نظم کہانی۔۔۔(5)ڈاکٹر ستیہ پال آنند

مائی چھبیلاں کی سبیل
(دھرم پورہ، لاہور کی ایک کہانی)

1948

سب کہتے تھے
دھرم پورہ کے اک کونے میں
نہر سے کچھ دوری کی ننگی بُچی پٹی
اس پر اک عورت کے قد کی
سیدھی ، ٹیڑھی کھڑی ہوئی
(کہا نہ میں نے؟ ننگی بُچی؟)
اک مریل عورت کے جیسی
اک مریل دیوار کھڑی تھی
آدھا ، پھٹا ہوا دھوتی کی دھجی جیسا
کپڑے کا اک ٹکڑا جیسے
ناف کے نیچے لٹک رہا تھا
کچھ بھی نہیں تھا
ایک ، اکیلی، ننگی ، بُچی اک دیوار تھی

“عورت قد” کی

(2)
اس کے بارے میں مشہور تھا
یہ دیوار تو صرف نشانی باقی ہےاب
پانی پلانے کے اک چھجے، سائبان کی
جس میں بیٹھی، اپنے ڈول سے
گڑوی بھر بھر
مائی چھبیلاں
پانی پلایا کرتی تھی پیاسے لوگوں کو
ریڑھیوں والے، گڈـ وں ، ٹانگوں، خوانچوں والے
گرمی سے ہلکان، ذرا رُک کر مائی سے پانی پیتے
تیرا بھلا ہو ۔۔ کہتے کہتے پھر چل پڑتے
اصلی نام میں کیا رکھا ہے؟
مائی چھبیلا ں نام سے ہی پہچانی جاتی تھی یہ بڑھیا

(3)
جب تقسیم ہوئی تو بھاگے
لوگ باگ، سب مرد ، عورتیں، بچے
بھرے بھرائے سب گھر بار چھوڑ کر
لؤٹے گئے اورمارے گئے یا بھاگ گئے
سب سرحد کے اس  پار
بھلا کوئی کیا جانے
اک اکلوتی، ڈھیلی ڈھالی یہ دیوار
جو سائبان کی یاد گار تھی
اپنے اکلاپے میں لپٹی کھڑی رہی ۔۔پر
یہ اکلاپا تو اب بھی
اے سننے والو
اڑتے پنچھی
چلتے ، پھرتے، کتے، بلیاں
اس کے ساتھ بانٹ ہی لیتے
نہر بھی اس دیوار سے کافی دوری پر تھی
پانی آنے کا کچھ بند و بست نہیں تھا
پھر بھی نہ جانے کیسے اس دیوار سے پانی بہتا رہتا
قطرہ قطرہ، دھار ، دھار، سی
لگاتار سی
مریل کتے
سوکھی ہڈیاں منہ میں لے کر
آتے، پانی پی کر اپنی پیاس بجھاتے
بھوں بھوں کر کے گالی بکتے
لڑتے بھڑتے ، پھر آتے اور پھرآتے
اور پھر آتے

(4)

میں سن پچپن میں لاہور گیا تو یہ دیوار ابھی باقی تھی
پانی بھی بہتا تھا
میں سن ستر میں لاہور گیا تو تب تک
سب کچھ ویسا ہی تھا
پانی، کوـے، چڑیاں، کتـے اور ۔۔۔انسان
میں سن نوـے میں لاہور گیا تو دیکھا
یا اللہ ، یہ کیا نقشہ تھا
پہلے سے کچھ اور بھی بوڑھی
مائی چھبیلاں کی دیوار توتب بھی کھڑی تھی
آگے پیچھے، دائیں بائیں
کچرے کے کچھ ڈھیر تھے، بدبو، باس مارتے
پانی تو کیا؟
خشکی تھی ، وہ بھی مٹ میلی

(5)

Advertisements
julia rana solicitors

نئی صدی کی نئی دہائی میں جب میں لاہور گیا، تو
دھرم پورہ میں
اپنی دوست کے گھر ہی ٹھہرا
شام کو اس کے ساتھ ہی میں باہر نکلا
تو دور دور تک کوئی بھی دیوار نہیں تھی
میں نے اپنی دوست سے پوچھا
دبے دبے لفظوں میں اس دیوار کی بابت
کیا پوچھا، یہ بات تو اب میں بھول گیا ہوں
اس نے کیا جواب دیا ۔۔
یہ بات ابھی تک یاد تھی مجھ کو
لیکن اب میں بھول گیا ہوں
ہاں، البتہ، اس دیوار کی یاد تو میرے
ذہن میں اک زندہ عورت سی کھڑی ہوئی ہے
اس لاہور کی باقیات کی ایک نشانی
جو تھا کل تک، لیکن جو آج نہیں ہے

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply