• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک ۔ ابتدائی برس (قسط 2)۔۔۔وہارا امباکر

مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک ۔ ابتدائی برس (قسط 2)۔۔۔وہارا امباکر

جب اگست 1947 کو پاکستان کی پیدائش ہوئی تو اسے بہت بڑے مسائل کا سامنا تھا۔ سوا کروڑ لوگوں نے نقل مکانی کی۔ مسلمان انڈیا سے پاکستان آئے جبکہ ہندو اور سکھ آبادی نے دوسری سمت جانے کا انتخاب کیا۔ اس ہجرت کے دوران ہونے والے کمیونل فسادات میں بیس لاکھ افراد مارے گئے۔ پاکستان کی سرحدیں جلدی میں بنائی گئی تھیں۔ نئی قوم کو چلانے کے لئے مرکزی حکومت کی بنیادی ضروریات ۔۔ افرادی قوت، سامان اور سرکاری عمارتوں والا کوئی دارالحکومت اس کے حصے میں نہیں آیا۔ اس کا مشرقی حصہ اپنے مغربی حصے سے 1600 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ درمیان میں انڈین علاقہ تھا۔ بہت سے ہندو بنگالی تقسیم کے بعد کلکتہ چلے گئے۔ ان میں سے بہت سے لوگ وہ تھے جن کی مینجمنٹ پر اس علاقے کا انحصار تھا۔ ان کی جگہ انڈیا میں بہار کی ریاست سے آنے والوں نے یا مغربی پاکستان میں پنجاب سے آنے والوں نے لی۔

تقسیم کے بعد مسلمانوں کی بینکنگ ممبئی سے کراچی منتقل ہوئی جو پاکستان کا پہلا دارالحکومت بنا۔ مشرقی پاکستان میں سرمایہ کاری مغربی پاکستان کے بینکوں سے آتی تھی۔ سب سے زیادہ یہ پٹ سن کے شعبے میں ہوئی اور اس وقت ہوئی جب اس کی عالمی مانگ میں کمی ہو رہی تھی۔ دنیا میں پٹ سن کی سب سے بڑی فیکٹری نارائن گنج میں تھی جو ڈھاکہ کے قریب صنعتی علاقہ ہے۔ یہ مغربی پاکستان کی آدم جی فیملی کی صنعت تھی۔ بینکاری اور فائننسگ بھی عام طور پر مغربی پاکستانی کے بزنس مین چلا رہے تھے تو مقامی آبادی کے خلاف تعصب عام تھا۔ ایک ادارے میں مینجمنٹ کی پوزیشن پر پہنچنا بنگالی کے لئے زیادہ مشکل ہوتا تھا۔ مغربی پاکستانی عام طور پر اردو بولنے والے بہاریوں کو ترجیح دیتے تھے (یہ شمالی انڈیا سے آنے والے مہاجرین تھے) کیونکہ تاثر یہ تھا کہ یہ بنگالی آبادی کے مقابلے میں ہڑتال یا ہنگامہ آرائی نہیں کرتے۔ یہ تاثر اس وقت گہرا ہو گیا جب نارائن گنج جوٹ مِل میں بہاری اور بنگالی مزدوروں کے درمیان 1954 میں پرتشدد تصادم ہوئے۔

پاکستان کے پاس تربیت یافتہ ایڈمنسٹریٹرز کی کمی تھی کیونکہ انڈین سول سروسز میں ہندو اور سکھ زیادہ ہوا کرتے تھے اور انہوں نے انڈیا جانے کا انتخاب کیا تھا۔ یہ مسئلہ مشرقی پاکستان میں زیادہ سنجیدہ تھا۔ اس کی وجہ سے یہاں پر بیوروکریسی کی اعلیٰ پوزیشیں زیادہ تر مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والوں یا پھر بہاریوں کے حصے میں آئیں۔

سب سے بڑا مسئلہ جس کا پاکستان کو اپنی پیدائش کے ساتھ ہی سامنا کرنا پڑ گیا، وہ زبان کا تھا۔ جناح نے بہار اور اتردیش سے آنے والے لوگوں کے مطالبے کو دیکھتے ہوئے پاکستان کی قومی زبان اردو کو قرار دے دیا۔ اس سے مغربی پاکستانی کی زبانیں بولنے والے ۔۔۔ پنجابی، سندھی، پشتو، بلوجی ۔۔۔ کچھ اپ سیٹ تو ہوئے لیکن مشرقی پاکستان میں یہ معاملہ تشدد کی سمت میں چلا گیا۔ بنگالی پاکستان میں اکثریت تھے۔ 54 فیصد آبادی ان کی تھی۔ ان کی زبان بنگلہ (اس وقت یہ بنگالی کہلائی جاتی تھی) اردو کے ساتھ ایک مشترک سنسکرت۔فارسی جد تو شئیر کرتی ہے لیکن ان دونوں زبانوں کا رسم الخط اور ادبی روایات بہت مختلف رہی ہیں۔

آزادی کے بعد، اپنی وفات سے پہلے، جناح ایک ہی بار 1948 میں مشرقی پاکستان گئے۔ ڈھاکہ میں انہوں نے اعلان کیا کہ “بغیر ایک ریاستی زبان کے، کوئی قوم اکٹھے نہیں رہ سکتی”۔ ان کے اس نظریے کو مشرقی پاکستان میں ناپسند کیا گیا۔ بطور بائی پاکستان، ان کا بہت احترام کیا جاتا تھا، جس کی وجہ سے اس وقت زیادہ آواز نہیں اٹھی البتہ ان کے انتقال کے بعد یہ صورتحال تبدیل ہو گئی۔

ڈھاکہ میں 22 فروری 1952 کو بنگلہ طلباء کے برابری کے مطالبے پر نکالے گئے جلوس میں پولیس کی فائرنگ سے دو طلباء ہلاک ہوئے۔ (ان کی یادگار میں شہید مینار بنایا گیا ہے)۔ اس سے دو برس بعد بنگالی مظاہروں کے نتیجے میں پاکستانی اسمبلی نے اردو کے ساتھ بنگالی زبان کو بھی قومی زبان قرار دے دیا۔

ملک کو اکٹھا رکھنے میں پاکستان کے ابتدائی لیڈروں کی کرشماتی شخصیات کا کردار تھا۔ جناح، جو گورنر جنرل تھے اور قائدِ اعظم کہے جاتے ہیں اور لیاقت علی خان جو وزیرِ اعظم تھے اور ان کو قائدِ ملت کہا جاتا ہے۔ جناح کے ستمبر 1948 میں انتقال کے بعد پاور لیاقت کے پاس چلی گئی۔ لیاقت کو سیاست کا وسیع تجربہ تھا اور انڈیا سے آنے کی وجہ سے فائدہ یہ تھا کہ پاکستان کے کسی صوبے کے ساتھ ان کا گہرا تعلق نہیں تھا جس کی وجہ سے ان کو کہیں سے مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ معتدل مزاج لیاقت کے آئیڈیل پارلیمانی، جمہوری اور سیکولر ریاست تھے۔ اور وہ پاکستان کے آئین میں سیکولرازم اور اسلام کا توازن چاہتے تھے۔ ان کو ایک جنونی نے 16 اکتوبر 1951 میں قتل کر دیا۔ اس کے بعد پاکستان کو غیرمستحکم دور کا سامنا تھا جس کو ملٹری اور بیوروکریسی سیاست میں مداخلت سے حل کرتی رہی۔ پاکستانی کی آزادی کے یہ ابتدائی مشکل سال تھے جنہوں نے پاکستان میں سیاست اور ملٹری کے باہم جڑے کلچر کی تشکیل کی۔

پاکستانی سیاستدانوں کی طرف سے ملک کو مستحکم نظام نہ دینے کی اہلیت کی بڑی وجہ ان کی آپس میں ایک دوسرے پر بداعتمادی تھی۔ وفاداریاں ذاتی، خاندانی، قومیت اور صوبائیت کی بنیاد پر زیادہ تھیں جبکہ قومی یا ایشوز پر سیاست کی روایت نہیں پڑی۔ آئین ساز اسمبلی میں صوبائیت کھلے عام نظر آتی تھی۔ “کہیں پنجاب تو ملک پر قابض نہیں ہو جائے گا؟” یہ زیرِ بحث رہتا تھا۔ آئین ساز اسمبلی ایک غیرموثر اور ناکارہ ادارہ رہا جس نے آئین بنانے میں نو سال لگائے اور یہ آئین کبھی بھی عملی طور پر نافذ نہیں ہوا۔

لیاقت کے بعد آنے والے وزیرِ اعظم ایک کنزرویٹو بنگالی خواجہ ناظم الدین تھے۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے سابق وزیرِ خزانہ اور بیوروکریٹ غلام محمد گورنر جنرل بنے۔ مشرقی پاکستان میں مرکزی حکومت کے اختیارات کو کم کرنے کا مطالبہ تھا۔ مرکزی حکومت کے پاس دفاع، خارجہ، کرنسی، مواصلات جیسے شعبے تو رہیں لیکن باقی اختیارات اس کے پاس نہ ہوں۔ غلام محمد وزیرِاعظم ناظم الدین سے خوش نہیں تھے کہ وہ مشرقی پاکستان میں چلنے والی تحریک کو کنٹرول نہیں کر پا رہے تھے۔ غلام محمد نے اپنی پاور بیس کو بڑھانا شروع کیا۔ 1953 میں غلام محمد نے ناظم الدین کو برخواست کر دیا۔ پنجاب میں مارشل لاء لگا دیا اور مشرقی پاکستان میں گورنر راج نافذ کر دیا (جو مرکزی حکومت کا براہِ راست کنٹرول تھا)۔ 1954 میں اپنی “ماہرین کی کابینہ” بنائی۔ ایک اور کنزرویٹو بنگالی، محمد علی بوگرہ کو وزیرِ اعظم بنایا۔ یہ پہلے پاکستان کے امریکہ کے اور پھر اقوامِ متحدہ کے لئے سفیر رہ چکے تھے۔

ستمبر اور اکتوبر 1954 میں ہونے والے واقعات کی وجہ سے گورنر جنرل اور وزیرِاعظم میں تصادم ہو گیا۔ بوگرہ گورنر جنرل کے اختیارات کم کرنا چاہتے تھے۔ اس کے لئے بڑی جلد بازی میں آئین میں ترمیم کی تھی۔ گورنر جنرل نے درپردہ فوج اور بیوروکریسی کی حمایت حاصل کر لی۔ آئین ساز اسمبلی برخواست کر دی گئی اور نئی کابینہ بن گئی۔ بوگرہ وزیرِ اعظم رہے لیکن عملی طور پر بے اختیار۔ جنرل اسکندر مرزا، جو فوجی بھی رہے تھے اور سول سرونٹ بھی، وزیرِ داخلہ بن گئے۔ جنرل ایوب خان، جو فوج کے سربراہ تھے، ان کو وزیرِ دفاع بنا دیا گیا۔ نئی حکومت کا مقصد صوبائی سیاست کو ختم کرنا اور ملک کو نیا آئین دیناتھا۔ لیکن وفاقی عدالت نے اس کو غیرقانونی قرار دیا اور فیصلہ دیا کہ نئی آئین ساز اسمبلی بنائی جائے۔ غلام محمد کو اس پر عمل کرنا پڑا اور صوبائی اسمبلیوں نے نئی اسمبلی منتخب کی جس کا جولائی 1955 میں انتخاب ہوا۔ بوگرہ کو اسمبلی میں سپورٹ نہیں ملی، ان کی چھٹی ہو گئی۔ چودھری محمد علی، جو وزیرِ خزانہ تھے، وزیرِ اعظم بن گئے۔ غلام محمد کو، جن کی صحت اچھی نہیں تھی، سکندر مرزا نے ستمبر 1955 میں ہٹا کر ان کی جگہ لے لی۔

دوسری آئین ساز اسمبلی پہلی سے مختلف تھی۔ مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ کو 1954 کے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں بھاری شکست ہوئی تھی۔ حسین شہید سہروردی کی عوامی لیگ اور فضل الحق کی کرشاک سرامک سماوادی دل پر مشتمل دو پارٹیوں کے اتحاد نے بڑی کامیابی حاصل کی تھی۔ مغربی پاکستانی کے غلبے کا خاتمہ اور بنگالی صوبائی خودمختاری ان کا منشور تھا اور اس کے لئے یہ اکیس نکاتی ایجنڈے پر متفق ہوئے تھے۔

مشرقی پاکستان میں ان کی انتخابی جیت کے بعد ان دونوں پارٹیوں کی آپس میں پھوٹ پڑ گئی۔ اتحاد ٹوٹ گیا۔ 1954 سے 1958 تک یہ دونوں پارٹیاں مشرقی پاکستان پر کنٹرول کے لئے مسلسل آپس میں نبردآزما رہیں۔

چودھری محمد علی نے سیاستدانوں کو 1956 کے آئین پر متفق کروا لیا۔ مشرق اور مغرب میں بہتر توازن کے لئے مغربی پاکستان کے صوبے ختم کر کے ایک یونٹ بنا دیا گیا۔ 300 ارکان پر مبنی پارلیمنٹ جس میں مشرقی اور مغربی یونٹ سے برابر اراکین ہوں گے۔ اگلے وزیرِ اعظم 1956 میں سہروردی بنے اور مخلوط کابینہ بنائی۔ انہیں بھی مرکزی حکومت نے اس لئے چنا تھا کہ وہ مشرقی اور مغربی حصے میں اتفاق پیدا کر سکیں گے لیکن مغربی پاکستان کے پاور بروکرز کی سپورٹ حاصل نہ کر سکے۔ مشرقی پاکستان میں انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا لیکن ان کی مشرقی پاکستان کے لئے زیادہ فنڈ لینے کی اور زیادہ خودمختاری کی کوششیں مغربی پاکستان میں پسند نہیں کی گئیں۔ ون یونٹ کے خلاف بھی انہوں نے ایک مضبوط پوزیشن لی تھی۔ انہوں نے ایمرجنسی پاور استعمال کرتے ہوئے مغربی پاکستان میں مسلم لیگ کی صوبائی حکومت کو بننے سے روکا۔ اس وجہ سے مغربی پاکستان میں اپنی سیاسی حمایت کھو دی۔ اور آخر میں ان کی یہ تجویز کہ وزیرِاعظم کا انتخاب اسمبلی کھلے عام کرے، نے اسٹیبلشمنٹ کے کان کھڑے کر دئے۔ تیرہ ماہ بعد صدر مرزا نے اپنا اثر اختیار کرتے ہوئے انہیں وزیرِاعظم ہاوس سے چلتا کیا۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھتا رہا۔

مشرقی پاکستان میں سیاسی عدم استحکام نے بہت ہی سنجیدہ موڑ 1958 میں لے لیا جب اپوزیشن ممبران اور پولیس میں ہاتھا پائی کے دوران ڈپٹی سپیکر شاہد علی پٹواری زخمی ہو کر جاں بحق ہو گئے اور دو وزراء شدید زخمی ہوئے۔

پارلیمانی جمہوریت سے نالاں، مشرقی پاکستان کی اسمبلی کے واقعات سے پریشان اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے دباو کا شکار، سکندر مرزا نے اس وقت ایک بڑا قدم لے لیا۔

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

ساتھ لگی تصویر مشرقی پاکستان میں 1953 میں بنگلہ زبان پر ہونے والے ایک مظاہرے کی

Advertisements
julia rana solicitors london

(نوٹ: یہ قسط لفظی ترجمہ ہے۔ لائبریری آف کانگریس کے کنٹری سٹڈی پروگرام کے تحت لکھی کتاب “بنگلہ دیش” کے باب سے کیا گیا ہے)۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply