سفر نامہ: شام امن سے جنگ تک/حما اور حمص۔۔۔سلمیٰ اعوان/قسط21

سچی بات ہے میرا دل عمر بن عبدالعزیز کے مزار اقدس پر حاضری کا بے حد متمنی تھا۔مگر پہلے ہی کافی دیر ہوچکی تھی۔میں نے اپنی خواہش کو سینے میں ہی دبا دیا تھا۔بس دعائے خیر کی اور صبر و شکر کا کلمہ پڑھا کہ نصیب میں نہیں تھا کہ وہاں قدم دھرتی۔چلو جو اللہ دکھا رہا ہے وہ اس کی عنایت۔

حماHama میں رکنے نے لطف دیا۔ سفر ٹوٹا۔۔ واش روم میں منہ دھویا۔ تازہ دم ہوئے۔ کولڈ ڈرنک اور قہوہ پیا اور دنیا کے قدیم ترین نظام آبپاشی کے حیرت انگیز مظاہر دیکھے۔ دریائے اورنتسorntesپر بڑے بڑے چرخے جنہیں noriasکہتے ہیں نصب تھے۔ محرابی صورت دیواروں کے ساتھ انہیں منسلک کر کے دیو ہیکلnorias کے ساتھ آبپاشی کی جاتی تھی۔ دنیا کا قدیم ترین ذریعہ آبپاشی جو کہیں بازنطینی دور کی یادگار تھا۔ آج کل یہ ذریعہ اب اتنا مستعمل نہیں رہا۔ تاہم دوابھی بھی کام کر رہے ہیں۔ شاید سیاحوں کی دلچسپی کے لئے رکھے گئے ہوں۔ بہرحال پانی کی چادر کا بہتے دیکھنا اچھا لگا تھا۔

یہاں ساتھ ہی ایک بہت خوبصورت پارک بھی تھا۔ تھوڑی سی سیر ہم نے وہاں بھی کی۔ جھولوں پر ہجوم تھا، داخلے پر ٹکٹ، جھولوں پر ٹکٹ۔
چلو ٹکٹ پر خرچ کیے پیسے بھول گئے جب وہاں آنے والی ایک فیملی سے ملاقات ہوئی۔ مسکراتے چہرے والی خاتون اور مرد نے ہمیں دیکھتے ہی ایسی پذیرائی دی کہ جی باغ باغ ہوگیا۔ مزے کی بات خاتون فرانسیسی بولنے میں طاق تھی اور مرد انگریزی اچھی بولتا تھا۔ پتہ چلا کہ لڑکی کے والدین پیرس میں زمانوں سے رہتے تھے جبکہ لڑکے کی تعلیم دمشق اور لندن کی تھی۔ جوڑا بڑا گالڑی تھا۔ جونہی میں نے ہیلو ہائے اور دمشق حلب کی خوبصورتیوں کے قصوں سے ذرا رخ پھیر کر ایوانوں میں بیٹھنے والوں کی بات کی۔ مجھے لگا جیسے میں نے مر د کی دُکھتی رگ کو دبا دیا ہو۔ سرخ وسفید چہرے پر غصے کی لہروں کا رقص شروع ہو گیا تھا۔ زبان زہر اُگلنے لگی تھی۔ پتہ چلا تھا کہ 1982ء میں حمامیں جب مسلم بھائی چارے کی احتجاجی تحریک نے زور پکڑا تھا۔ حافظ الاسد نے کریک ڈاؤن کروایا تھا۔ جس میں کوئی بیس پچیس ہزار لوگ مارے گئے۔ ان میں لڑکے کا دادا اور چچا بھی تھا۔
بشار کی خباثت کے قصے باپ کی ذلالت کی داستانیں۔
اُف میرے خدا اِس تیسری دنیا کے المیے۔

حما
norias
Alley_in_Hama

اب پھر سفر شروع ہوا۔پون گھنٹہ ہی لگا تھا کہ حمص پہنچ گئے۔محبت بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے اپنے آپ سے کہا تھا۔
تویہ حمصHomsہے۔ پرانے وقتوں کا ایماساEmesa۔صدیوں پرانی تاریخ کا وارث، بے شمار قوموں اور مذاہب کا شہر۔ 636ء میں یہ مسلمانوں کے قبضے میں آیا اور تب سے آج تک یہ اسی حیثیت میں پہچانا جاتا ہے۔

ہمارے کھانے کا پروگرام یہاں کا تھا۔علی گاڑی کو چکر پر چکر کٹوائے جاتا تھا۔ گو بھوک ستارہی تھی۔ دونوں جز بز ہو رہی تھیں اور میں خوش کہ شہر کی بیٹھے بٹھائے سیر ہو رہی ہے۔ نئے نئے منظرنظروں کو لُبھاتے تھے۔ منظر بھی حسین تھے۔ ہاں البتہ ماحول میں صفائی ستھرائی کچھ قابل ذکر نہ تھی۔ کاغذ،شاپر اڑتے پھرتے تھے۔ مانگنے والے بھی بہتیرے تھے۔ پل بھر کے لئے کہیں گاڑی رُکتی تو ہمارے ہاں کی طرح شیشہ بجنے لگتا۔مشکل سے پلّہ چھڑاتے۔
شہربہت زیادہ تو نہیں پر خاصا سر سبز بھی تھا۔ پھر شہر کی مرکزی شاہراہ القوتلیQuwatlyسٹریٹ دیکھنے کو ملی۔ بہت لمبی نہ تھی۔ مگر جتنی تھی خوبصورت اور  دل موہ لینے والی۔ جس کے دونوں سرے اولڈ کلاک ٹاور اور نیوکلاک ٹاور کی حدوں میں قید تھے۔
نیو کلاک ٹاوریا اسے کلاک آف فریڈیم کہہ لیجیے۔یہ سکوائر کے عین بیچوں بیچ آن بان سے بلند وبالا عمارتوں، سرو کے پیڑوں، کجھوروں کے درختوں اور صاف ستھرے ماڈرن ماحول میں گول اونچے پیڈسٹل پر کھڑا شہر کا لینڈمارک ہونے کاحق ادا کرتا تھا۔
”اُف ایک تو اِس بشار کو اللہ سمجھے۔“ کوئی جگہ اس سے محفوظ نہیں۔ کوئی جگہ اِس کے باپ سے محفوظ نہیں۔ کندھوں، کوٹھوں، بینروں، چوراہوں، رستوں، کھمبوں اور عمارتوں کے ماتھوں پر چڑھے بیٹھے تھے۔ کوفت ہونے لگی تھی باپ بیٹے کی صورتوں سے۔مجھے تو اِن شامیوں پر غصہ آرہا تھا۔ کتنے بونگے ہیں۔ پینتیس(35) اڑتیس(38) سال سے ایک ہی صورت دیکھے چلے جا رہے ہیں۔ اکتاتے نہیں دو دن ایک سا کھانا،کھاناپڑ جائے تو طبیعت اوب  جاتی ہے۔ یہ عجیب ہیں۔ ۔باپ سے رجے نہیں اب بیٹے کو سر کا تاج بنا لیا ہے۔
یونیورسٹی کا پتہ چلا۔ شوق سے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے دیکھی۔ کچھ زیادہ دور نہیں بعث پارٹی کا دفتر نظر آیا۔ ہوٹل بڑے عالیشان اور کئی کئی منزلہ تھے۔

کھانے سے قبل حمص کی سرزمین پر سجدہ ہی ہو جائے جیسے اظہار پر ڈرائیور نے تو فوراً تکمیل دینی ضروری جانی۔
شہدا چوک اولڈ کلاک ٹاور سب کچھ بتاتے ہوئے مسجد کی طرف بھی اشارہ کیا۔ ال نوری مسجد۔ ۔اندر داخل ہوتے ہی جیسے بے اختیار زبان سے”سبحا ن اللہ“ نکلا تھا۔ اس درجہ پر وقار سادگی لئے میری اب تک کی زندگی میں کوئی مسجد نہیں گزری تھی۔ محرابوں کو سہارنے والے چوکور ستونوں کے صرف نچلے حصّوں پر بلا کی خوبصورت نقاشی تھی۔
جب کسری نماز سے فارغ ہو کر باہر آئے۔علی نے فلافل اور کولڈ ڈرنک خرید لئے تھے۔ساتھ ہی حکم بھی صادر کر دیا تھا کہ گاڑی میں قطعی منہ ماری نہیں کرنی۔ خالد بن ولید کے مزار مبار ک پر سکون سے بیٹھ کر کھائیں گے۔
فاطمہ نے شور مچایا۔ ”جان نکلی جا رہی ہے۔“
وہ بھی من موجی مرد تھا۔ تڑاخ سے بولا۔
”توبھئی نکل جانے دو۔ اِس کمبخت کو رکھ کر کیا کرنا ہے؟“

خالد بن ولید کا مزار اور مسجد قریب ہی تھے۔ بڑی سڑک صلاحیہ سٹریٹ پر۔مسجد کی دونوں ا طراف خوبصورت باغیچوں،پھولوں سے بھری کیاریوں اور تراشیدہ گھاس سے سجی تھیں۔
بھوک کا واویلا بہت زیادہ تھا۔ سب سے پہلے اس پکار پر توجہ کی۔ فلافل مزے کے تھے۔ مجھے مصر کے فلافل بہت یاد آئے۔ کھانے اور خوش گپیاں کرتے ہوئے بھی اُس عظیم شخصیت کا طلسم دل ودماغ پر تیرتا پھرتا تھا۔
”میں حمص میں ہوں اس کے پاس جس کی شجاعت اور بہادری کی داستانوں نے سارا بچپن دیوانہ بنائے رکھا۔
مسجد کے احاطے میں سکول بھی ہے۔ پتہ چلاتھا کہ یہاں دینی تعلیم پر جتنا زور ہے جدید تعلیم پر اُس سے زیادہ ہے۔ اس لئے حمص کے بہترین مدرسوں میں شمار ہوتا ہے۔ اندر جاتے وقت جذبات میں ہیجان سا تھا۔ خدا کی شکر گزاری آنکھوں کو بھگوئے دے رہی تھی۔
صدر دروازے پر آویزاں دو تختیوں پر دو تحریروں کا تعلق پڑھنے سے تھا۔ عربی اور انگریزی کی یہ تحریر کہ یہاں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست شمشیر زن اور عظیم مسلمان فاتح جس نے کسی جنگ میں کبھی شکست نہیں کھائی آرام فرما رہے ہیں۔
دوسری تحریر مسجد کے بارے کہ اسے شام کے سلطان عبد المجید دوم نے 1900ء میں بنایا اور شام کے حافظ الاسد نے اس میں توسیع اور آرائش کی۔
سیاہ اور سفید پتھروں والا صحن نہ صرف وسیع وعریض تھا بلکہ جاذبِ نظر بھی تھا۔ مسجد کے برآمدے سے اندر داخل ہوتے ہی بڑے ہال کے دائیں جانب وہ عظیم شخصیت عالم استراحت میں ہے۔ نقرئی دروازہ سنہری جالیاں آرائشی سازوسامان سبھی لوازمات دل ونظر کو لبھاتے تھے۔ فاتحہ پڑھنے اور دعامانگنے تک آنسو ٹپکتے رہے۔

الاعظم پیلس،حما
جامع النوری
خان رستم پاشا

ساری کہانیاں جب مسلمان نہیں ہوئے تھے جنگ اُحد کا کردار، مسلمان ہو کر مرتدوں، منکرین زکوٰۃ، رومیوں اور خسروان کے خلاف کامیاب جنگی معرکے۔ سبھی کچھ تو یاد آرہا تھا اور آنکھیں بھگو رہاتھا۔ ہر مز کے ساتھ جنگ کی کہانی کی یاد نے خود سے کہاتھا۔
”خدایا ہمارا ماضی کبھی لوٹ کر بھی آئے گا۔“
نفل پڑھے۔ وقت رُخصت مسجد کے سفید گنبد اور خوبصورت میناروں کو دھوپ میں چمکتے دیکھ کر ان کے لئے، شہر کے لئے دعائے خیر کی۔
ڈرائیور نے قلعہ الحصنKark Des Chevaliers کے بارے پوچھا کہ دیکھنا ہے اب کی دفعہ میں نے کہا۔
”چھوڑو بھئی دیکھ تو لیا ہے حلب کا۔ قلعے تو کم وبیش ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔“
”کم و بیش ایک جیسا تو سبھی کچھ ہی ہوتا ہے۔ کیا مسجدیں، کیا گرجے، کیا معبد۔ مگر پھر بھی ہم دیکھنے ضرور جاتے ہیں۔“
ڈرائیور بھی بڑا جملہ باز لگا تھا۔بڑی تیکھی بات کہہ گیا تھا۔
ہونٹ مسکرا دئیے تھے۔
میری مسکراہٹ نے جیسے اُسے شہہ دی تھی۔ اپنی علمیت بگھارنے کا غالباً اس کے لئے یہ سنہری موقع تھا۔ بول اٹھاتھا۔
”قرونِ وسطیٰ طرز تعمیر کا اہم ترین قلعہ بلکہ یہ کہنا کہ سب قلعوں کا قلعہ۔“
”چلو بیبا تو پھر دکھا ہی دو۔“
حلب کے قلعے کی طرح یہ بھی بلندی پر تھا۔ اسی کی طرح کے دو دروازے۔ مشرقی دروازے سے اندر جا کر میں نے تو مزید قدم اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ وہی سارے منظر جو ایک دن پہلے دیکھے تھے۔ بلند وبالا دیواروں کے حصار سے باہر حدّاُفق تک بکھرے منظروں کو ایک شکستہ سی کھوٹھڑی کی اوٹ سے دیکھتی رہی۔ علی کی طنزیہ بات کو شربت پی کر حلق سے اندر اُتار لیا اور ٹس سے مَس نہ ہوئی۔
مختصر سی معلومات علی نے ہی دیں جب وہ واپس آیا۔ میں نے سنی ضرور مگر قطعی توجہ نہ دی۔ وہی یہاں 200نائٹس رہتے تھے۔ بعد میں سننے میں آیا 300 تھے۔ تو فرق کیا پڑا؟ 200کھلے ڈلے رہتے تھے۔ 300ذرا تنگی سے رہتے ہوں گے۔
باقی کتنی بار اجڑا کتنی بار بسا۔ فلاں نے اس کا تخم مارا۔ فلاں نے اِسے زندگی دی۔ زلزلوں نے بھی مت مار دی۔ صلاح الدین ایوبی نے بھی حملہ کیا۔ مگر اس کی ہیبت اور طاقت سے ڈر گیا۔ کچھ کہے بغیر لوٹ گیا۔ ویسے لگتا تو نہیں تھا ایسا ڈرنے والا۔
ہاں ایک بات واقعی دل کو لگی کہ حملہ آوروں کو تومیلوں دور سے دیکھا جا سکتا تھا ہے کہ قلعے کی کرسی اتنی بلندی پر ہے۔ فصیل کے دائروں میں کھڑے تیر انداز ہی تیروں سے حملہ آوروں کو ناک چنے کیا چبوانا سارا وجود ہی چھلنی کر سکتے تھے۔
دھوپ تیزتھی۔ فلافل کا خمار چڑھ رہا تھا۔ جی چاہتا تھا یہیں لَم لیٹ ہوجاؤں۔ مگر کیسے؟
ہاں یہ ضرور تھا کہ ڈرائیور نے جیسے ریس لگا دی تھی۔ سچی بات ہے تھکن بھی بڑی محسوس ہو رہی تھی۔ مغرب سے ذرا پہلے دمشق پہنچ گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply