• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گورنمنٹ کالج ساہیوال میں منعقدہ “اردو کانفرنس” کا احوال۔۔۔۔ندیم رزاق کھوہارا

گورنمنٹ کالج ساہیوال میں منعقدہ “اردو کانفرنس” کا احوال۔۔۔۔ندیم رزاق کھوہارا

پاکستان قومی زبان تحریک کی راہنما اور مرکزی صدر شعبہ خواتین محترمہ فاطمہ قمر کا پیغام موصول ہوا کہ وہ اٹھارہ ستمبر کو گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ساہیوال میں منعقد ہونے والی “اردو کانفرنس” میں شرکت کرنے کے لیے تشریف لا رہی ہیں۔ تو موقع غنیمت جانتے ہوئے کانفرنس میں شریک ہونے کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ محترمہ فاطمہ قمر صاحبہ اردو زبان کے نفاذ کے حوالے سے بہت ہی متحرک ہیں۔ اور قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے نفاذ اردو کے لیے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔

مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ خالصتاً محترمہ فاطمہ قمر سے ملاقات کی خاطر کیا تھا۔ کیونکہ ہمارے ملک میں کانفرنسوں اور سیمیناروں کا جو روایتی حال ہوتا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اس لیے ایسی کانفرنسوں میں کم ہی شرکت کیا کرتا ہوں تاہم گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ساہیوال میں ہونے والی “اردو کانفرنس” میں شریک ہونے کے بعد میں اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور ہو گیا ہوں۔ بہت ہی منظم انداز میں سجائی گئی ایک پروقار تقریب۔۔۔۔جس میں تمام مقررین کی جانب سے چشم کشاء حقائق پر مبنی پرمغز اور مدلل گفتگو کی گئی۔ جسے سننے کے بعد بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔

کانفرنس کے مہمان خصوصی میڈیا سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیت اور روزنامہ پاکستان کے بانی مدیر اعلی جناب مجیب الرحمٰن شامی صاحب تھے۔ جبکہ محترمہ فاطمہ قمر صاحبہ نے بطور اعزازی مہمان شرکت کی۔ ان کے علاوہ تقریب کے شرکاء سے خطاب کرنے والوں میں ساہیوال کی معروف شخصیت اور اردو زبان کے نفاذ کے لیے سرگرم عمل جناب ڈاکٹر طاہر سراج صاحب کے ساتھ ساتھ معروف ماہرِ تعلیم جناب ریاض حسین زیدی صاحب ، سابق ممبر قومی اسمبلی اور  سیاسی راہنما جناب انوار الحق رامے صاحب اور گورنمنٹ کالج ساہیوال کے ہر دلعزیز پرنسپل جناب  پروفیسر ڈاکٹر ممتاز احمد صاحب شامل تھے۔

کانفرنس کا موضوع “فکرِ قائد رحہ کی روشنی میں اردو اور قومی یک جہتی” تھا۔ اس عنوان پر تمام مقررین نے بہت ہی معلومات افزاء تقاریر کیں۔ جنہیں اگر ہوبہو نقل کیا تو یہ تحریر بہت لمبی ہو جائے گی۔ البتہ تمام مقررین کی جانب سے یک سطری افکار (ون لائنر) کا اشتراک نہایت ضروری ہے۔ جو نہ صرف فکر کے نئے در کھولتے ہیں بلکہ قومی زبان اردو کی ناقدری اور اس ناقدری کے نتیجے میں ہونے والے قومی نقصان کی جانب توجہ دلاتے ہیں۔

جناب محترم طاہر سراج صاحب نے بہت ہی پرجوش خطاب کیا۔ ان کے خطاب کا لبِ لباب یہ تھا کہ پاکستان کی بقاء اردو زبان سے وابستہ ہے۔ نیز انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ دراصل اردو زبان ہی قیام پاکستان کی اصل وجوہات میں سے ایک ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے اردو۔ہندی قضیے اور قائدِ اعظم رح کے خطبات کا خصوصی تذکرہ کیا۔

سابق ممبر قومی اسمبلی اور ساہیوال کی مایہ ناز شخصیت جناب انوار الحق رامے نے موضوع کے ایک بالکل منفرد اور یکسر مختلف پہلو پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ “قومی تعمیر و ترقی کا انحصار قومی زبان پر ہوتا ہے۔ جبکہ وطنِ عزیز میں قومی زبان کے فروغ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارے بیوروکریٹ ہیں۔ جو کہ خود تو کسی نا کسی طریقے سے انگریزی سیکھ کر اعلی عہدوں پر براجمان ہو جاتے ہیں۔ لیکن قومی زبان سیکھ کر آنے والے ہر شخص پر ترقی کے تمام راستے بند کر دیتے ہیں۔”

کانفرنس میں ضعیف العمری کے باوجود شرکت کرنے والے معروف ماہرِ تعلیم جناب ریاض حسین زیدی صاحب کا کہنا تھا کہ “دراصل ہم نے بحیثیت قوم خود بھی ابھی تک اردو کو قبول نہیں کیا۔” ان کا کہنا تھا کہ ملک کا نظام تعلیم اس طرح کا ہے کہ اس میں انٹر کے بعد اردو کا نام و نشان تک ختم کر دیا گیا ہے۔ جناب زیدی صاحب نے قائدِ اعظم رح کے فرمودات، آئینِ پاکستان کی تاریخ اور اردو زبان کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا تذکرہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ملک میں اردو زبان کا نفاذ نا گزیر ہے۔

کانفرنس کی مہمانِ اعزاز محترمہ فاطمہ قمر صاحبہ نے بڑے خوبصورت انداز میں نفاذِ اردو سے متعلقہ پہلوؤں کا احاطہ کیا۔ انہوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ یومِ اردو کے حوالے سے تقریبات اب صرف بڑے شہروں یعنی لاہور وغیرہ تک ہی محدود نہیں رہیں بلکہ پورے پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں یہ تقریبات ہو رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ رواں ماہ ستمبر کا شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب انہوں نے کسی نا کسی اردو کانفرنس میں شرکت نہ کی ہو۔ تاہم وہ اس حوالے سے سرکاری اداروں خصوصاً وہ ادارے جو قائم ہی اردو زبان کی ترویج کے لیے کیے گئے ہیں، ان کی عدم توجہی پر نالاں نظر آئیں۔

محترمہ فاطمہ قمر صاحبہ نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جناب جواد ایس خواجہ صاحب کو خراجِ تحسین پیش کیا جنہوں نے آئین پاکستان کی رو سے ملک بھر میں سرکاری سطح پر اردو کے نفاذ کا فیصلہ دیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ محترمہ فاطمہ قمر صاحبہ نے انگریزی تسلط کے تین پہلوؤں یعنی عدالتی، تعلیمی اور دفتری پہلوؤں کا احاطہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ زبان صرف زبان نہیں ہوتی بلکہ تہذیب کا دروازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں لارڈ میکالے کی پالیسی کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ انگریزی کی وجہ سے تعلیم ایک فیکٹری بن گئی ہے۔ نیز غیر ملکی زبان میں تعلیم دینا بچے کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس جناب جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے آسیہ کیس فیصلے کو اردو میں تحریر کیے جانے کا خصوصی تذکرہ کیا۔ اور یہ بتایا کہ فیصلے میں یہ درج ہے کہ اسے اردو میں اس لیے تحریر کیا گیا ہے کہ پاکستان کی عام عوام بھی اسے سمجھ سکے۔ گویا یہ اس بات پر مہر تصدیق ہے کہ انگریزی میں لکھے گئے فیصلے اشرافیہ یا مخصوص طبقے کی حد تک محدود ہوتے ہیں۔

محترمہ فاطمہ قمر نے لاہور کے ایک انگریزی اسکول میں اپنے ایک دورے کا تذکرہ بھی کیا جس میں بچوں نے انگریزی کی بہ نسبت اردو نظموں میں بے پناہ دلچسپی دکھائی تھی۔ اس واقعے پر ہال میں موجود حاضرین نے بھی بے پناہ داد دی۔

تالیوں کی گونج میں تقریب کے مہمانِ خصوصی جناب مجیب الرحمٰن شامی صاحب تشریف لائے۔ انہوں نے اپنی گفتگو پر تمہید باندھی تو ایک لمحے کے لیے یوں محسوس ہوا کہ شاید وہ کانفرنس کے موضوع سے واقف نہیں ہیں۔ کیونکہ انہوں نے گورنمنٹ کالج ساہیوال سے اپنے پچاس سالہ تعلق پر بات چیت سے ابتداء کی۔ تاہم جوں جوں وہ تقریر کرتے گئے توں توں اندازہ ہوتا گیا کہ وہ نہ صرف موضوعِ گفتگو سے بخوبی آگاہ ہیں بلکہ ان کی فی البدیہ گفتگو کا ایک ایک لفظ موضوع کے اظہار اور اس کی حقانیت کی عکاسی کرتا ہے۔

شامی صاحب کی گفتگو میں بیان کیا گیا ایک جملہ پوری کانفرنس کی تمام تقاریر پر بھاری تھا۔ اور وہ یہ کہ “ہمیں انگریزی کی تعلیم پر کوئی اعتراض نہیں، البتہ انگریزی میں تعلیم پر سخت اعتراض ہے۔”

میرے خیال میں اس ایک جملے کے بعد تقریب کی روئیداد کا بیان ختم ہو جاتا ہے۔ تاہم اگر شامی صاحب کی بقیہ تقریر کے بارے میں بات کی جائے تو انہوں نے نہایت احسن انداز سے فکرِ قائد کی روشنی میں اردو زبان کی اہمیت اور قومی یک جہتی پر سیر حاصل گفتگو کی۔ انہوں نے وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب عمران خان صاحب کے اس ویژن کی تعریف کی جس میں وہ قومی زبان بولنے اور قومی لباس پہننے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے مطالبہ کیا کہ جناب خان صاحب کو چاہیے کہ وہ اپنے ویژن کو عملی جامہ پہناتے ہوئے قومی زبان اردو کو فوری طور نافذ کریں۔ اس ضمن میں سب سے پہلا قدم مقابلے کے امتحانات سمیت تمام انٹرویو کو اردو میں شروع کروانے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت صرف یہ اعلان ہی کر دے کہ ان امتحانات میں اردو یا انگریزی زبان کا اتنخاب طالب علم پر ہو گا۔ تو اس سے ہی تمام حقیقت عیاں ہو جائے گی۔ کہ قوم انگریزی کی بہ نسبت اپنی قومی زبان کو کتنی ترجیح دیتی ہے۔

تقریب کے اختتام پر گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ساہیوال کے پرنسپل جناب پروفیسر ڈاکٹر ممتاز احمد صاحب نے مختصر اختتامی کلمات کہے۔ جناب ڈاکٹر صاحب بہت ہی نفیس شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کی تقریر کے دوران میں یہ سوچ رہا تھا کہ ایک لمبے عرصے کے بعد گورنمنٹ کالج ساہیوال کو ایسی متحرک، زیرک اور دانا قیادت میسر آئی ہے۔ اور اب امید کی جا سکتی ہے کہ اس ادارے سے ایک بار پھر ایسے گوہرِ نایاب تراشے جائیں گے جو ملکی و بین الاقوامی سطح پر ضلع ساہیوال اور ملک پاکستان کا نام روشن کریں گے۔۔

پروفیسر صاحب کی جانب سے تقریر کے بعد کانفرنس کے معزز مہمان خصوصی اور مہمان اعزاز کو یادگاری شیلڈ پیش کی گئی۔

کانفرنس کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ اس میں کالج کے طلباء و طالبات کی نہ صرف کثیر تعداد شامل تھی۔ بلکہ سب نے مقررین کو نہایت دلچسپی کے ساتھ سنا اور ہر بات پر تالیاں بجا کر داد دی۔ ان کا جوش و خروش دیدنی تھا اور یہ ظاہر کرتا تھا کہ انہیں زبردستی لا کر ہال میں نہیں بٹھایا گیا ہے بلکہ وہ یہاں کچھ سیکھنے آئے ہیں۔ اور سیکھ کر ہی جا رہے ہیں۔

تقریب کے دوران راقم الحروف نے ایک بات کی کمی شدت سے محسوس کی۔ اور وہ یہ کہ مقررین نے اردو زبان کے دیگر تمام پہلوؤں پر تو خوب روشنی ڈالی۔ تاہم دانستہ یا نادانستہ طور پر اردو میں سائنس و ٹیکنالوجی کی اہمیت کو نظر انداز کر گئے۔ اس بات کا شکوہ میں نے تقریب کے بعد محترمہ فاطمہ قمر صاحبہ سے ملاقات میں بھی کیا۔ میں نے انہیں حال ہی میں کراچی سے شائع ہونے والے ماہنامہ گلوبل سائنس کے شمارے کی کاپی بھی دی۔ (جس میں راقم الحروف کی سائنسی تحاریر بھی شامل ہیں) اور بتایا کہ صرف ایک شمارہ ہی یہ بیان کرنے کے لیے کافی ہے کہ اردو زبان میں سائنس و ٹیکنالوجی کو بھی بعینہ ہی بیان کیا جا سکتا ہے جتنا کہ دوسرے علوم کو…..

نیز جو لوگ اردو میں سائنسی اصطلاحات کی کمی کا رونا روتے ہیں۔  انہوں نے دراصل کبھی اردو میں سائنس کا مطالعہ ہی نہیں کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس سادہ و پروقار تقریب کا اختتام دعائیہ کلمات کے ساتھ ہوا۔ جس میں تمام شرکاء کی جانب سے اجتماعی طور پر ملکی سلامتی و ترقی اور ملک میں قومی زبان کے متفقہ نفاذ کی دعا کی گئی۔ اور یہ عہد کیا گیا کہ آئندہ ہر شخص انفرادی سطح پر اردو زبان کی ترویج میں اپنا کردار ادا کرے گا۔

Facebook Comments

ندیم رزاق کھوہارا
اردو زبان، سائنس، فطرت، احساس، کہانی بس یہی میری دنیا ہے۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply