ایم ایم اے کی بحالی ، اہداف اور انجام۔۔۔طاہر یاسین طاہر

یہ امر درست ہے کہ ملک اس وقت سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے، نون لیگ کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز و محور بلاشبہ میاں محمد نواز شریف اور ان کے خاندان کی عدالتوں سے با عزت بریت ہے، جبکہ نون لیگ موجودہ سیاسی صورتحال میں تذبذب اور بحثیت سیاسی پارٹی کے بھی کشمکش کا شکار ہے۔حکمران جماعت کا ایک دھڑا جو سابق وزیر اعظم کو ہی پاکستان کا کلی نجات دہندہ سمجھتا ہے، چاہتا ہے کہ اداروں سے ٹکراو کر کے سابق وزیر اعظم کے لیے یہ فضا ہموار کی جائے کہ ان کے خلاف مقتدر اداروں اور اسٹیبلشمنٹ نے سازش کی، جبکہ اسی حکمران جماعت کا دوسرا دھڑا حتیٰ المقدور اداروں سے ٹکراو سے بچنے اور گریز کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
دوسری جانب اپوزیشن لیڈر رکھنے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی موجودہ سیاسی صورتحال کو اپنے حق میں بدلنے کے لیے تمام تر حربے استعمال کر رہی ہے۔پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اپنے جلسوں میں شریف خاندان اور آصف علی زرداری کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں،جبکہ حکومت کے وفاق میں اتحادی مولانا فضل الرحمان عمران خان کو ایجنٹ کہتے ہیں۔کراچی کی سیاسی صورت حال بھی تکلیف دہ ہے اور ایم کیو ایم و پیپلز پارٹی ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہی ہیں۔مذکور صورت حال کے علاوہ چھوٹی چھوٹی لسانی و علاقائی اور مذہبی جماعتیں کسی نہ کسی سطح پہ بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کر رہی ہیں۔چھوٹی بڑی سب سیاسی جماعتیں اپنی اپنی حکمت عملی کے تحت آمدہ انتخابات میں زیادہ سے زیادہ سیٹیں لینے کے لیے جوڑ توڑ میں لگی ہوئی ہیں۔
اسی جوڑ توڑ کے سلسلے کی نئی کڑی ہے کہ ایم ایم اے، یعنی متحدہ مجلس عمل کی بحالی اور دینی جماعتوں کے پھر سے اتحاد کا اعلان کر دیا گیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ملک میں مختلف مکتبہ فکر کی نمائندگی کرنے والی 6 سیاسی و مذہبی جماعتوں نے مل کر متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کی دوبارہ بحالی کا اعلان کردیاہے۔یہ اعلان جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی جانب سے پریس کانفرنس کے دوران کیا گیا۔
متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کی بحالی کے اعلان کے موقع پر سراج الحق کے ساتھ جمعیت علماء اسلام (ف) کے صدر مولانا فضل الرحمٰن اور جمعیت علماء اسلام پاکستان کے سربراہ پیر اعجاز ہاشمی اور دیگر جماعتوں کے سربراہان بھی موجود تھے۔ایم ایم اے کی بحالی کا اعلان کرتے ہوئے سراج الحق کا کہنا تھا کہ دسمبر میں نئے اتحاد کا سربراہی اجلاس منعقد کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ 2002 میں بنائی گئی متحدہ مجلس عمل نے خیبر پختونخوا میں 2002 سے 2007 تک حکومت کی تھی جس کے بعد ایم ایم اے کے اندر اختلافات پیدا ہونے سے اس کی مقبولیت ختم ہوگئی تھی۔بعد ازاں 2008 اور 2013 کے الیکشن میں متحدہ مجلس عمل کے امیدوار عوام کی واضح حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔اس سے قبل جمعیت علماء اسلام (ف) نے 2013 کے انتخابات سے قبل ایم ایم اے کی بحالی کی کوشش کی تھی لیکن جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر سید منور حسن نے اس کا حصہ بننے سے انکار کردیا تھا۔البتہ جمعیت علماء اسلام (ف) کے جنرل سیکریٹری مولانا عبد الغفور کی جانب سے گزشتہ چند روز میں مذکورہ اتحاد کے اراکین کو دوبارہ منانے کی کوشش جاری تھیں، جس کے لیے انہوں نے کئی اجلاس منعقد کیے، تاہم متعدد کوششوں کے بعد جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو منالیا گیا۔
ایم ایم اے کی بحالی بالکل ویسی ہی ہے جیسی ملی یکجہتی کونسل کی بحالی ہوئی ہے۔ملی یکجہتی کونسل میں بھی اتحاد و یگانگت کے لیے دینی و مذہبی جماعتوں کے نمائندگان و سربراہان اکٹھے ہیں مگر فی الواقع ملک میں عملی یگانگت کا کوئی مظاہرہ نظر نہیں آیا۔ ایم ایم اے کی بحالی کا فوری مقصد مذہبی سیاسی جماعتوں کی باہمی قوت کا اظہار ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ایم ایم اے،اب ماضی کی طرح کامیابی حاصل نہیں کر پائے گی۔ ماضی میں ایم ایم اے کی کامیابی اور کے پی کے(اس وقت صوبہ سرحد) میں حکومت بنانے میں کئی عوامل شامل تھے، جو موجودہ اتحاد کے اعلان کے وقت  ہمیں نظر نہیں آتے۔ایم ایم اے کی موجودہ شکل ایک سیاسی اتحاد سے بڑھ کر ایک پریشر گروپ سے زیادہ نہیں ہو گی۔مذہبی جماعتوں کا کم از کم ہدف کے پی کے یا بلوچستان میں حکومت بنانا ہے، جو کہ ممکن نظر نہیں آرہا۔دسمبر میں جب ایم ایم اے کا سربراہی اجلاس ہو گا اور انتخابی منشور سامنے آئے گا تو اس حوالے سے مزید بات کی جا سکے گی، فی الوقت اتنا ہی کافی ہے کہ مختلف الخیال اورمختلف مسلکی رحجانات والے کیسے ایک دوسرے کے امیدوار کے لیے ووٹ دیں گے؟ یا اپنے اپنے ووٹرز کو قائل کریں گے؟مجھے تو ایم ایم اے کی بحالی کا انجام ،ایم کیو ایم پاکستان اور مصطفیٰ کمال والے سیاسی اتحاد جیسا نظر آرہا ہے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply