اپنے تمام تر عقائد کو بالائے طاق رکھ کر یہ ماننے میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ موجودہ صدی بلاشبہ الحاد یا atheism کے بھرپور آغاز کی تھیوری ہے جس کا اظہار سوشل میڈیا کے ذریعے عروج پر پہنچ چکا ہے کہ یہ لفظی جنگ دو بدو جنگ سے کم خطرناک ہے اور اپنے عقیدے کا کھلے عام اظہار کہیں زیادہ محفوظ ہے۔
سائینسی دلیلوں سے لیس اس تھیوری کا مقابلہ جذبات اور پرانے مذہبی اقوال و تحاریر سے بالکل ممکن نہیں کہ اس وقت جو عوامی شعور تھا وہ اب بالکل نہیں۔ اب ہر روز ایک مختلف نئی صبح ہوتی ہے اور کئی موضوعات پر سائینس کو بھی اپنی تشریح دوبارہ کرنی پڑتی ہے تب جاکر وہ خود کو مطمئین کر پاتے ہیں۔
اس موضوع پر کھل کر بیان کرنا ہی سوچ کے دریچے کھولتا ہے کہ علم جہالت کو کھا جاتا ہے۔ علم سے مراد صرف سائینسی علم نہیں بلکہ ہر طرح کا علم ہے۔
ہمارے ہاں مذہبی بندہ صرف اس کو مانا جاتا ہے جو اپنے مذہب کے علاوہ ہر دوسری تھیوری یا مذہب پر بھرپور تنقید کرے اور جذباتی و مزہبی دلائیل دے کر جیتنے کی کوشش کرے۔ ایسے افراد کے لئے عرض ہے کہ جو خدا کو ہی نہیں مانتے وہ آسمانی کتابوں میں لکھی جانے والی تحریروں اور 1400 سال پہلے کے واقعات کو کیونکر مانیں گے۔ اسی وجہ سے یہ مقابلہ تقریبا یک طرفہ ہوچکا ہے اور الحاد پرست بہت حد تک اپنے قارئین و سامعین کو اپنے آبائی عقائد سے متنفر کروا چکے ہیں۔ اس کی وجہ صرف Atheists نہیں بلکہ موجودہ مذہبی شدت پسندی اور کاروباری پیری مریدی مذہب سے اکتاہٹ بھی ہے کہ اب مذہب ایک عبادت و طرز زندگی کی بجائے ایک آلہ کار بن چکا ہے جس کو جس کا بھی جی چاہتا ہے اپنے مقصد کے لئے استعمال کرسکتا ہے اور یہ سچ بھی ہے۔ ایسے حالات میں ایک معتدل اور امن پسند مسلمان اپنی راہ بدلنے پر فطری طور پر تیار ہو ہی جاتا ہے کہ الحاد نامی تھیوری ان تمام جھنجٹوں سے پاک نظر آتی ہے جس میں کسی پیر فقیر علامہ مولانا مزہبی تحقیر و تذلیل سے نجات اور فطری آزادی کسی نعمت سے کم نہیں لگتی۔
ان حالات میں ایک تیسری چیز جس کو جگہ ملتی ہے اس کا نام کامن سینس یا اپنی ذاتی عقل کا استعمال ہے جس کو اس سارے معاملے کو سمجھا جاسکتا ہے۔
یاد رکھیں کامن سینس اگر حقیقی ہو تو کسی مذہبی و سائینسی عقیدے سے بالاتر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر خدا کا وجود اس نظام کائنات اور اس کے تسلسل اور کاملیت پر بنیاد رکھتا ہے۔ صرف کہہ دینے سے کہ کہو خدا ہے تو ہے والی بات کوئی دل سے نہیں مانتا۔ الحاد کی بنیاد سائینس ہے اور ارتقاء اس کا بنیادی جزو۔ جو ارتقاءکو نہیں مانتا وہ سائینس بھی صرف امتحان میں پاس ہونے کے لئے ہی پڑھتا ہے۔
تقابلی جائزہ:
ارتقاء کہتا ہے کہ لاکھوں کروڑوں سالوں میں یہ دنیاوی زندگی وجود میں آئی اور مختلف نسلیں اپنی ساخت بدلتے بدلتے موجودہ دنیا کی جاندار شکل میں سامنے آئی۔ سب کی بنیاد ایک ہے۔ اور نظریہ ضرورت کے تحت اس کی مختلف تبدیلیاں پیدا ہوئیں جن میں موسم جگہ اور حالات و واقعات بھی شامل ہیں۔
مذہب کہتا ہے کہ انسان کو زمین پر اتارا گیا اور اس کی ضروریات زندگی پورا کرنے کے لئے زمیں پر خوراک اور دیگر لوازمات زندگی مہیا کئے گئے۔ اور ہر نسل کو علیحدہ علیحدہ ڈیزائین کرکے الگ الگ بنایا گیا اور کوئی نسل کسی دوسری نسل میں منتقل نہیں ہوئی۔ بکری پہلے بھی بکری تھی اور چوہا پہلے مچھلی نہیں تھا۔
کامن سینس یعنی عقل کا استعمال کہیں بھی منع نہیں ہے۔ اس کا بھرپور استعمال کئی سابقہ فاسد عقائد سے نجات دلاتا ہے جنہوں نے زندگی اجیرن کر رکھی ہوتی ہے کہ یہی چوائس ہے ارتقاء کو نا مانا تو پڑھے لکھے دوست احباب مذاق اڑائیں گے اور اگر کوئی مذہبی فریضہ و عقیدہ چھوڑ دیا تو لوگ دائرہ اسلام سے خارج کردیں گے۔
کامن سینس کے لحاظ سے دیکھیں تو کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ کار کی ہیڈ لائیٹس خود بخود آگے لگ گئی ہوں یا ٹائیر اپنی ایک خاص شکل میں خود بخود بھاگتے دوڑتے آگئے ہوں اور دائیں بائیں فٹ ہوگئے ہوں۔ انجن فیول الیکٹرک وائیرنگ وغیرہ کی ایوولیوشن کے بارے میں سوچنا بھی پاگل ہن ہوگا۔ انسانی جسم اس سے زیادہ پیچیدہ ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سٹرکچر آٹو فیڈ پر ہے یعنی یہ اپنی خوراک خود ہی بناتا کھاتا ہے۔ آٹو فکس کا فنکشن بھی اس میں موجود ہے جس کو قوت مدافعت کہتے ہیں۔ آنکھیں پیر کی بجائے سر پر ہیں تاکہ دور تک نگاہ جائے اور زمیں کی مٹی خراب نا کرے۔ جو چیزیں حساس ہیں اور ان کے بغیر چارا نہیں وہ دو دو ہیں یعنی سانس کا راستہ گردے آنکھیں کان اور بھی بہت کچھ۔ جس کو یہ سب حادثاتی لگتا ہے اس کی ہمت کا میں دل سے معترف ہوں۔
اوولیوشن تھیوری کی سب سے بڑی خامی اس بائیلوجیکل نظام کا ایک باقائدہ پلانڈ ہونا ہے کہ ہر نسل میں جوڑے ہیں۔ ارتقاء میں ایک نسل کا ایک طرح کا جاندار تو ممکن ہے لیکن نر مادہ ہونا اور تعداد میں تقریبا ایک جیسا بغیر ٹھوس پلاننگ کے ممکن نہیں۔ پھر نر کا طاقتور ہونا اور مادہ کا خوبصورت اور کمزور ہونا کیا محض ایک اتفاق ہے؟ ایک مچھلی پانی سے نکل کر ایک لاکھ سال بھی پھدکتی رہے اس کی ٹانگیں نہیں نکلیں گی۔ اگر نکل بھی آئیں تو اس کے ڈی این اے میں کون ڈالے گا کہ اس کے بچے بھی ٹانگوں والے ہوں۔
لکڑی کا تختہ ایک لاکھ سال بھی سمندر میں تیرتا رہے وہ کشتی نہیں بن سکتا۔ جب تک کوئی اس کو اس کو نا بنائے۔
میرے خیال میں خدا کے تصورات ہر 2 ہزار سال بعد بدلتے رہتے ہیں اور اس دور کے شعور کے مطابق لوگ اندازے لگا کر یا سابقہ ادوار سے آئیڈیا لے کر کوئی نا کوئی نتیجہ نکالتے رہتے ہیں اور نکالتے رہیں گے۔ پہلے لوگ خود کو خدا کہتے تھے ۔ پھر خدا نادیدہ ہوگیا اور اب ہے ہی نہیں۔
ہر بندہ اپنا کوئی بھی عقیدہ رکھنے میں بالکل آزاد ہے اور کسی کو بھی اس بارے میں متجسس ہونے کی بالکل بھی ضرورت نہیں کیونکہ آپ اس سے براہ راست متاثر نہیں ہورہے اور نا ہی اپنا ملحد پن یا مذہبی رحجان کسی پر تھوپنا چاہئے۔ انسان میں واحد کام کی چیز اس کا دماغ ہے اس کا زیادہ سے زیادہ استعمال آپ کو منفرد بنا سکتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں