ترکش وفد کے ہمراہ وادی ء مہران کا دورہ۔۔۔(قسط1)محمد احمد

باب الاسلام سندھ کی تاریخی، علمی، ادبی، سماجی اور سیاسی حیثیت مسلم ہے۔ یہاں بڑے دینی مراکز ہیں، اور یہ دھرتی ہمیشہ اولیاء اللہ کا مسکن رہی ہے۔ جن کی دینی وعلمی خدمات کا چرچا دنیا بھر میں زبان زدِ  عام ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ ہمارے کچھ کرم فرما سندھ کی تاریخ کو ہند اور کچھ اور شہروں کی طرف منسوب کرتے رہتے ہیں۔ یہ بدترین علمی خیانت ہے۔ حقیقت جس کے نام بھی ہو اور وہ خوبیاں جس میں بھی ہوں، اس کا اعتراف کھلے دل سے کرنا چاہیے۔ آپ جتنا چھپائیں گے اور حقائق مسخ کریں گے حقیقت اتنی کھل کر سامنے آئے گی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی عالمِ اسلام میں سندھ اپنی علمی شناخت اور پہچان رکھتا  ہے۔ وقتاً فوقتاً بیرونِ ممالک سے مختلف وفود سندھ کے شیوخ سے اجازت حدیث اور تاریخی مقامات کا دورہ کرنے کے لیے تشریف لاتے رہتے ہیں۔

کچھ دن قبل ترکی کے ساتھیوں نے رابطۃ علماء السند کے صدر حضرت مولانا عبدالباقی ادریس السندی صاحب سے رابطہ کیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ ہم سندھ کے اکابرین کی زیارت اور تاریخی مقامات دورہ کرنا چاہتے ہیں آپ ہماری رہنمائی فرمائیں۔ حضرت مولانا عبدالباقی ادریس السندی صاحب سندھ کے ایک مشہور علمی خاندان کے چشم وچراغ ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے ان کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے، طلبِ علم اور علمِ حدیث کا شوق ان کو اپنے والد مکرم ڈاکٹر مفتی محمد ادریس السندی صاحب سے ودیعت ہُوا ہے۔ عرب ممالک سے آنے والے وفود اور شخصیات سندھ کے دورے کے حوالے سے ان سے رابطے  میں رہتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ مولانا صاحب کی بہت ساری مصروفیات ہوتی ہیں، لیکن ساتھیوں نے طلب صادق دکھائی اور بار بار اصرار کرتے رہے، تو مولانا صاحب نے اپنا قیمتی وقت نکالا، اور مجھے فون کرکے بتایا کہ ہمارا تُرکی کے مہمانوں کے ساتھ سندھ کا مطالعاتی دورہ ہے، اور آپ نے بھی ہمارے ساتھ چلنا ہے۔

یہ ان کی ذرّہ نوازی ہے وہ اپنے ہر مطالعاتی دورے اور علمی سفر میں ہمیں یاد فرماتے ہیں، ہم حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جمعرات کی شام جام شورو پہنچے اور مغرب سے کچھ دیر قبل ترکی معزز مہمان بھی تشریف لاچکے تھے۔ یہ ساتھی جامعہ بنوریہ سائٹ ایریا میں زیر ِ تعلیم ہیں، یہ چار ساتھی ، صلاح الدین بن زینال استانبولی، محمد یوسف بن عبد اللہ استانبولی، محمد یحی بن محمد سلیم ازمیری الکردی، محمد صالح بن محمد سلیم ازمیری الکردی تھے۔ حضرت مولانا عبدالباقی صاحب نے مہمانوں کی چائے اور ماحضر سے تواضع کی اور اس کے بعد نماز مغرب ادا کی، پھر شاہ زمان صاحب (جو ان کے دوست اور کلاس کے ساتھی رہ چکے ہیں ) نے مہمانوں کے اعزاز میں سلاطین ہوٹل حیدر آباد میں شاندار عشائیہ کا اہتمام کیا تھا، وہاں حضرت مولانا سیف الرحمن صاحب سانگھڑوی سے بھی  ملاقات  ہوئی، ان کی فراغت جامعہ دار العلوم کراچی سے تھی، بڑی مضبوط استعداد والے عالم اور ملنسار انسان تھے، بہت مختصر وقت میں ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا، اس کے بعد یہ وفد ٹنڈو آدم کی طرف چل پڑا، راستے میں سپر مدینہ ہوٹل (مٹیاری) کی چائے جس کا بہت چرچا ہے اس کا چسکا لینا پڑا، واقعی چائے بہت زبردست تھی۔ اس کے بعد ہم ان کی رہائش گاہ پر پہنچے جہاں مہمانوں کے لیے رات کا قیام تھا، پھر مولانا عبدالباقی صاحب نے کہا کہ مجھے والد صاحب نے آج کی رات میں لکھنے کا کوئی کام دیا ہے جو ہر حال میں مکمل کرکے رات کے  وقت کو انھیں ارسال کرنا ہے، اسی غرض سے ہم نے تنہائی کی خاطر حضرت مولانا ابوذر غفاری کے ہاں جامعہ دار العلوم تحفظ ختم نبوت (ٹنڈوآدم) میں قیام طے کر رکھا تھا، لہٰذا مولانا اور میں نے میزبانوں سے اجازت چاہی۔

حضرت مولانا ابوذر غفاری سے ملاقات ہوئی،  خیر و  عافیت دریافت کرنے  کے بعد مولانا اپنے والد محترم کے حکم کی تعمیل میں لگ گئے اور  جس میں اُن کا معاون رہا، تقریباً رات 3 بجے سونے کے لیے بستر کا رخ کیا، اس طرح دو تین گھنٹے کے آرام کے بعد اٹھ کھڑے ہوئے، لہٰذا ہم جیسے ہی نماز و تلاوت سے فارغ ہوئے تو حضرت مولانا سیف الرحمن صاحب ہمیں لینے پہنچ گئے، جو ہمیں شاہ زمان صاحب کے ڈیرے پر لے گئے جہاں ہم نے ناشتہ  کیا جو کہ بہت لذید اور پُر تکلف تھا۔۔
جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply