کچھ دنوں سے ناجانے کیوں من چاہ رہا ہے تمہارے نام اک آخری چِٹھی لکھوں !
جس میں تمہیں اجنبی کہہ کر مخاطب کروں۔پھر سوچتی ہوں خط کا نفسِ مضمون کیا ہونا چاہیے؟ان لمحوں کی یاد تازہ کروں جو ہم نے ساتھ بِتائے ، یا اس مستقبل کا احوال لکھوں جس کے تانے بانے ہم نے ساتھ بُنے تھے ۔ پر اب یہ سب دہرانا بے سُود ہے ۔تو کیوں نہ ان خلاؤں کا لکھوں جو تمہارے جانے کے بعد میری ذات میں پیدا ہوا ، یہ کیوں نہ لکھوں کہ میری خود اعتمادی مجروح ہوئی ہے ، میرے کتنے دن کتنی راتیں بے یقینی کی کیفیت میں گزری ہیں ، میں نے جب جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے میرے لفظ کھو گئے ، میں نے بہت دفعہ بے ساختہ تمہیں پکارا ۔۔۔
ان تلخیوں کا ذکر کیوں نہ کروں جو میرے اندر گُھل چکی ہیں ، ان خساروں کی زردیوں کا کیا؟۔۔ جو تیرے بعد چہرے پر نمایاں ہو گئیں ، ان محرومیوں کا کیا جو میری ذات کا حصہ بن گئیں ۔ ان سناٹوں اور وحشتوں کا کیا جو مجھ میں سرایت کر گئے ، اس کھوکھلی ہنسی کی روداد کیوں نہ لکھوں جو رسمِ دنیا نبھانے کے لیے میں ہنسی . ان اشکوں کا کیا جو میں نے وجہ بے وجہ بہائے .۔۔۔میں یہ بھی جانتی ہوں کہ میرے یہ سارے الفاظ بے اثر ہیں کیونکہ تم لفظوں کے ساحر ہوں ۔ ۔ جانتی ہوں تم لفظوں سے دلوں کو مسخر کرنے کے ہنر سے آشناء ہو ۔ میں یہ سب کرب صفحہ قرطاس پہ ڈھال بھی لوں تو کیا ؟؟؟اس پیغام نامے کو وصول کرنے والا تو کب کا کھو چکا ہے ۔
ثمینہ سعید!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں