بقائن۔۔۔قسط3/محمد خان چوہدری

شکیلہ کی ماں اپنے سسرال کے گاؤں کی بڑی چوہدارئن تھی، سسرال کی اپنی ملکیت زمین بھی کافی تھی ،ساتھ اس کی شادی پہ  اس کے بھائی  چوہدری فیروز نے ڈھوک شرفو والے چوہدریوں کی اس گاؤں میں وراثت سو بیگھے رقبہ اس کو برائے کاشت مستعار دیا تھا، جس کا حاصل وہ وصول کرتی، لیکن اس کالگان ۔مالیہ بھائی  خود ادا کرتا۔۔
یہ بندوبست دیگر تین اور گاؤں میں بھی تھا جہاں زمین کی ملکیت تو ڈھوک شرفو کے چوہدریوں کی تھی ،کاشت وہاں بیاہی ان کی بہن بیٹی کی سسرال والے کرتے۔دوسری بڑی بات شکیلہ کا باپ علاقے میں مقامی نسل کے دوڑ والے بیل پالنے میں مشہور تھا۔
جشن نوروز والے دن اس گاؤں میں بیلوں کی سالانہ مشہور دوڑ ہوتی، جسے جلسہ کہتے ہیں اس کا بانی بھی شکیلہ کا باپ ہوتا۔ علاقے کے مشہور بیلوں کی جوڑیاں جمع ہوتیں، اس میلے کے میزبان تو سارے گاؤں والے ہوتے، جن کے ڈیروں پر بیل اور انکے ساتھ آئے مہمان ٹھہرائے جاتے، دوڑ کے میدان میں ظہر کے بعد جانے سے پہلے تمام مہمانوں کا کھانا شکیلہ کے باپ کے ڈیرے پر دیا جاتا، جس کے بعد یہ جوڑیاں ڈھول اور شہنائ کے ہمراہ گراؤنڈ میں جاتیں۔گاؤں میں یہ صحیح جشن کا دن ہوتا ۔دیہات میں اتنی بڑی تقریب ہو اور گروپ بندی نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں۔۔
شروع میں جشن نوروز اور گاؤں کے مزار کا عرس گردونواح کے گاؤں سمیت مشترکہ ہوتے، پہلے تین دن مزار پہ  میلہ لگتا، ڈالیاں آتیں، پنجاب بھر سے گانے والیاں جمع ہوتیں، قوال آتے، مزار سے ملحق بڑے میدان میں جھولے لگتے۔

دکانیں سجائی جاتیں، مویشیوں اور زرعی اوزاروں کی خرید و فروخت ہوتی، چوتھے دن بیلوں کی دوڑ کے ساتھ میلہ عرس اور جشن ختم ہوتے، لیکن چند عشرے قبل سیاسی تفرقہ بازی کی وجہ سے بیلوں کی دوڑ والے دن ساتھ والے گاؤں میں بھی مقابلے میں دوڑ کا جلسہ رکھا گیا، مزار کے اس وقت متولی پیر شاہ جی شکیلہ کے باپ کی بجائے دوسرے گاؤں کا ساتھ دیا، حالانکہ شکیلہ کی ماں کی شادی کرانے میں پیر شاہ کا رول اہم تھا، چوہدری فیروز کا والد ان کا مرید سے زیادہ دوست تھا۔ لیکن مقامی معاملات میں سید اور چوہدری زیر زبر کی مسابقت میں حریف بن گئے،یوں بعد میں علاقے کے معززین نے جلسوں کی تاریخ آگے پیچھے کر کے صلح کرا دی، بیلوں کی دوڑ عرس سے پہلے دن کرانے پہ  اتفاق ہو ہی گیا۔شکیلہ کی ماں دعوت نہ دیتی تو بھی رشتہ داروں کی اکثریت تو میلہ دیکھنے آتی ، ان کے ہاں ہی اترتے، لیکن اس بار
بزرگ خواتین بھی ساتھ آئیں،چوہدری فیروز ، بیگم اور نوکرانیوں کے ہمراہ جب اپنی  جیپ پر بہن کے ڈیرے پر پہنچے تو وہاں خوب گہما گہمی تھی۔شکیلہ اور اس کی ماں صبح سے ” کل ول ” کا شکار تھیں کہ چوہدری فیروز فیملی کب آتی ہے، کیسے آتی ہے ،رشتہ ہوتا ہے تو کیسے ! لیکن انسان کو جب جو چاہے ملنے لگتا ہے تو وہ ھل من مزید میں پھنس جاتا ہے۔
جیپ جب حویلی باہر رُکی، بڑا پھاٹک کھولا گیا، چوہدری نے جیپ برآمدے کے سامنے پارک کی، میاں بیوی نیچے اترے،ڈگی کا ڈور کھولا گیا نوکرانیوں نے سامان اتارنا شروع کیا تو وہاں موجود خواتین کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔مٹھائی  کے ٹوکرے، کپڑوں کے سوٹ کیس، پھولوں کے گلدستے، آٹا، میدہ، چینی شکر، سوجی، گڑ کے تھیلے،چار پانچ کارٹن ۔ گھی کے کنستر، جیولری باکس جو شاہد کی امی اٹھائے ہوئے تھی، اور چند ریپرز، شکیلہ کی ماں کے پہلے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے، پھر اس نے حویلی میں بنے نئے کمروں میں ایک کھول کے سامان اندر رکھوایا اور اسے تالا لگانے کے بعد بھائی  اور بھابھی سے ملی،چوہدری فیروز وہاں موجود خواتین سے درجہ بدرجہ ملے، شکیلہ کے والد بھی حویلی کے سامنے ریڑی جہاں شامیانے لگا کے عام مہمانوں کو کھانا کھلایا جا رہا تھا ،چھوڑ کے حویلی آئے چوہدری کا مؤدبانہ استقبال کیا ،شاہد کی والدہ کے پاؤں چھوئے ، اور چوہدری کے ساتھ بیٹھک میں چلے گئے۔
وہاں خاندان کے بزرگوں نے کھانا کھایا، حقُے کی محفل جمائی  ۔ گاؤں سے لوگ بیل دوڑ کے میدان جانا شروع ہوئے۔۔ڈھول بتاشے شہنائیاں بجنے لگیں ، شکیلہ کے والد کے بیلوں کی سجی سجائی  جوڑی بھی شان سے روانہ ہوئی ،ہر طرف سے لوگ جمع ہونے لگے اور دربار سے ملحق بڑے میدان میں پیڑ سج گیا، ٹریکٹر چلنے لگے، مٹی بھربھری کی گئی۔
اوول شیپ میں دائرے میں لوگ قطار در قطار بیٹھ گئے، لاؤڈ سپیکر سے اعلان ہوا کہ پہلا پھیرا بانی جلسہ چوہدری کی جوڑی کا ہو گا۔ باری باری جوڑے پنجالی میں جکڑے کراہ میں مٹی کھینچنے کے اپنے کرتب دکھاتے اور تماشائیوں کے شور کی داد پاتے رہے، ڈیڑھ گھنٹے میں یہ تماشا تمام ہوا۔ تمام شرکاء  مالکان ڈھول کی تھاپ پہ ناچتے اپنے بیلوں کی نکیل تھامے ہنسی خوشی روانہ ہو گئے، اس کھیل کی خوبی یہ ہے کہ گراؤنڈ میں تو سب اچھا ہی ہوتا ہے اصل فیصلہ کہ کون سا بیل سب سے جیتا ہے ،علاقے میں اگلے روز محفلوں میں بحث سے طے ہوتا ہے ،جس میں الیکشن کی طرح اختلاف
موجود رہتا ہے، لیکن یہ شغل مویشیوں کی افزائش نسل اور پرورش کے لئے بے حد سود مند ہے۔

مصنف:محمد خان چوہدری

کراہ گراؤنڈ سے واپسی کے بعد بڑی حویلی کے صحن میں مرد دوبارہ جمع ہو گئے،اس دوران خواتین نے تو باقاعدہ فنکشن ترتیب دے دیا، ڈھولک آ گئی گاؤں کی لڑکیاں گیت گانے لگیں ۔اہل حرفت کی خواتین اور دیگر ملازمین سب جمع تھیں، رونق بہت خوب تھی،شکیلہ کی ہم عمر گاؤں کی سہیلیاں زیادہ مصروف ہوئیں اسے بناؤ سنگھار کر کے دلہن بنایا گیا،بزرگ خواتین اپنے گروپ میں ماہرانہ تبصرے کر رہی تھیں۔شکیلہ کی امی اور گھر کی دیگر عورتوں نے سامان کمرے میں نمائش کے طور سجا دیا۔
اب انتظار تھا پیر شاہ کے جانشین شاہ جی کے آنے کا، تعجب خیز امر یہ بھی تھا کہ ان کے گھر کی سیدانیاں بھی اس تقریب میں شرکت کے لئے آئی  تھیں۔ نئے کمرے میں ان کو علیحدہ بٹھایا گیا شاہد کی والدہ ان کی میزبان تھی۔

شاہ جی تشریف لائے تو حویلی میں ہر طرف خاموشی ہو گئی، انہوں خاصی لمبی دعائے خیر پڑھی،مبارک سلامت کا سلسلہ شروع ہوا، شاہد کے والد نے بھانجی کے سر پہ  ہاتھ پھیرا ،اور ہتھیلی میں نوٹ پکڑائے ،دیگر محرم عزیزوں نے بھی اسی طور مبارک دی، حضرات کے لئے چائے مٹھائی  کی سروس شروع ہوئی  ۔ تو ادھر خواتین کی محفل بحال ہو گئی، شاہد کی امی شکیلہ کو انگوٹھی پہنانے لگی تو احتجاج کیا گیا کہ شاہد خود کیوں نہیں  آیا،وہ مدبر عورت مسکراتی رہی، اور شکیلہ کی امی کی کلائی  تھام کے اس میں سونے کی چھ چوڑیاں چڑھا دیں، دیگر خواتین نے باہم لین دین کے حساب سے شکیلہ کو مبارک کے پیسے دیئے، یہ رسم بخیر و خوبی تمام ہوئی ، مہمان رخصت ہوئے۔۔کچھ دیگر رشتے داروں کے ساتھ ان کے گھروں کو چلے گئے، نوکرانیاں برتن سمیٹنے اور دھونے لگیں،چوہدری فیروز دوبارہ زنانہ پورشن میں آئے، بہن کو پیار کیا، دعا کی اور مبارک دی۔
جواب میں بہن نے جو کہا”وڈی مہربانی لالہ ! پر تساں شاید نوں نہ آنڑ کے کوئی  چنگی گل نہیں  کیتی”۔۔
چوہدری جیسے زیرک اور مدبر شخص کو بھی اس موقع  پر ایسا شکوہ سن کے جھٹکا لگا۔۔
اس نے ہنس کے کہا، بہن میری پرانی رسم انج ای چلدی پئی اے ، جس دا منگیوا اوہ گھر راکھی بیٹھے وا۔۔لیکن چوہدری نے ماحول کی نزاکت سمجھ لی اور بیگم سے اپنے گھر واپس چلنے کا کہتے ، وہیں سب کو خُداحافِظ کر کے جیپ  کے پاس گیا، سٹارٹ کی، نوکرانیاں اور بیگم سوار ہوئے، جیپ حویلی سے باہر نکل چکی تھی،شکیلہ کی امی تو یہ آس لگائے بیٹھی تھی کہ رات یہ لوگ ر کیں گے شادی کی تاریخ اور دوسرے بندوبست بارے پروگرام فائنل ہوں گے، لیکن شاہد بارے اس کے دل میں بیٹھے چور نے اس سے یہ بات اگلوا دی۔
چوہدری فیروز اور اس کی بیوی گھر سے طے کر کے آئے تھے کہ رشتہ ہونے کی بات برادری کے سامنے ہو جائے۔وہ اکلوتے بیٹے کی شادی کسی عجلت میں کرنے کا سوچ بھی نہیں  سکتے تھے،آگے فصل کی کٹائی  کا سیزن تھا، وہ اپنی زندگی کی یہ قیمتی خوشی رسم و رواج اور روایات کے مطابق بھر پور انداز میں کرنے کے جائز طور متمنی تھے، شاہد کے ٹھنڈے مزاج سے بھی واقف تھے،چوہدری فیروز کا زندگی کا تجربہ بھی بہت تھا،وہ ان معاملات کی نزاکت سے واقف تھا۔ حویلی بہت بڑی تھی، اس میں ہر شادی پر اس زمانے کی ضروریات کے مطابق توسیع ہوتی آئی، اب بھی وہ اس میں نیا یونٹ جو نئے جوڑے کے لئے موزوں ہو بنانا چاہتے تھے۔شکیلہ کی ماں    جلدبازی کی عادی تھی، اسے میکے سسرال میں بات منوانے کی عادت سی تھی،اس نے اُس رات زندگی میں شاید پہلی بار شکیلہ کے والد سے شادی کے معاملے پر مکمل تنہائی  میں بات کی،وہ تو اگلے روز ہی جوابی تقریب کے لئے ڈھوک شرفو جانے کے پروگرام پر بضد تھی، میاں اس کے مزاج سے واقف تھا، کافی دیر تو وہ اس کی ہاں میں ہاں ملاتا رہا، آخر اس نے چوہدری بن کے یہ کہا۔۔۔ ڈھوک شرفو اب تمہارا میکہ نہیں  رہا۔ شکیلہ کی سسرال ہے، تم شروع سے اس کے لئے کانٹے مت بوؤ۔۔
وہاں اب فیروز نہیں  شاہد چوہدری ہو گا، مزاج دھیما رکھو اور بیٹی کو بھی ننھیال اور سسرال کا فرق سمجھا دینا،وہ چوہدری اشرف خان کی وراثت ہے، اب تمہیں صرف میری بیوی کا رتبہ میسر ہو گا ،جیسے وہ کہیں گے ، جب وہ کہیں گے ہم ویسا ہی کریں گے، شاہد بہت پڑھا لکھا اور خود دار بچہ ہے، تم کوئی  غلطی مت کرنا،ہاں شکیلہ کو ذہنی طور پر تیار کرو کہ اب وہاں اس نے گھر نہیں  گاؤں سنبھالنا ہے،شکیلہ کی ماں حیران ہو کے میاں کی شکل دیکھتی رہی، وہ سوچ بھی نہیں  سکتی تھی، اتنی دانش اس کے پاس ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply