بقائن۔۔۔۔۔(1)محمد خان چوہدری

کاش ! آج بے بے ہوتی تو میں اس سے پوچھتی کہ اپنے میکے میں بھائی  کی بڑی حویلی آباد کرنے ، کثیر مال مویشی اور بڑے ریوڑ دیکھ کر مجھے“ تم جیسے نامرد” کے ساتھ باندھ کے اس ٹھنڈے تندور میں کیوں پھینکا ؟؟۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

چوہدری شاہد فیروز تین دن کے بعد پنڈی سے واپس آیا جہاں ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ میں اس کی گریڈ سترہ میں پروموشن اور اپنے گاؤں کے ہائی  سکول میں بطور ہیڈ ماسٹر تعیناتی کی کاروائی مکمل ہوئی،
آج اس کی شادی کی چوتھی سالگرہ بھی تھی، وہ پنڈی سے پشمینے  کی دو لیڈیز شال ، مقبول عام بیکری سے کیک ، رس،اور مٹھائی  ساتھ لایا، کار پھاٹک سے اندر لا کے پارک کرتے ، اس نے اپنی والدہ اور بیوی کی بحث سُن لی۔
شکیلہ اس کی پھوپھی زاد تھی، ساس بہو ممانی اور بھانجی بھی تھیں، شاہد نے کار سے پیکٹ نکالتے شکیلہ کو آواز دی ،وہ بُڑبڑاتے ہوئے ڈیوڑھی تک آئی ، اور اسی روانی میں شاہد کو یہ طعنہ مار دیا،
اُس کے” نامرد” لفظ بولنے سے کیا مراد تھی اس سے قطع نظر اس جملے نے شاہد کو توڑ کے رکھ دیا۔
شاہد نے برآمدے میں ایک شال اپنی امی کو اوڑھائی، تو اس نے ڈبڈبائی آنکھوں سے بیٹے کا ماتھا چُوما اور دعا دی،
“ شااللہ جیویں، شااللہ پیؤ بننا نصیب ہووی “
ساس بہو کی چخ چخ پچھلے ایک سال سے مسلسل چل رہی تھی، خاص طور پر پچھلی فصل سے اپنا حصہ لینے آئے پیر صاحب کے اس فرمان کہ، چوہدرائن بہن یہ صحن کی بقائن نکلوا دو یہ پھلتی نہیں  لگتی یا ساتھ دوسری بقائن لا کے لگاؤ۔۔
جس کے بعد شاہد کی امی بھانجی پر سوتن لانے پر تیار ہو گئی ، ساتھ شکیلہ نے بھی اسے روکنے کا مورچہ سنبھال لیا۔
ویسے بھی شکیلہ تو ننھیالی گاؤں ،ڈھوک شرفو میں ہی پڑھائi  کے لئے پلی بڑھی ،میٹرک کیا، جہاں ہائی  سکول بھی تھا۔۔
ڈھوک شرفو شاہد کے جد امجد ، اس کے پردادا کے والد چوہدری اشرف خان ، جو بابا شرف مشہور ہوا اس نے اپنے والد سے جدّی گاؤں سے بے دخل کر کے نکالے جانے پر آباد کی تھی۔یہ علاقہ بھی انکی ملکیت تھا لیکن بنجر اور غیر آباد
تھا، چوہدری اشرف کا جرم بھی پسند کی شادی تھی جو اس زمانے میں خاندان کے خلاف بغاوت اور سنگین جرم تھا
شائد اسی وجہ سے اس کی اولاد میں خاندان سے باہر پھر کوئ شادی نہی ہوئ، فرسٹ کزن میں کراس شادیوں کا شاخسانہ ہو سکتا ہے کہ پچھلی پانچ پشتوں سے نرینہ اولاد ایک بیٹے تک محدود آ رہی تھی، بیٹیاں ہر پشت میں دو، تین یا چار ضرور پیدا ہوئیں ، جن کی شادیاں علاقے کے بڑے دیگر زمیندار گھروں میں ہوئیں، لیکن بیٹا ہر پشت میں ایک اوراس کی شادی کسی پھُپھی کی بیٹی سے ہونی طے امر تھا۔
ڈھوک آباد ہوتے گاؤں بنی ، زمین زیر کاشت آتی گئی اور اب یہ علاقے کا بڑا قصبہ بنا، لڑکوں اور لڑکیوں کے ہائی سکول، ڈاک خانہ ، تار گھر ، پٹوار خانہ، اور سرکاری ریسٹ ہاؤس شاہد کے دادا پرداد کے زمانے میں قائم ہو گئے۔
شاہد کو پڑھائی کا شوق تھا، میٹرک گاؤں سے کیا، شہر کے کالج سے بی اے ، بی ٹی کر لی۔۔
وہ اس وقت چاہے اتنی بڑی ملکیت کا اکلوتا وارث تھا ، لیکن روایتی چوہدراہٹ مزاج نہی تھا، اپنے گاؤں کے سکول میں باقاعدہ ٹیچر بھرتی ہوا، ساتھ پرائیویٹ ایم اے بھی کر لیا، اتنا نرم مزاج ہونے کے باوجود ، نوکری کے ساتھ اپنے آبائی  رقبہ ، مال مویشی بھی بہت اچھی طرح سنبھالے، علاقے میں محکمہ زراعت کے تعاون سے پہلا ٹریکٹر بھی اس نے لیا، نئے  بیج ، اور آبپاشی کے آلات بھی اس کے ہاں سے متعارف ہوتے۔
شکیلہ چوہدری فیروز کی چھوٹی بہن کی بڑی بیٹی تھی، ان کے گاؤں میں بچیوں کا پرائمری سکول تھا، اگرچہ اس کی پیدائش پر ہی برادری میں اس کی شادی شاہد سے ہونی بغیر اعلان کے طے شدہ امر سمجھا جا رہا تھا لیکن اس کی ماں کوئی چانس نہیں لینا چاہتی تھی، پانچویں پاس کرتے ہی اسے ڈھوک شرفو میں ہائی  سکول میں داخل کرا کے ماموں کے گھر چھوڑ آئی۔
شاہد تب میٹرک میں تھا، یوں دونوں ساتھ پلے ۔ بے تکلفی ہونی تو عام بات تھی، ظاہر ہے ایک گھر میں رہتے نوک جھوک بھی چلتی رہتی، شکیلہ میٹرک میں اور شاہد بی اے میں تھا تو کچھ فطری تقاضا ، کچھ شکیلہ کی ماں کی شاہد کو قابو میں رکھنے کی کاوش سے ان میں جسمانی قربت ہونے لگی، شاہد کی امی بھی شکیلہ کو ذہنی طور پے بہو قبول کر چکی تھی،
اس دوران شاہد کی دونوں بڑی بہنوں کی شادی ہو گئی، شاہد نے پہلے بی ٹی کرنے اور ٹیچر بننے تک اپنی شادی کو لٹکائے رکھا، شکیلہ میٹرک کرنے کے بعد بھی اپنی ماں کے گھر جاتی تو دو چار دن کے بعد ماں اسے واپس چھوڑ جاتی۔
شاہد صبح اپنے والد کے ساتھ زمینداری کی مصروفیات میں نوکروں کو کام پے لگا کے سکول پڑھانے جاتا ، واپس آ کے انکی نگرانی کرتا ، گاؤں میں بجلی جب تک نہیں  آئی  تھی تو شام سے رات گئے تک بیٹھک میں لیمپ جلا کے پڑھائی کرتا ساتھ چار بینڈ کے ٹرانزٹر ریڈیو کے پروگرام سنتا، شکیلہ کی بیٹھک میں آمد و رفت بھی رہتی۔
کہتے ہیں شہوت کی ہلکی آنچ جلتی رہے تو ٹھنڈے دودھ میں بھی ابال آ ہی جاتا ہے، شکیلہ نے اپنے نسوانی مکر بھی خوب استعمال کیے، شاہد فطری طور پہ  ادب و شاعری کا دلدادہ تھا تو رومانس کی جبلت حاوی ہونے لگی۔۔
جب تواتر سے شکیلہ اور شاہد صبح نہانے لگے تو شاہد کی امی نے بھانپ لیا۔ اس نے چوہدری فیروز کو اعتماد میں لیا اور شکیلہ کو اس کی ماں کے گھر بھجوا دیا، ساتھ یہ تاکید بھی کی کہ اب شادی ہونے تک وہ وہیں رہے گی،
شاہد کے پاس اس زمانے میں ہارلے ڈیوڈسن کی موٹر بائیک تھی، جس پہ  وہ کالج جاتا تھا، گھڑ سواری تو گھر کا کام تھا۔
گاؤں میں رعب تو ویسے بھی تھا ساتھ جوانی کے دہکتے رنگ ایسے تھے، کہ قصبے کی مٹیاریں نام سن کر دوپٹہ چبانے لگتی تھیں، گرلز سکول کی دو تین استانیاں اور ہیڈ مسٹریس بھی کسی تعلیمی مشاورت کے بہانے شام کو ڈیرے پر آتیں۔
لیکن سر شاہد نے اپنے نام اور خاندانی وقار کی حفاظت مدنظر رکھی، پھر بھی ۔۔۔
شیر کے منہ کو خون لگ چکا تھا، شکیلہ کے جانے کے بعد اسے بیٹھک میں چائے پانی پہنچانے کی ڈیوٹی ڈیرے کی نوخیز ملازمہ کی لگی تھی۔
ہمارے دیہات میں ذات برادری کی روایات کے جال اتنے گنجلک ہیں کہ کسی بھی خوشی غمی میں اہل خانہ تقریب سے زیادہ اس میں شریکوں کی شرکت ، ان کو دعوت یا اطلاع دینے میں مصروف ہو جاتے ہیں،شکیلہ اور شاہد کی شادی متوقع تھی لیکن اس رشتے کے باقاعدہ اعلان سے پہلے لازم تھا کہ چوہدری فیروز اور اسکی بیوی اپنی بیٹیوں، بہنوں ، پھوپھیوں بلکہ دادی نانی کے سب رشتہ داروں سے مشاورت کریں ورنہ شادی پر ان کے روٹھ کے گھر بیٹھنے سے براداری میں بے عزتی اور ناک کٹ جانے کا خطرہ شدید ہوتا۔
تو اس روز دونوں میاں بیوی چوہدری کی بڑی بہن کے گاؤں گئے تھے ۔ واپسی اگلے دن کو تھی،رات کو ملازمہ بیٹھک سے کھانے کے برتن اٹھانے آئی  تو شاہد صرف دھوتی کا لنگوٹ باندھے چارپائی  پر اوندھا لیٹا ریڈیو پر گیت مالا سن رہا تھا۔
ملازمہ نے سریلی آواز میں جب یہ کہا۔۔چوہدری جی، پھاٹک بند کری چھوڑی اے،
تے ایہہ بھانڈے دھو کے میں رسوئی  وچ ای سو ویساں ، کائی  ہور چاہ شاہ پینی ہے تے دسو۔
شاہد نے کروٹ لی، ملازمہ اس کا آدھا ننگا بدن دیکھ رہی تھی، چھاتی کے بگو گوشے سُتواں ہو چکے تھے، آنکھوں میں کاڑھے دودھ جیسی رنگت تھی، پھر وہ جھکی اور چارپائی کے نیچے سے ٹرے اٹھانے لگی، تو اس کی گرم سانسیں شاہد کے منہ پر پڑھیں۔
جاری ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply