گفتار کا نیازی ۔۔۔ مہر ساجد شاد

یادداشت کا کمزور ہونا شخصیت کی ایک بڑی کمزوری بن جاتی ہیں، ہم لوگوں کی عمومی طور پر یاداشت کمزور ہے۔
اقوام متحدہ میں وزیراعظم پاکستان کا حالیہ خطاب زیر بحث ہے۔ اقوام متحدہ میں کسی بھی وزیراعظم کا بیان ریاست کا بیانیہ ہوتا ہے اسے مظبوط ہی ہونا چاہیئے اس کے لئے ریاست کے تمام اہم ادارے اور زمہ درائن حصہ لیتے ہیں اور اسے ترتیب دیتے ہیں، اس سے پہلے درجنوں ایسے خطابات پاکستان کی جانب سے مختلف شخصیات نے کئے ہیں جنہیں آج بھی تاریخی مانا جاتا ہے۔
ریاستوں کے پاس اصول ہوتے ہیں جذبات نہیں پالیسیاں ہوتی ہیں نعرے نہیں۔
کسی بھی کامیاب قوم کیلئے اسکا لیڈر اہم ہوتا ہے جو اپنی اصول پسندی، وعدے کی پابندی سچائی اور آئین و قانون کی پاسداری کیساتھ موجود ہوتا ہے۔
اگر ہم تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کی شخصیت کا جائزہ لیں تو یہ کسی طور بھی کسی سنجیدہ ریاست کے سنجیدہ لیڈر کے معیار پر پورا نہیں اترتی۔ عمران خان نے تقریروں سے ہی شہرت پائی اپنی بات سے اپنے نعروں سے لوگوں کو سنہرے خواب دیکھائے لیکن ہر مرحلے پر اپئی باتوں اپنے بیان کردہ اصولوں کو توڑ کر وقتی مفاد حاصل کیا اور اب تو وہ بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ وہ یوٹرن لیتے ہیں دیوار سے سر نہیں ٹکراتے اس لئے انہیں بڑا لیڈر تسلیم کیا جائے۔
اقوام عالم امور خارجہ اور بین الاقوامی تعلقات کو اپنی ریاستی پالیسیوں کی بنیاد پر چلاتے ہیں تقریروں اور جذبات کی بنیاد پر نہیں۔ ایک تباہ حال معیشت کیساتھ کھڑا ہوکر اگر کوئی وزیراعظم معاشی ترقی کے راز بتائے گا تو دنیا ہنسے گی،
ملک میں اظہار رائے کی پابندیوں اقلیتوں پر حملوں میڈیا پر ریاستی جبر اور سیاسی مخالفین پر انتقامی اقدامات کیساتھ اگر کوئی وزیراعظم دنیا کو اسلام فوبیا کا شکار اور متعصب کہے گا تو دنیا اسکو کتنی اہمیت دے گی ؟
اگر ساری دنیا میں کشکول لے کر گھومنے والا وزیراعظم دنیا کو اپنے خودار ہونے کا دعوی کرے گا تو دنیا اسے اتنا ہی سنجیدہ لے گی جتنا لے رہی ہے۔
ایسے میں ہمارے ملک میں عمران خان کے حمایتی جو بے چارے پچھلے ایک سال سے ہر روز کسی نئے معاملے پر شرمندہ ہو رہے تھے واہ جی واہ اور آہو نی آہو کرتے نمودار ہو گئے ہیں۔ ان کے پاس عوام کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں کہ اقوام متحدہ میں باوجود موقعہ کے وہ قرارداد کیوں نہ لا سکے ؟
انڈیا نے کشمیر میں جارحیت کی کرفیو لگایا ظلم و ستم شروع کیا تو وزیراعظم دبک کر وزیراعظم ہاؤس میں کیوں بیٹھے رہے؟
ہمارے وزیر خارجہ چند جگہوں پر فون گھما کر کیوں مطمعن ہو کر بیٹھ گئے؟ انسانی حقوق کی پامالی کو بنیاد بنا کر دنیا بھر میں ہر سطح کی سفارتی جدوجہد شروع کر دینی چاہیے تھی لیکن ایسا کچھ نہ کیا۔ اس کے مقابلے میں انڈیا کے وزیراعظم نے چالیس سے زائد ممالک کے دورے کئے ان کے وزیر خارجہ نے دنیا بھر میں پھر کر ڈھنڈورا پیٹا کہ پاکستان ہمارے علاقوں میں دخل اندازی کر رہا ہے پاکستان دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتا ہے پاکستان منی لانڈرنگ سے دہشت گردوں کو مالی امداد دیتا ہے ہمارے پاس اس پراپیگنڈا کا کوئی جواب نہیں تھا بلکہ ہم نے کئی مذہبی تنظیموں پر پابندی لگا کر حافظ سعید اور کئی دوسرے لوگوں کو پکڑ کر ان کے مطالبات کو تسلیم کیا۔ دنیا ہمیں کتنی اہمیت دیتی ہے وہ اس وقت ظاہر ہو گیا جب ہمارے وزیراعظم کی تقریر پر ہال خالی ہو گیا۔
آج کوئی یہ بھی بتائے کہ روپے کی قدر گرنے سے پاکستان کے قرضے میں کتنا اضافہ ہوا ہے؟
پاکستان کے زرمبادلہ کے زخائر جو 24 ارب ڈالر تک پہنچ گئے تھے آج سعودی عرب سے ڈیڈھ ارب یو اے ای سے ایک ارب چین سے تین ارب ڈالر قرضہ لینے اور آئی ایم ایف سے قرضہ کی پہلی قسط لینے کے باوجود پھر سات ارب ڈالر تک کم کیسے ہو گئے؟؟
کوئی بتائے کہ اسٹاک ایکچینج 54 ہزار سے گر کر 24 ہزار کی پستی تک کیسے آگئی ؟؟
کوئی یہ بھی بتائے 5.8 جی ڈی پی سے ہم تباہ ہو کر 3.2تک کیسے آگئے؟؟؟
کوئی یہ بھی بتائے کہ 2.4 فیصد مہنگائی والے پاکستان میں 13 فیصد مہنگائی کا طوفان کون لایا؟؟
کوئی اس کا بھی جواب دے کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کرنے والا ظالم کون ہے ؟؟؟
مفہوم حدیث ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا، دعا کریں اللہ ہمیں دھوکہ بازوں فریبیوں شعبدہ بازوں کے شر سے محفوظ رکھے ،اللہ ہمیں ایاک نعبد وایاک نستعین پر قائم رکھے اور اھدنا الصراط المستقیم پر کاربند فرمائے آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply