کتے اور تکے۔۔ربیعہ سلیم مرزا

بارہ بجے تو حاجی صاحب نے صحن کےتین چکر لگائے ،جب یقین ہوگیا کہ گھر بھر سوگیا ہے  تو انہوں نے کمرے کی چٹخنی چڑھا دی، ادھ سوئی حاجن کو محبت سے اپنی طرف کھینچا۔۔
حاجن اتنا ہی کسمسائی جتنی شرعاً اجازت تھی ۔حاجی صاحب نے سرگوشی میں التجاء کی ۔۔
حاجن  بھی  اتنی کافر نہیں تھی کہ رات بھر فرشتوں کی پھٹکاریں سنتی۔پھر بھی جانتی تھی کہ سستی محبت کی قدر نہیں رہتی، غنودگی نما سپردگی میں قریب آکر کہنے لگیں
“مجھے بھوک لگی  ہے”۔
“اس وقت ،تم نے رات کو کھانا نہیں کھایا تھا “حاجی صاحب کے دیدوں میں پیار کاریٹ ڈالر سے بھی اوپر چڑھا ہوا تھا،
“نہیں ۔مسور کی دال کے ساتھ سفید چاول پکے تھے میرا یورک ایسڈ بڑھ جاتا ہے  “حاجن نے اتنی محبت سے کہا کہ حاجی صاحب کو لہجے کے لاڈ میں فراڈ دکھائی ہی نہیں دیا ۔۔
“شیدے کبابی کے پانچ تکے،ایک خمیری روٹی اور ٹن والی کوک ،اگلی بات اس کے بعد”
حاجی صاحب نے نیم تاریکی میں حاجن کے ڈھلتے حسن اور اپنی ادھیڑ جوانی کا موازنہ کیا ۔سودا مہنگا نہیں تھا۔۔۔

رات کے ساڑھے بارہ بجے بائیک نکالی اور چار کلومیٹر دور شیدے کے تکہ شاپ پہ جا پہنچے۔وہاں صورتحال دیکھ کر دل ہی بیٹھ گیا ۔کسی کا چھ لیگ چھ چیسٹ پیس آخری آرڈر لگ رہا تھا، تھوڑی منت زیادہ سماجت سے تین سیخ تکہ اور دوکباب مل ہی گئے ۔اسی آرڈر کے ساتھ حاجی صاحب کے تکے بھی نکرے لگ گئے، سرد رات میں خوشبودار دھوئیں کے باعث ماحول خوابناک سا لگ رہا تھا ۔۔۔ کوئلوں پہ الٹ پلٹ ہوتے چیسٹ پیس حاجی صاحب کی اشتہا بڑھا رہے تھے۔۔۔
تھوڑی دیر بعد حاجی صاحب تکوں کا شاپرہینڈل پہ لٹکائے گولی کی رفتار سے گھر کو بھاگے ۔۔
کالونی کی چھوٹی سڑک پہ مڑتے ہی دو کتوں نے بھونکتے ہوئے موٹر سائیکل کے  ساتھ بھاگنا شروع کردیا ۔
حاجی کی تو جان ہی نکل گئی ۔ٹانگیں ٹینکی پہ رکھ لیں ۔ایک کتے نے جھپٹ کر شاپر پھاڑ دیا ۔سارے تکے بکھر گئے ۔کتے رک گئے
خطرے سے نکلے تو رک کر دیکھا دونوں کتے بنا چٹنی کے تکے کھارہے تھے ۔
حاجی کا بچا کھچا دل بھی ٹوٹ گیا ۔جذبات پہلے ہی تکوں کے ساتھ بکھر چکے تھے ۔
وہ دھیرے دھیرے گھر پہنچے ۔ دبے پاؤں کمرے میں آئے تو دیکھا حاجن خراٹے لے رہی تھی
وہ بھی چپ چاپ بیڈ پہ آکےڈھے گئے ۔ ۔حاجی صاحب کے ارمان بھی تکوں کے ساتھ بکھر چکےتھے۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

صبح کسلمند طبیعت سے اٹھے ،مسجد میں فجر کی نماز ادا کی ۔تلاوت کی اور گھر کی بجائے وقوعہ پہ جا پہنچے ۔ساتھ والے خالی پلاٹ میں دونوں کتے شمالا ً جنوبا ً پیٹھ جوڑے کھڑے تھے۔تب حاجی صاحب پہ انکشاف ہوا کہ ان میں سے ایک کتیا تھی ۔۔۔۔کچھ بچے پلاٹ کی سائیڈوں پہ کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے ۔حاجی صاحب نے ادھر اُدھر دیکھا ۔۔۔ایک پوری اینٹ اٹھاٰئی اور ان کے درمیان نشانہ لے کر دے ماری ۔کتے درد بھرے انداز میں بھونکے ۔لڑکوں نے بھی حاجی صاحب کی دیکھا دیکھی سنگ باری شروع کردی ۔۔۔ حاجی صاحب فاتحانہ انداز میں مسکرائے اور گھر کی طرف چل پڑے
دور تک کتوں کے چیخنے کی آوازیں آتی رہیں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply