ایک آ م ،ساتھ دو جا من کے درخت، اسی قطا ر میں امرود اور انا ر بھی، سامنے کچھ پو دے لیموں،ہری مرچ، ٹماٹر کے بھی تھے ۔تیسری سمت میں ٹھنڈی اور پرسکون دھریک کا گھنا درخت اور چوتھی طرف کی کیا ر ی میں خوبصورت گلاب اور موتیا ،ایک کنال کے باغ کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہا تھا ،در میا ن میں چھوٹا سا فوا ر ہ ۔۔
یہ خالہ سلمہ کی کوٹھی کےپیچھے کی طرف بنا ہوا باغ تھا، پہلے تو خالہ خود ہی اس کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔ پھر گھٹنوں کے درد کی وجہ سے ما لی لگوایا جس کی دن رات کی کوشش سے باغ میں بہار آ گئی ،اکثر خالہ سلمہ اور ان کے میاں شام کی چاۓ وہاں ہی پیتے ۔
پچھلے گھر کی دوسری منزل کے تیسرے کمرے کی کھڑکی سے سارا باغ نظر آتا ،آم کے درخت پہ بورآرہاتھا اور جا من بھی تخلیق کے مرحلے میں تھا باغ جوبن پہ تھا آج بھی سدرہ باغ کا نظارہ کر رہی تھی۔ نظر پیاری سی چڑ یا پہ پڑی جو ایک درخت سے دوسرے اور ایک ڈال سے اگلی ڈالی پہ ایسے جیسے ایک شہزادی اپنی سلطنت میں گھوم رہی ہے۔۔پھُدک رہی تھی۔
اب روز کا ہی معمول بن گیا چڑ یا اور سدرہ کا ۔چڑ یا کا باغ میں آ نا اور سدرہ کا کھڑکی میں کھڑا ہونا ۔آج چڑیا اکیلی نہیں تھی۔ ایک ساتھی اس کے ساتھ تھا ،وہ ساتھ جس کی تمنا ہر جاندار میں ہوتی ہے، اب جیسے انہوں نے ساتھ رہنے کا ارادہ کر لیا اور آشیانہ بننے لگا ،نئی جوڑی کو آشیا نہ بنانے میں دقت نہیں ہوئی ،سدرہ بھی بہت خوش ہوتی۔ ان کو دیکھ کے دل کی اداسی اور، بیٹوں کی یاد کچھ دیر کے لیے کم ہو جاتی ۔کچھ دنوں سے بیٹی آئی ہوئی تھی۔ وہ کھڑکی کی طرف جا نہ سکی۔ آج بیٹی کی واپسی ہوئی، بچوں سمیت آئی تھی۔ کچھ دنوں کے لیے رونق ہو گئی تھی، اس کے جانے سے َایک دم جیسے خا موشی چھا گئی تھی۔ مگر وہ تو عادی تھی اس اکیلے پن اور اس تنہائی کی۔ آج سدرہ کھڑکی کی طرف آ ئی تو اس کی خوش کی انتہا نہ رہی گھونسلے میں چڑیاکے منےمنےبچے چہچہارہے تھے، اب چڑیا مصروف ہو گئی تھی۔ سارا دن ان کو دانہ دنکا دینے میں ہی گزر جاتا ،چڑا بھی ساتھ ہی لگا رہتا، اب جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا ،بوٹ اب بڑے ہو رہے تھے سدرہ ان کو دیکھتی اور جیسے کسی اور ہی دنیا میں پہنچ جاتی ،اسے یاد آ رہا تھا وہ احمد سے شادی ہو کے اسی گھر میں آئی تھی۔ تب اس گھر میں کتنی رونق ہوا کرتی تھی۔ سا س، سُسر، دیو ر ،نندیں سب نے اسے بہت محبت اور ما ن دیا اور سدرہ نے بھی ان کی خدمات اور محبت میں کمی نہیں کی۔ نندیں بیا ہ کے سسرال اور سا س سسر اللہ کی رحمت میں چلے گے، احمد کے بھائیوں نے اپنے اپنے گھر بنا لیے کیونکہ ان کی بیویاں ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھیں۔ اللہ نے سدرہ کو بھی تین بچے دیے، بیٹی تایا کے گھر بیا ہی گئی اور خوش تھی اپنے گھر ۔
آج جو سدرہ کھڑکی کی طرف گئی تو دل دھک سے رہ گیا گھونسلا خالی تھا وہاں کوئی بھی نہیں تھا ،اس کا جیسے دل بھر آیا، اس نے سنا تو تھا کہ جب بوٹ کو پَر اُگ آتے ہیں تو پھر وہ گھونسلے میں نہیں رہتے،سوچ ہی رہی۔ انسا ن کے بچے کا بھی تو یہ ہی حال ہے بوٹ کے پر لگتے ہی وہ اُڑ جاتا ہے اور انسان کا بچہ وہ بھی تو ایسے ہی کرتا ہے ذرا خود جوگا ہوتا ہے تو اڑان بھر لیتا ہے پھر بوٹ کی طرح پیدا کرنے والے پا لنے پوسنے والے سب بھول کے نئی منز ل تلاش کرتے اور پھر وہاں کے ہی ہو جا تے ہیں۔ سدرہ نے دیکھا چڑیا اپنے آشیانے میں ہے چڑ ا شاید چڑیا کو چھوڑ گیا ہے کیونکہ وہ بھی واپس نہیں آیا چڑ یا کے بچوں کی طرح سدرہ کے بچوں نے اپنی دنیا ملک سے با ہرآ با د کر لی ہے ،سدرہ کا شوہر اس کی بھی اپنی دنیا ہے، وہ بھی چڑ یا کی طرح اکیلی ہے آنسو اس کے گا ل بھگو رہے تھے آنسو بھری آنکھوں سے اس نے چڑ یا کی طرف دیکھا اسے لگا وہ بھی رو رہی ہے کیونکہ دکھ مشترک تھا ،غم بھی ایک تھا۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں