کشمیر خون کی وادی ۔۔۔ راجہ فرقان احمد

بھارت کی تاریخ گواہ ہوگی کہ اگست کے مہینے میں کچھ شرپسندوں نے بھارت کو نہرو اور گاندھی کی تعلیمات سے دور کرنے کی کوشش کی. وہ بھارت جو سیکولرازم کوفوقیت دیتا تھا, جو مذہب اور سیاست کو اپنے آئین سے جدا کرچکا تھا آج مذہبی انتہا پسندی کے سبب سیکولرازم اپنی آخری سانس لے رہا ہے. خیر بات ہے کشمیر کی ،ان انتہا پسندوں  کے اقتدار میں آتے ہی کشمیریوں پر ظلم کی ایک نئی داستان شروع ہوگی، ابھی اگست میں بھارت نے سینکڑوں کی تعداد میں بھارتی فوجی کشمیر میں بھیج دیئے جن کا کام صرف اورصرف یہی تھا کہ وہ نہتے کشمیریوں پر ظلم کریں.

اس اثنا میں  بھارت کی اسمبلی نے آرٹیکل370 اور  35(A) کو ختم کردیا جس میں کشمیر کو ایک خصوصی حیثیت حاصل تھی. بھارت نے نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں بلکہ پاک بھارت معاہدے کی بھی خلاف ورزی کی کہ جس کے بعد مقبوضہ کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا یا ایک  لداخ اور دوسرا حصہ جموکشمیر ہے. اس فیصلے کے خلاف کشمیری عوام سڑکوں پر آگئے اور شدید احتجاج کیا بھارت کی جانب سے کشمیری عوام کو دبانے کے لیےکرفیو نافذ کیا جو تقریباً 14 روز سے جاری ہے.

فیصلے کے خلاف فوری حریت رہنماؤں نے بھی مزاحمت کی اور بھارت کے خلاف شدید احتجاج کیا لیکن ان حریت رہنماؤں کی تنقید بھارت کو کہا ہضم ہو سکتی تھی سو بھارت نے تقریبا ًتمام حریت رہنماؤں کو نظر بند کر دیا. یاسین ملک کا تو ہم سب کو معلوم ہے جو دہلی جیل میں قید تنہائی کاٹ رہے ہیں. کشمیریوں کو  بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے ۔موبائل فون انٹرنیٹ سروس بند کی جاچکی ہیں. کشمیر کی دنیا کی وہ واحد جگہ ہوگی جہاں پر پوسٹل سروسز نہیں ہے . کشمیر کے سابق وزیراعلی نے بھی  اس فیصلے کے خلاف آواز اٹھائی   اور ہندوستان کے ساتھ الحاق اپنی سب سے بڑی غلطی قرار دی.  محبوبہ مفتی اور  عمر عبداللہ  جنہوں نے اقتدار کے مزے لیے تھے آج وہ بھی بھارت کے خلاف کھڑے دکھائی دیے.  عمرعبداللہ کو تو یہ بات کرتے وقت شرم آنی چاہیے تھی کہ جس طرح ان کا خاندان تین بار کشمیر میں حکومت کر چکا ہے  عمر عبداللہ کے والد فاروق عبداللہ اور دادا شیخ عبداللہ نے کشمیریوں سے غداری کی اور صرف اقتدار کی  ہوس میں اپنے لوگوں پر ظلم کیا ،لیکن آج کشمیریوں کے سامنے معصوم بنے کی کوشش کر رہے ہیں. کشمیر کی عوام ان لوگوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی.

کشمیر کے معاملے پر اگر پاکستان کے کردار کی بات کی جائے تو پاکستان نے ہر فورم پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا  یہاں تک کہ ہمارے وزیراعظم عمران خان نے  اپنے آپ کو کشمیر کا سفیر مقرر کیا  جو کشمیریوں کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے. پاکستان کی درخواست پر ہی سلامتی کونسل میں کشمیر کے بارے میں بات کی گئی اور دوسرے بڑے ممالک کے ساتھ بھی کشمیر کے حالات بیان کیے گئے. سلامتی کونسل میں پچاس سال بعد آزاد کشمیر کے بارے میں اجلاس بلانا بھی پاکستان کے لئے بہت بڑی فتح تھی کیونکہ کشمیر کا معاملہ بین الاقوامی معاملہ بن چکا ہے .

مجھے اس مسئلے پرعالمی دنیا پر بھی بڑی حیرانگی ہوئی کہ اقوام متحدہ جو ہر وقت بنیادی حقوق کی بات کرتی ہے لیکن کشمیر پر ظلم اقوام متحدہ کو نظر نہیں آیا. اقوام متحدہ کو چاہیے تھا کہ وہ فی الفور اس کا نوٹس لیتی اور اس مسئلے کو   بات چیت سے حل کروانے کی کوشش کرتی لیکن سلامتی کونسل نے اپنے فائدے کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا کوئی اقدام نہیں کیا.

Advertisements
julia rana solicitors london

کشمیریوں پر بھارت جتنی مرضی ظلم کرلے، کشمیری اپنا حق لیکر ہی رہیں گے. کشمیر یوں کو دبایا نہیں جاسکتا. بھارت اور پاکستان کو مل بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے .کشمیر کا فیصلہ کشمیر کے عوام خود کریں.بھارت کشمیر کو خون کی وادی نہ بنائے کشمیریوں پر ظلم بند کرنا چاہیے اور فی ا لفور اپنی فوج کشمیر سے واپس  بلانی چاہیے.  کشمیریوں پر ظلم بندکیا جائے اور ان  کو بنیادی حقوق دیئے جائیں.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply