیں کہیں بجھی ہوئی آگ سے ہلکا سا دھواں اٹھ رہا تھا۔شاید← مزید پڑھیے
نوشی بٹ کا خالد سہیل کو چھٹا خط۔۔۔ ڈاکٹر خالد کو تبدیلی کے دیس سے گرمی بھرا آداب! امید ہے آپ بخیر ہونگے۔سب سے پہلے تو آپ کا شکریہ کہ آپ کو میرے خوابوں کے پورا ہونے کا یقین ہے۔آپ← مزید پڑھیے
بکرمی سال کا آخری مہینہ پھاگن چل رہا تھا۔ گندم کی بالیاں نکل آئی تھیں، سرسوں اور تارا میرا کے پھول جوبن پر تھے۔ شاہد شام کو بائیک پہ شہر کا چکر لگا کے آتا، فضا میں خنکی کم اور← مزید پڑھیے
محبت تو اس جھرنے جیسی ہوتی ہے جو بس بہتا جلا جاتا ہے یہ سوچے بغیر کہ اس کا پانی کہاں پہنچ رہا ہے اور کس کام آرہا ہے ۔ اس نے اپنی اپنی بڑی بڑی آنکھیں سوالیہ انداز سے← مزید پڑھیے
رحمتاں بشیرے کی تیسری بیوی تھی، بشیرا محنت مزدوری کے ساتھ ساتھ وعظ و نصیحت بھی کیا کرتا تھا اس لیے گاؤں میں قدر ےجان پہچان تھی۔ بشیرے کے تینوں بچے کام کاج سے کوسوں دور شغل میلے میں مشغول← مزید پڑھیے
ریاض کچھ بھی کرو یہ ایف آئی آر درج نہیں ہونی چاہیے”، میرا پیٹ ٹینشن کی وجہ سے درد کر رہا ہے۔ مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ “او بھئی ذرا صبر کر مجھے دماغ لڑانے دے، پکا بندہ ڈھونڈنے دے” “یار← مزید پڑھیے
ابھی کچھ دیر پہلے وھاٹس ایپ میں یہ پیغام موصول ہوا ہے: ریختہ کا آفیشل رسم الخط بدل کر رومن کر دیا گیا، اور ریختہ کی زبان اردش ہوگئی۔ زیادہ تر مواد کی کی ترجیحی زبان ہندی آتی ہے۔ اردو← مزید پڑھیے
کاش ! آج بے بے ہوتی تو میں اس سے پوچھتی کہ اپنے میکے میں بھائی کی بڑی حویلی آباد کرنے ، کثیر مال مویشی اور بڑے ریوڑ دیکھ کر مجھے“ تم جیسے نامرد” کے ساتھ باندھ کے اس ٹھنڈے← مزید پڑھیے
سچی بات ہے میرا دل عمر بن عبدالعزیز کے مزار اقدس پر حاضری کا بے حد متمنی تھا۔مگر پہلے ہی کافی دیر ہوچکی تھی۔میں نے اپنی خواہش کو سینے میں ہی دبا دیا تھا۔بس دعائے خیر کی اور صبر و← مزید پڑھیے
مائی چھبیلاں کی سبیل (دھرم پورہ، لاہور کی ایک کہانی) 1948 سب کہتے تھے دھرم پورہ کے اک کونے میں نہر سے کچھ دوری کی ننگی بُچی پٹی اس پر اک عورت کے قد کی سیدھی ، ٹیڑھی کھڑی ہوئی← مزید پڑھیے
انٹرویو : دشمن، سنگھرش، سُر:دی میلوڈی آف لائف اور قریب قریب سنگل جیسی فلمیں بنانے والی ہدایت کار تنوجہ چندرا سے پرشانت ورما کی بات چیت! آپ کی پہلی ڈاکیومنٹری فلم ‘ انٹی سدھا اور انٹی رادھا ‘ کا حال← مزید پڑھیے
گیلاتیا سے کون بچے گا (۱) کیا مورت تھی جس کے خال و خد چہرے کی وضع، بناوٹ شکل و صورت پتھر کی اک سِل سے یوں اُبھرے، جیسے اس کے اندرصدیوں سے مخفی ہوں اور اب جاگ اُٹھے ہوں← مزید پڑھیے
وہ آخری ہچکی کہ جس سے پہلے کائنات ساری ہری بھری تھی دنیا ساری سجی ہوئی تھی رگوں میں چلتی سانسوں سے زندگی ساری مہک رہی تھی شفقت پدری کی حسین چادر سر پہ میرے تنی ہوئی تھی زمانے کی← مزید پڑھیے
اُردو افسانے کی روایت ایک سو سولہ برس پر محیط ہے اور راشد الخیری سے آدم شیر تک تکنیک اور طرزِ اظہار کے کتنے ہی اسلوب آزمائے جا چکے۔ پریم چند کی حقیقت نگاری سے سریندر پرکاش کی علامتی کتھاؤں،← مزید پڑھیے
نوشی بٹ کا خالد سہیل کو چھٹا خط۔ ڈاکٹر خالد کو تبدیلی کے دیس سے گرمی بھرا آداب امید ہے آپ بخیر ہونگے۔سب سے پہلے تو آپ کا شکریہ کہ آپ کو میرے خوابوں کے پورا ہونے کا یقین ہے۔آپ← مزید پڑھیے