سفر نامہ: شام امن سے جنگ تک, جنگ کی تصویریں/سلمیٰ اعوان۔۔قسط22

اپنی میز پر پڑی ہدیٰ کی میل دیکھ کر میں بیتا بانہ انداز میں اُس کی طرف بڑھتی ہوں۔ کرسی پر بیٹھنا جیسے گویا میں بھول ہی گئی ہوں۔ کاغذ میرے ہاتھ میں اور نگاہیں حروف پر سرپٹ بھاگتی تھیں۔
تمہاری ذ ہنی پٹاری میں عرب اور دنیائے اسلام کے اُ س عظیم ہیروخالد بن ولید کا روضہ مبارک، حمص شہر اور Homs کا وہ قلعہ بھی ضرور کہیں موجود ہوگا۔ مجھے حمص شہر کے لئے تمہارا شوق و اشتیاق یا د ہے۔ تاہم شہر سے کہیں زیادہ اس شوق کے عقب میں پیغمبر اسلام کے ساتھی کے روضہ مبارک اور مسجد کے لئے جس تڑپ کا اظہار تھاوہ بھی پوری طرح عیاں تھی۔مجھے یاد ہے میں نے تمہاری آتش شوق کو تاریخ کے دو حوالوں سے مزید بھڑکا یا تھا۔ پہلا عثمانی سلطان عبد الحمید اور شام کے گورنر حسین پاشا کی اُس صاحب سیف اللہ سے محبت وعقیدت کے اظہار سے جو انہوں نے مقبرے اور مسجد کو عرب طرزتعمیر کا رنگ دے کر اِسے باوقار اور عالیشان بنانے کے لئے کیں۔

دوسرا وہ تیمورلنگ ہے۔ پندرھویں صدی کا جیالا جس نے شام فتح کیا تو حمص پر حملے سے گریز کیا کہ اُس ہستی کا مدفن تھا یہاں۔ اس کے نام کی مسجد تھی یہاں۔ وہ یہاں خوابیدہ تھا۔ اس کی دلیری اور شجاعت سے اُسے پیار تھا۔

ہاں مگر میں کس قدر افسردہ ہوں۔ اکیسویں صدی کے اِن کلمہ گوؤں کی حرکتوں سے۔ جولائی کے بس ایسے ہی دن تھے جب تم شام میں تھیں۔ یعنی 2008ء اور یہ بھی جولائی کے ہی دن ہیں۔ بس درمیان میں صرف تین سال کا فاصلہ حائل ہے۔ اسی خالد مسجد سے جنازے میں شرکت کے لئے نکلنے والے احتجاجیوں پر گولی چلی۔ دس بندے مارے گئے۔

پس آگ بھڑکی اور بھڑکتی ہی چلی گئی۔ کسی نے اس پر پانی یا ریت ڈالنے کی کوشش نہ کی۔ اُس خوبصورت یادگار کو جو اسلامی تاریخ کا عظیم ورثہ سمجھی جاتی ہے۔ حکومتی فوجیوں کی اندھا دھند شیلنگ نے اس کے محراب ومنبر،اس کے دردویواروں کے ساتھ جو کچھ کیا اس کا کیا بیان ہو، کسی ایک کلمہ گو نے پل بھر کے لئے سوچا ہی نہیں کہ وہ اس تقدس بھر ی جگہ جہاں اذان گونجتی اور جہاں پانچ بار سجدہ ریزی ہوتی ہے کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟

میں نے کاغذ پر دوڑتی پھرتی آنکھوں کو اِک ذرا اوپر اٹھایا ہے۔ آنکھوں میں نمی اُتر آئی ہے۔پوروں سے اُسے صاف کیا ہے۔ منظر اپنی پوری تابانیوں سے جھلملا اٹھے ہیں۔ رقص کرنے لگے ہیں۔
جولائی کے روشن گرم دنوں میں ڈوبا زندگی کی رعنائیوں سے لدا پھندا حمص شہر اُبھر کر سامنے آگیا ہے۔وہ خوبصورت شہدا چوک، وہ خوبصورت گلیاں روشنیوں، خوشبوؤں، حُسن وفن کی دلاآویزیوں کے نمونے سب گہنائے ہی نہیں گئے، بلکہ ملبے کے ڈھیروں میں بدل گئے ہیں۔ جہاں گہما گہمی چہل پہل اور رونقوں کے ڈیر ے تھے وہاں اب اُداسیاں اور ویرانیاں بال کھولے بسیرا کیے  بیٹھی ہیں۔ اُن کی صورتیں سب اجڑی پجڑی، آگ کے شعلوں، دھوئیں کے غبار میں لپٹی،کہیں ٹوٹے جھکے کہیں کھڑے سریا سیمنٹ کے لوتھڑوں میں ڈوبی کیسے کیسے ہیبت بھرے ڈراؤنے منظر پیش کر تی ہیں؟ شہر تو پہلے ہی ستا پڑا تھا۔ بس ایک پکار کیا پڑی، آگ میں کود گیا۔ مخالف پارٹیوں کا گڑھ بن گیا۔

وقت کے المیے کتنے ظالم ہیں۔
بشار نے اپنی کرسی کی لرزتی ٹانگوں کو طاقت دینے کے لئے بے حد محنت کی۔اپنے ہی لوگوں اور اپنے ہی بچوں کو خون میں نہلا دیا۔ اِن باغیوں، اِن مخالف جماعتوں نے اپنے اپنے مفادات کے لئے انسانیت کو تہہ تیغ کردیا۔
باغیوں کا گڑھ ہے شہر۔ بھو ن دو سب کچھ۔ لوگ بھی اور تاریخ کے یہ عظیم ورثے بھی۔ اس کے محراب ومنبر بھی۔ ڈھیر بنادو۔ کوڑے کے ڈھیر۔ سردیوں کی خاموش ویرانیوں میں ڈوبا اور اجڑا پجڑا شہر جس کی دیواریں جس کے گھر جس کے بازار سب لٹے پٹے رگوں میں دوڑتے خون کو منجمد کرتے ہیں۔

ہدا لکھتی ہے۔ شہر میں تو بہت تھوڑے لوگ ہیں۔ قلعہ جائے پناہ بنا ہوا ہے۔ احتجاجیوں اور باغیوں کا۔ اُف یہ وہی قلعہ ہے پرانے وقتوں کے نوابوں کا۔ لارڈز کا۔ ہاں ہاں یہ وہی ہے جس کی ہیبت، جس کے جاہ وجلال کے سامنے اُس کی سانسیں رکی تھیں اُس کی جسے تاریخ لارنس آف عریبیا کانام دیتی ہے۔وہ اس کے سامنے کھڑا تھا۔ اس نے کہا تھا۔ بے اختیار کہاتھا۔ شاید یہ دنیا کا سب سے محفوظ اور بہترین قلعہ ہے۔

یہ سینکڑوں سالوں سے نہیں صدیوں سے اِس شہرکی عظمت کا نشان بنا کھڑا ہے۔ سُنی جہادیوں جن میں یہ حزب اللہ،Jabhat-al-Nusra اور القاعدہ والوں نے اس کی یوں تباہی مچائی کہ اسے اپنے قبضے میں کیا اور پھر حکومتی فوج نے اِ سے چھینا۔اِس چھینا چھپٹی میں کیا کسی نے ایک لمحہ کے لئے سوچا کہ اِ س قلعے سمیت شام اپنے اِن تاریخ اثاثوں سے دنیا بھر میں کتنامعتبر ہے؟ اور یہ قلعہ تو چھٹے نمبر پر ہے؟

آپ اپنے ملک سے محبت کر تے ہیں۔ دنیا میں اگر اِسے کسی بنا پر امتیاز حاصل ہے تو آپ کا سر فخر سے اونچا ہوتا ہے۔ اس کے لوگ اس کے شہری جو اپنے قصبہ، دیہات،شہروں سے پیار کرتے ہیں۔جو اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر کڑھتے اور بلبلاتے ہیں۔ایسا ہی حمص کے شہریوں کے ساتھ ہورہا تھا۔حمص کا ابو حارث بابا عمر کے کیمپ میں مجھے ملا تھا۔اسی نے جو کچھ مجھے سنایا وہ میری آنکھیں کھولنے کو کافی تھا۔سوچ کا یہ بھی انداز تھا۔جو میرے لئے بہرحال حیران کن تھا۔ مگر جب وہی سب کچھ ٹوٹی پھوٹی صورتوں میں سامنے آتا ہے۔ در بدری مقدر بنتی ہے۔ تب دل درد کرتا ہے او ر آنکھیں روتی ہیں۔
اور میں بھی رو رہی تھی زار زار۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”سفر نامہ: شام امن سے جنگ تک, جنگ کی تصویریں/سلمیٰ اعوان۔۔قسط22

  1. Bohat mutassarkun tahreer hay aap ki MAM, shaam kay ahwal jis tarah aap nay bayan kiay hay nae tasweer saamnay aae hay , aap ka usloob bohat umda aour shaandaar hay MAM.

Leave a Reply