• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • وہ اک معلم، وہ اک مفسر، وہ اک مدبر ،وہ اک مقرر۔۔سید ابولاعلیٰ مودودی/پروفیسر محمد عمران ملک

وہ اک معلم، وہ اک مفسر، وہ اک مدبر ،وہ اک مقرر۔۔سید ابولاعلیٰ مودودی/پروفیسر محمد عمران ملک

22ستمبر 1979 کی صبح ہے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کے دل کی دھڑکن رکتی ہے اور پھر چلنے لگتی ہے۔موت گویا دہلیز تک آکر واپس چلی گئی۔لیکن موت سے کسے مفر ہے۔ وقت بھی مقرر ہے۔اور جگہ بھی۔ دوبارہ ایک بار اسی دن دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔موت نے دنیا فانی کے اس قیمتی شخص کی زندگی کا چراغ گُل کر دیا۔ انسان آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں لیکن کیا ہی خوش قسمت ہے وہ جس نے دنیا کو اپنی آمد کا مقصد بتایا اور پھر رخصت ہوا، ہزاروں نہیں کروڑوں انسان بھی نہیں بلکہ اربوں اس دنیا میں بے مقصد زندگی گزارنے کے بعد چلے جاتے ہیں اور اپنی موت و حیات کے مقصد سے ہی آگاہ نہیں ہوتے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ علیہ نہ صرف اپنے مقصد زندگی سے آگاہ تھے۔بلکہ وہ دلوں کو بدلنے اور اللہ سے جوڑنے کا فن جانتے تھے۔ اللہ نے سید کو بے شمار صلاحیتوں سے نوازا تھا کسی نے کہا تھا کہ:
ادیب ودانش ور ،مفکر ،وہ فلسفی ،نکتہ داں صحافی
وہ اک معلم، وہ اک مفسر، وہ اک مدبر ،وہ اک مقرر
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے کہا تھا وہ صدف کیا جو قطرے کو گہر کر نہ سکے۔ سیدی حقیقت میں قطرے کو گہر کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ان لوگوں کو بھی گہر کیا جو اسلام کا نام سننا گوارہ  نہ کرتے تھے۔آغا عبدالکریم شورش کاشمیری اس کی مثال تھے۔آغا صاحب اپنے  مطالعہ اور قریب کے ساتھیوں کی وجہ سے مذہب سے بےگانہ ہوتے جا رہے تھے اور کمیونزم سے متاثر ہوتے جا رہے تھے۔آغا صاحب کہتے ہیں کہ ” سچ تو یہ ہے کہ میری بنیادیں ہل گئی تھیں، میں خدا کے وجود سے لے کر عام اخلاقی اقدار تک کے عقیدے میں ڈانواڈول ہو گیا۔”اس دوران آغا صاحب کو انگریز دشمنی اور آزادی کی جدوجہد کی پاداش میں پانچ سال سزا سنا کر ساہیوال جیل میں ڈال دیا گیا۔قید تنہائی میں ان کے ہاتھ جو کتاب لگی وہ مولانا کی “الجہاد فی السلام تھی۔پھر کیا تھا آغا صاحب کہتے ہیں ۔ ” میں نے تین دن میں تمام کتاب پڑھ ڈالی۔جب کتاب پڑھ چکا تو دل و دماغ میں حیرت انگیز تبدیلی محسوس کی۔ پھر سید کی اور کتابیں منگوا کر پڑھیں تو میرے دل سے شکوک و شبہات کے کانٹے نکال دئیے۔جب میں قید سے چھوٹا تو میرے لیے یہ امر اطمینان کا موجب تھا کہ میرا ذہن اب مسلمان تھا اور اس کا عظیم سبب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابیں تھیں۔
ایسی ہی داستان مظفر بیگ مرحوم کی ہے۔جو مولانا سے اختلاف رکھتے تھے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ” میرے لیے مولانا کی کتاب “پردہ” نے میرے ذہنی افق کو نئی وسعتوں سے ہم کنار کیا اور ساتھ یہ احساس بھی ہوا کہ قدرت نے سید مودودی کو جادو اثر تحریر کا ملکہ عطا فرمایاہے۔ان کے قلم میں دلوں کو جیتنے کی طاقت ہے۔ وہ قاری کے دل کو اسلام کی حقانیت سے گرما دیتے ہیں۔اور ان کا اپنا دل سوز اسلام سے معمور ہے۔”

علامہ سید سلیمان ندوی رحمتہ اللہ علیہ 1940میں طلبہ کی ایک تقریب میں یوں تعارف کراتے ہیں: ” میں اس وقت ایک نوجوان ، لیکن ایک بحر ذخار کا تعارف آپ حضرات کے سامنے کرنے کے لیے کھڑا ہوا ہوں ، مولانا مودودی صاحب سے علمی دنیا پورے طور پر واقف ہو چکی ہے۔اور حقیقت ہے کہ آپ اس دور کے متکلم اسلام اور ایک بلند پایا عالم دین ہیں۔اس کے ساتھ ہی وہ قرآن و سنت کا اتنا گہرا اور واضح علم رکھتا ہے۔کہ موجودہ دور کے تمام مسائل پر اس کی روشنی میں تسلی بخش طور پر گفتگو کر سکتا ہے۔۔

اسلام ایک کٹھور دین نہیں، سنگ دل نہیں، کم ظرفی نہیں سکھاتا اسلام نئی راہیں کھولنے کی دعوت بھی دیتا ہے اور غور و فکر کی بھی بات کرتا ہے۔مولانا کو اس پر بھی اللہ نے بصیرت عطا کی تھی۔ ان کی زبان میں چاہت ، اپنائیت، جذبے کی فراوانی اور دل کو موہ لینے کا سلیقہ تھا۔ان کی زبان میں عامیانہ پن نہیں تھا۔سید کو اردو زبان پر عبور حاصل تھا۔اللہ نے ان کو اجتہادی بصیرت بھی عطا کی تھی۔ ایسے موقع پر جب برصغیر میں لاؤڈ اسپیکر کےمعاملے میں بحث جاری تھی اور اس کو حلال و حرام کے دلائل دیے جا رہے تھے۔ مولانا مودودی نے اس کا مفصل جواب دیا :
” لاؤڈ اسپیکر سے جو آواز نکلتی ہے۔ وہ غیر امام کی آواز نہیں ہے، بلکہ بعینہ وہی آواز ہے جو امام کے منہ سے نکلتی ہے۔ مگر بجلی کی طاقت سے وہ زیادہ بلند ہوجاتی ہے۔ اور اس لحاظ سے اس کی حیثیت قریب قریب اس گونج کی سی ہے، جو مسجد کی محراب سے امام کی آواز پر بلند ہوتی ہے۔ لاؤڈ اسپیکر اس قدرکامل طور پر امام کے تابع ہے کہ جب تک امام نہ بولے گاوہ بھی نہیں بولے گا۔جو آواز امام کے منہ سے نکلے گی ٹھیک ٹھیک وہی آواز بلا ادنیٰ تغیر اس سے بھی بلند ہو گی، حتیٰ کہ امام کا لہجہ اور اس کا تلفظ تک جو ں کا توں منتقل ہو گا۔ ” سید نے آخر میں لکھا کہ: ” میں نماز میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کو نہ صرف جائز بلکہ احسن سمجھتا ہوں اور میرا وجدان یہ گواہی دیتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہدمیں یہ آلہ موجود ہوتا تو آپ ﷺ یقینی طور پراذان، نماز اور خطبہ میں کو اس کو استعمال کرتےجس طرح آپ ﷺ نے غزوہ خندق میں  خندق کھودنے کا طریقہ بلا تامل اختیار فرمایا”
اسی طرح مولانا مودودی نے مسئلہ قومیت کے حوالے سے بھی دیگر علما ء سے احترام کا رشتہ برقرار رکھتے ہوئے اختلاف کیا۔اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم واضح کیا۔ مولانا حسین احمد مدنی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا ” قومیں اوطان سے بنتی ہیں نہ کہ مذہب سے”سید مودودی نے اس کے جواب میں “متحدہ قومیت اور اسلام ” نام سے ایک مقالہ لکھا۔ اور کہا کہ” پوری انسانی تاریخ سے ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کی جا سکتی کہ قوم محض وطن سے بنی ہو ۔ آج اس زمانے میں بھی دنیا کی تمام قومیں مولانا کے سامنے موجود ہیں وہ فرمائیں کہ ان میں سے کون سی قوم وطن سے بنی ہے؟کیا امریکہ کے حبشی اور ریڈ انڈین اور سفید فام ایک قوم ہیں؟کیا پولینڈ ، روس ، ترکی ، بلغاریہ ، یونان ، یوگو سلاویہ، چیکو سلواکیہ، لتھوانیا، فن لینڈ کسی بھی جگہ خاک وطن کے اشتراک نے ایک قوم بنائی؟ کیا برطانیہ ، فرانس ، اٹلی اور جاپان میں وحدت کا رنگ کیا خاک وطن نے پیش کیا؟کیا ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ یہودی جو روئے زمین کے اطراف و اکناف میں منتشر ہیں کسی جگہ بھی وطنی قومیت میں جذب ہو گئےہیں؟کیا یورپ کے مختلف ممالک میں جرمن ، مگیار ، سلانی، موادینوغیرہ مختلف قومی اقلیتیں کسی جگہ بھی وطنی رشتہء اشتراک میں گم ہوئیں؟”اس کے بعد مولانا نے اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم کیا ہے۔اس پر تفصیل سے لکھا۔

سید مودودی کی تحریر ہو یا تقریر، محفل ہو یا جلسہ، شخصیت ہو یا کردار اس سے کئی لوگ متاثر تھے۔آپ کی شخصیت ایک انقلابی شخصیت تھی۔ آپ کی تحریر کا عکس شخصیت میں نظر آتا تھا، اس ضمن میں دو حضرات نے گواہی دی۔مولانا سندھی ایک بار لاہور سے گزر رہے تھےتو سید مودودی رحمتہ اللہ علیہ نے ملنے کا پروگرام بنایا۔علامہ علاؤالدین صدیقی سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی بھی ہمراہ تھے۔ملاقات لاہور چھاؤنی کے اسٹیشن پر ان کی ٹرین کی آمد پر ہونا تھی۔ دونوں حضرات نے سندھی صاحب کا ڈبہ تلاش کیا سندھی صاحب اور سید مودودی کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ سید صاحب نےالسلام علیکم کہتے ہوئے مصافحے کے لیےہاتھ آگے بڑھایا تو سندھی صاحب نے وعلیکم السلام کہتے ہی پوچھا: ” آپ مولانا مودودی ہیں نا؟” صدیقی صاحب اور مودودی صاحب کو حیرت ہوئی کہ بغیر ملاقات یا تعارف سندھی صاحب نے کیسے پہچان لیا؟سندھی صاحب نے بتایا کہ رسالہ ترجمان القرآن اور ان کی تحریریں پڑھ کر جس قسم کا سراپا میں نے ابوالاعلیٰ مودودی کا سوچا تھا وہ عین اس کے مطابق نکلے ہیں، اس لیے انہیں پہچاننے میں لمحہ بھر کا توقف بھی نہیں کرنا پڑا۔ نعیم صدیقی صاحب نے اس واقعے کو رقم کرنے کے بعد لکھا “پہلی بار ایک چہرے کو اور وہ بھی ایک نظر میں دیکھ کر غائبانہ تعارف کے بل پر ایک شخصیت کو پہچان لینے کی جو حیرت سندھی صاحب نے قائم کی وہ خود شاہد ہے کہ مودودی صاحب کا ظاہر اس کے باطن کا کتنا مکمل آئینہ دار ہے”۔

خود نعیم صدیقی مرحوم اس بارے میں اپنا تجربہ بیان کرتے ہیں کہ وہ جب پہلی بار مولانا سے ملنے دارلاسلام گئے تو جس  شخصیت کو  پہلی بار دیکھا اس کے بارے  میں جو تاثر قائم ہوا یوں تھا: ” اذان ہوئی تو اس کی آواز پر قریب کے ایک بڑے کوارٹر سے  ایک شخص بر آمد ہوا، وائل  کا کُرتا، لٹھے کا   پاجامہ، سر پر وائل ہی کی ایک ٹوپی پاؤں میں باٹا کی سیاہ رنگ کے سلیپر ، سادہ لباس نہایت اجلا جو سبز پس منظر میں عجیب شان سے نمایاں تھااس سادہ لباس کے ساتھ ایک روشن چہرہ جس پر سکہ بند مذہبی معیار سے چھوٹی شوخ سیاہ رنگ ڈاڑھی ۔۔۔۔۔کسی تعارف کے بغیر میں پہچان گیا کہ یہ وہی شخص ہے جس کے خیالات سے میں نے تھوڑا ساا ستفادہ کیا ہے۔یہ تھی وہ شخصیت جس نے اپنا کام اس انداز میں کیا کہ بقول احمد جاوید صاحب” ایک سفید کپڑے کا تھان سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کو دیا گیا تھا جس کو وہ بغیر داغ کے سفید ہی لے کر اس دنیا سے چلے گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

چھبیس ستمبر 1979کو سید کا جنازہ ان کی رہائش گاہ سے قذافی اسٹیڈیم کی طرف روانہ ہوا ڈاکٹر یوسف قرضاوی نے نماز جنازہ کی امامت کی ۔ اور سید کو ان کے اپنے گھر کے ایک گوشہ میں دفن کیا گیا۔اپنی تحریروں اور گفتگو سے لاکھوں انسانوں کی زندگیا ں بدلنے والا دیا  زمین کی  گہرائیوں میں رکھ دیا گیا۔

Facebook Comments

پروفیسر محمد عمران ملک
پروفیسر محمد عمران ملک وزیٹنگ فیکلٹی ممبر پنجاب یونیورسٹی لاہور پی ایچ ڈی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply