کاش میر حسن ،بھٹو زرداری ہوتا۔۔۔عزیز خان

بطور پولیس آفیسر میں نے بہت دفعہ جلے ہوئے کٹے ہوئے بُری طرح زخمی افراد دیکھے ،بُہت بُری حالت میں لاشیں بھی دیکھیں ،کئی دفعہ دل بوجھل ہوا ،مگر ڈاکٹرز کی طرح پولیس والوں کا بھی دل پتھر کا ہو جاتا ہے اور یہی حال کُچھ میرا ہے۔

کُچھ دن قبل میں نے سوشل میڈیا پر ایک دس سال کا بچہ اپنی ماں کی گود میں تڑپتے دیکھا جس طرح سے وہ بچہ تکلیف میں تھا اور تڑپ رہا تھا کوئی بھی صاحب اولاد شخص ایسا منظر نہیں دیکھ سکتا ۔
تفصیلات سے معلوم ہوا کہ اس بچے کا نام میر حسن ابڑو ہے اور شکار پور کا رہائشی ہے جس کو پاگل کُتے نے کاٹا تھا مگر شکار پور میں ویکسین نہ ہونے کی وجہ سے اُسے دورے پڑ رہے ہیں ۔
اگلے دن معلوم ہوا کہ وہ بچہ میر حسن دم توڑ گیا بچے کو لاڑکانہ میں بھی کُتے کاٹنے کی ویکسین میسر نہ ہو سکی۔
حسب معمول میڈیا کو خبر مل گئی بار بار tv چینلز پر خبر آتی رہی ،
دُکھ کی بات یہ کہ  پیپلز پارٹی کی صوبائی وزیر صحت عذرا پلیجو زرداری جو کہ آصف زرداری اور فریال تالپور زرداری کی بہن ہیں کا یہ بیان کہ “کُتے کاٹنے کی ویکسین بُہت مہنگی ہے اس لیے احتیاط سے استعمال کرنی چاہیے اور یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کُتا پاگل تھا یا نہیں” یعنی پہلے ویکسین لگانے سے پہلے کاٹنے والے کُتے کا ٹیسٹ کرنا چاہیے کہ وہ پاگل ہے یا نہیں پھر مہنگی ویکسین استعمال کرنی چاہیےاور جو مہنگی کتنی ہےصرف 516 روپے کی ۔۔

یہ بیان ایک ایسی عورت دے رہی ہے جس کا خاندان تین دہائیوں سے سندھ پر حکمرانی کر رہا ہے جس کا بھائی اور بہن اربوں کی کرپشن میں جیل میں ہیں ،جن کے گھوڑے اور کُتے لاکھوں کی خوراک کھاتے ہیں ،جن کے فرنٹ مین ڈاکٹر عاصم اور شرجیل میمن کئی سو اربوں کی کرپشن کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور  جو خود بھی ایک ماں ہے۔

پھر ایک وزیر بلدیات سعید غنی کا بیان آیا کہ یہ اُن ماں باپ کی غلطی ہے جنہوں نے انجیکشن نہیں لگوایا ۔۔
سعید غنی صاحب آپ سارا دن اپنے آقاؤں کی کرپشن بچانے کیلئے بیانات دیتے رہتے ہیں، اپنی قبر کالی کرتے رہتے ہیں،کراچی کے کچرے پر سیاست کرتے کرتے تُم لوگ بھی کچرہ ہوگئے ہو کچرے کی بو آتی ہے اب تم لوگوں سے۔۔
آپ فرماتے ہو کہ ماں باپ نے انجیکشن نہیں لگوایا ہو گا ؟ کونسا ایسا ماں باپ ایسا ہے جو اپنے بچے کا علاج نہیں کرواتا بس ہر بات پر سیاسی سکورنگ ضروری ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق سندھ میں ایک سال میں ایک لاکھ سے زیادہ کُتے کاٹنے کے  کیسز آئے لیکن ویکسین صرف 6000 لی گئی اتنی مہنگی جو ہے انسان کی زندگی کی قیمت سے کئی گُنا زیادہ ۔
میر حسن کی جان کی کیا قیمت تھی ؟قیمت تو بلاول بھٹو زرداری کی ہے آصفہ کی ہے جُنید صفدر کی ہے عمران خان کے بیٹوں کی ہے جن کے کُتے لاکھوں کی غذا کھاتے ہیں اگر ان کو چھینک بھی آجائے تو علاج  کیلئے لندن جانا پڑتا ہے۔

خورشید شاہ 500 ارب کی کرپشن میں گرفتار ہوا ،پیٹ میں تکلیف ہوئی، پمز اسلام آباد میں داخل کر دیا گیا ،ڈاکٹروں کی فوج موجود رہی
ایک ماں اپنے دس سالہ بیٹے کو لیکر شکار پور ہسپتال گئی معلوم ہوا ویکسین نہیں، لاڑکانہ ہسپتال گئی پتہ چلا یہاں بھی ویکسین نہیں ،آخر سب سے بڑے ا فسر کے دفتر کے باہر بیٹھ گئی کہ شاید یہ اس کے بیٹے کو بچا لے مگر ان افسران کے پاس کہاں وقت ہوتا ہے
آصف زرداری کی بہن وزیر صحت عذرا پلیجو زرداری وزیر بلدیات ،سعید غنی وغیرہ نے اپنے بیانات دے دیے ان کی ذمہ داری اب ختم ہوگئی ،وزیراعلیٰ مرادعلی شاہ کو تو توفیق نہیں ہوئی کوئی بیان  بھی دینے کی۔

بلاول بھٹو کو اس واقعہ کا شاید علم بھی نہ ہو کیونکہ یہ تو ان حکمران خاندانوں کیلئے عام سی بات ہے مگر وہ ماں جس کی گود میں اُس کا بیٹا تڑپ تڑپ کر دم توڑ گیا ،جس کے لیے صرف 516 روپے کی ویکسین دستیاب نہ ہو سکی، قیامت والے دن ان حکمرانوں کا گریبان ضرور پکڑے گی، یہ بھی ہو سکتا ہے یہ حکمران اسی دنیا میں اپنا حساب دے کر جائیں ،اسی طرح کے تکلیف دہ موت کے عمل سے گزریں اور 516 ارب کی دوائیاں بھی انہیں نہ بچا سکیں ۔

عمران خان آپ بھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ سندھ میں آپ کی حکومت نہیں، سندھ بھی پاکستان کا حصہ ہے یہ سب اُن حکمرانوں کا بھی قصور ہے جنہوں نے 72 سال اس مُلک پر حکمرانی کی اور اس مُلک کو بےدردی سے لوٹا۔

Advertisements
julia rana solicitors

مگر دس سالہ میر حسن ابڑو مرتے وقت یہ ضرور سوچتا ہو گا
“کاش میں بھی بھٹو زرداری ہوتا”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply