خواہش۔۔۔ جانی خان

کڑکتی دھُوپ اور ناہموار سی سڑک پر سلیم دُوکانداروں کے سامان سے لدی ریڑھی کھینچے جارہا تھا۔ ریڑھی کے پہیوں کی گڑگڑاہٹ اور بے ترتیب سی چال سے اُن پہیوں کی ضعیفی کا پتہ چلتا تھا۔ جس سے ریڑھی کو کھینچنے کے عمل میں مزید قوت درکار ہوتی تھی۔مگر اُس کے ناتواں وجُود کو قوت اور دھُوپ میں پڑی برف کی طرح پگلتی عُمر کو وقت کی قلت کا ہی تو سامنا تھا۔۔پھر بھی وہ اپنی بساط کے مُطابق زندگی کی وہ لڑائی لڑ رہا تھا ۔جس میں ڈھال بھی وہ خُود تھا تو تلوار بھی وہ خُود۔ پیادہ بھی وہ خُود تھا تو گُھڑسوار بھی وہ خُود۔ سپاہی بھی وہ خُود تھا تو سپاہ سالار بھی وہ خُود۔ ایسی لڑائی لڑنے کے لیئے جس طاقت کی ضرُورت ہوا کرتی ہے وہ ایمان کی طاقت ہوتی ہے۔ ورنہ آدمی ریزہ ریزہ ہوکر بکھر جایا کرتا ہے۔
حالات خراب اور زندگی سخت ضرُور تھی مگر اتنی بھی نہیں کہ وہ بھُوکا ہی مرجاتا۔۔بھلا ہو چند دریا دل قسم کے سیٹ دُکانداروں کا۔ جو حلق تک قورمے و بریانیوں و چکن کبابو سے بھر جانے کے بعد اس جیسے کمیں کمینوں کو اپنا بچا کُچا کھانا کھانے کو دے دیتے تھے۔۔ بے شک اُس رزاق کے ہاں رزق کی کمی نہیں ۔ شاید وہ آزما رہا تھا ۔ ان بھوکے ننگوں کو اس طرح اور اُن دریا دل بے شرم و بے ننگوں کو اُس طرح رزق دے کر۔
ان سخی دُکانداروں و کاروباریوں میں کُچھ صاحبان قدرے نرم دل والےبھی تھے۔ اُن کے دل کی نرمی اگر خالصتاً اپنی بیگمات و اُن کی ضرُوریات و خواہشات کے لیئے تھی تو اس میں حرج ہی کیا تھا۔ جن کے میک اپ کے خرچے سے ہی کئی سلیموں کے گھروں کا چولہا جل سکتا تھا ۔ اُن کے دل کی نرمی و گرمی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا تھا کہ ان میں سے اکثر کی بیگمات نے کُتے بلی ایڈاپٹ یعنی گود لیئے ہوئے تھے۔ جن کی دیکھ بھال کے لیئے الگ سے نوکر چاکر تھے۔ اس طرح وہ ایک وقت میں زمانے کے دو مسائل حل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایک تو بے چارے و بے سہارا کُتے بلیوں کو رہائش و آسائش فراہم کر رہے تھے تو دُوسری طرف بے روزگاروں کو روزگار۔
۔۔یہ لو۔ اور دو گھنٹے بعد آنا یہاں سے کُچھ مال گودام واپس لے جانا ہے۔۔
اُن نرم دلوں میں سے ایک نرم دل سیٹھ اکبر نے سلیم کے پھیرے کے پیسے احسان جتلانے والے انداز میں دیتے ہوئے حُکم صادر فرمایا۔ تو وہ اپنے کندھے پر پڑے رومال سے پسینہ پونچتے ہوئے اور اثبات میں سر ہلاتے ہوئے روانہ ہونے لگا۔ روانہ ہونے سے پہلے اُس نے رقم گنی جو پہلے کی طرح کام کے حساب سے کم تھی۔اُس کا جی چاہا کہ اس بار پلٹ کر سیٹھ کو مُناسب پیسوں کا بولے مگر پھر کام کے دوبارہ نہ ملنے کے ڈر سے رُک گیا۔کیونکہ مارکیٹ میں سیٹھ اکبر ہی تھا جس کے پاس اس کے لیئے تھوڑا بہت کام آتا تھا۔ باقی دوکانداروں کے پاس اس کے لیئے کام کم ہی ہوتا تھا کیونکہ اُن کا اکثرمال کُچھ بھاری سا ہوتا تھا جسےاس کا ناتواں وجُود کھینچنے کی سکت نہیں رکھتا تھا۔
وہ ریڑی کھینچتے کھینچتے جب تھک گیا۔ اور اُس کا کام تقریباً مُک گیا ۔ تو قریبی مسجد میں نماز اور اُس کے بعد کُچھ دیر سستانےکی غرض سے داخل ہُوا۔ معمُول کے مُطابق اُس نے نماز ادا کی ۔ اور ایک دریا دل کی دی ہوئی بچی کُھچی روٹی کھائی۔
۔…………………………………
سلیم کی ریل گاڑی اُس کے گاوں کے اسٹیشن پہنچی تو وہ اپنی سیٹ سے اُٹھا اور گاڑی کے دروازے پر ایک ساعت کے لیئے رکا ۔۔ آنکھ بند کرکے گاوں کی ہوا کو پھیپھڑوں میں کھینچتے ہوئے مُسکُرایا کہ آگیا اپنے گھر۔ اسٹیشن سے سیدھے گھر کی راہ لی ۔گھر پہنچا تو گھر والے اُسے اپنے درمیان یوں اچانک پا کر خوشی سے جھُوم اُٹھے کیونکہ اُنہیں بھی سلیم کی آمد کا یقین نہیں ہورہا تھا۔
اُس کی آنکھیں بھی اپنوں کی قُربت پاکر کُچھ نم سی ہوئیں۔ اور ۔۔
زررر۔بزرررر۔۔یہ اُس کے تینتیس دس ٹائپ موبائل میں لگائی گئی وائبریشن تھی جس نے اس کی آنکھ کھولی۔
نماز کے بعد جب وہ کمر سیدھی کر کے لیٹا تو اُس کی آنکھ لگ گئی۔ مزدُور ہو یا نہ ہو مگر جو حق حلال کی کمائے تو رات ہو کہ دن اُسے پُرسکون نیند آتی ہے۔ دُوسری صُورت میں باقی اشیا کی طرح دولت سے نیند کو بھی خریدنے کی کوشش کی جاتی ہے جو اکثر کارگر ثابت نہیں ہوتی ۔
وہ جلدی سے اُٹھا۔ اور مسجد سے نکلتے ہوئے کال ریسیو کی۔ دُوسری طرف سیٹھ اکبر دھاڑ رہا تھا۔ کہ کہاں مر گئے اتنی دیر کرادی ۔ اور ساتھ میں دوچار نازیبا الفاظ کا تڑکا بھی لگایا۔ سلیم بس اتنا ہی کہہ سکا کہ ۔ ابھی آتا ہوں۔ معاف کرنا صاحب ۔
مگر ریڑی کو اپنی پارکنگ سے نکالتے ہوئے وہ سوچ رہا تھا کہ سیٹھ نے تو دو گھنٹوں کا وقت دیا تھا پھر ایسی کیا قیامت آگئی۔
سلیم یہ سب سوچتے ہوئے پریشانی کے عالم میں سیٹھ کی دُکان پر پہنچا۔سیٹھ اس کی شکل دیکھتے ہی دُبارہ سے شُروع ہوا۔۔۔۔ سلوُ ۔ نا جانے کہاں مر گیا تھا تُو۔ اتنی دیر سے انتظار کررہے ہیں تیرا۔
درحقیقت سیٹھ کو بیگم صاحبہ کے ساتھ کہیں جانا تھا جو وقت سے پہلے ہی آپہنچی تھیں۔ مگر کام نمٹائے بغیر جانا بھی ممکن نہ تھا۔ اور کھانے کے وقت مارکیٹ کے باقی مزدُور یا ریڑی والے غائب تھے۔
ٹھیک ہے سیٹھ صاحب ابھی مال اٹھائے دیتا ہوں آپ فکر نہ کریں۔ جب سلیم نے بیگم صاحبہ کو دُکان کے باہر کھڑی گاڑی میں پایا تو وہ کہانی سمجھ گیا۔ چونکہ سلیم کافی عرصے سے اس مارکیٹ میں کام کرتا تھا اس لیئے بہت سے لوگوں سے اس کی دُعا سلام بن گئی تھی خاص طور پر نوکر طبقے سے۔اُن میں سیٹھ کا ذاتی ڈرائیور آصف بھی تھا جس نے اسے ایک دن گپ شپ میں بتا دیا تھا کہ سیٹھ کا اپنی خواہشات کو بیگم صاحبہ کی خواہشات پر قُربان کرنا اُن کا شوق نہیں بلکہ مجبُوری ہے۔کیونکہ وہ پیدائشی زن مُرید ہیں۔ بیگم صاحبہ کو تھوڑی دیر انتظار کرانا اُنہیں بڑا مہنگا پڑتا ہے۔ ایک بار تو باقاعدہ سرونٹ کوارٹرز میں ہمارے ساتھ رات گُزارنا پڑ گئی تھی۔
بس تھوڑی دیر اور پھر نکلتے ہیں۔ سیٹھ اکبر نے گاڑی کے قریب جاکر بیگم صاحبہ سےمُسکُرا کر اور تقریباً بچ کر سرگوشی کی۔ جو گاڑی کے پاس ہی کھڑے ڈرائیور کے زیرو زیرو سیون نُما کانوں سےبچ نہ سکی۔ اور وہ دل ہی دل میں مُسکُرادیا ۔
دوسری طرف سلیم کے کان پر تو کُچھ نہ پڑا مگر اُس کی ترچھی آنکھ نے سیٹھ کا التجائیہ انداز دیکھ لیا اور وہ سوچ رہا تھا کہ ابھی ابھی فرعُون کے لہجے میں بات کرنے والا ایک دم سے کیسے بکری بن گیا۔
پھر سیٹ پر ترس کھاتے ہوئے اُس نے جلدی سےاُس کا سامان اُس کے گودام مُنتقل کرکے کام نمٹایا تاکہ بیچارے کی مُشکل آسان ہو۔۔کام ختم کرنے کے بعد ریڑھی واپس لا کر اُسے پارک کرکے تالا لگایا۔اُس کے بعد وہ چائے کے کھوکھے پر پہنچا ایک پیالی چائے پینے ۔
یراسلیم ۔۔ آج تو تیرا سیٹھ جلدی چلا گیا۔ کام کی چُھٹی پھر۔۔؟۔
چائے والے نے سلیم کو گرم چائے کی پیالی تھماتے ہوئے پُوچھا۔
ہاں ۔ آج ویسے بھی میرا کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ گھر کی یاد ستا رہی تھی۔ مالی حالت کی وجہ سے رمضان کے بعد عید پر بھی جا نہیں پایا تھا۔ اب سوچتا ہوں کُچھ بھی ہو۔ اس بقر عید پر ضرُور جاونگا۔۔سلیم نے چائے کو ساسر میں اُنڈھیل کرچُسکی لیتے ہوئے جواب دیا ۔
اس طرح گپ شپ لگاتے عصر کی اذان ہونے لگی۔ وہ چائے والے کو سلام کرتے ہوئے مسجد کی طرف روانہ ہوا۔ نماز کے بعد ایک ہی دُعا تھی کہ۔۔ اے رب تُو اتنی مالی طاقت دے کہ میں گاوں جاسکوں۔۔
وہ جیسے ہی مسجد سے نکلا تو ایک گاڑی کی ٹکر سے دُور جا گرا۔ گاڑی والا شاید خُدا ترس تھا کہ موقع ملنے کے باوجُود اُس نے گاڑی کو بجائے بھگانے کے روک لیا۔ پھر سلیم کو قریب جمع ہونے والوں کی مدد سے اُٹھا کر گاڑی میں ڈالا اور ہسپتال لے گیا۔
سلیم کو بظاہر کوئی خاص چوٹ نہیں آئی تھی مگر گاڑی سے ٹکرانے پر سر زمین سے جالگا جس سے وہ بے ہوش ہوگیا ۔۔ ڈاکٹروں کی تھوڑی سی کوشش نے ہوش میں لایا۔اور گاڑی والے کی جان میں جان آئی۔مزید مُعائنے کے بعد ڈاکٹروں نے اُسے جانے کی اجازت دے دی۔ اور ساتھ میں گاڑی والے کی طرف سے اتنی رقم بھی ملی کہ وہ گاوں جاسکے۔
سلیم نے پہلے تو رقم لینے سے انکار کیا یہ کہہ کر کہ آپ نے ٹکر کے بعد ہسپتال لایا ۔ اتنا وقت اور پیسہ برباد کیا ۔ یہی کافی تھا۔ ۔ مگر اُس کے اسرار پر شُکریہ ادا کرتے ہوئے رقم لینا ہی پڑی۔
اور ساتھ ہی آسمان کی طرف دیکھ کر زیر لب کہنے لگا۔ اے پروردگار تُو کتنا بڑا بادشاہ ہے۔کیسے لمحوں میں ہماری خواہشات پُوری کرتا ہے۔ دینے پر آجائے تو پل بھر میں وہ کُچھ دے دیتا ہے جو ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ بس ہماری ہی کوتاہیاں ہیں کہ ہم سمجھ نہیں پاتے۔۔
گاڑی والے کے پُوچھنے پر کہ بابا آپ کہاں جاو گے۔ میں پہنچا دیتا ہوں۔ تو اُس کا جواب تھا ۔۔ریلوے سٹیشن۔۔

Facebook Comments

جانی خان
تعریف اُس خدا کی جس نے جہاں بنایا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply