نوشی بٹ کا ڈاکٹر خالد سہیل کے نام خط اور ان کا جواب/5

نوشی بٹ کا خالد سہیل کو چھٹا خط۔۔۔

ڈاکٹر خالد کو تبدیلی کے دیس سے گرمی بھرا آداب!

امید ہے آپ بخیر ہونگے۔سب سے پہلے تو آپ کا شکریہ کہ آپ کو میرے خوابوں کے پورا ہونے کا یقین ہے۔آپ کی بات درست ہے ماضی میں رہنے والے لوگ دکھی رہتے ہیں۔جو ہے انسان کا آج ہے۔ہمیں اپنے آج کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم کل میں جیتے رہتے ہیں۔اب چاہے وہ بیتا ہوا کل ہو یا آنے والا کل۔اس لیے ہمیں اپنے حال کو اچھا اور بھرپور بنانے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ آپ نے کہا کہ ججمنٹل وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی تربیت مذہبی ماحول میں ہوئی ہو۔لیکن میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جن کے نظریات تو مذہبی نہیں لیکن وہ پھر بھی دوسرے انسان کی عادات و نظریات پہ تنقید کر رہے ہوتے ہیں۔اور کسی بھی مذہبی سے زیادہ انتہا پسند بھی ہوتے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ یہ انسان کے اپنے نفسیاتی کمپلیکسز ہوتے ہیں جو اسے اس طرح کا بنا دیتے ہیں۔ آپ نے مجھ سے میرے عقائد و نظریات کا پوچھا ہے۔میں تو ایک انسان بننے کی کوشش میں ہوں۔میں سمجھتی ہوں کہ مذہب یا عقائد سراسر کسی بھی انسان کا بالکل ذاتی فعل ہے۔کسی بھی دوسرے انسان کو کسی کے عقیدے یا مذہب کی وجہ سے اچھا یا برا نہیں کہنا چاہیے۔میں یہ سمجھتی ہوں کہ دنیا میں آپ آئے ہیں تو آپ کے آنے کا مقصد آپ کو پتہ ہونا چاہیے۔کسی بھی دوسرے انسان کو آپ کی وجہ سے تکلیف نہ اٹھانی پڑے۔آپ کسی کی دل آزاری کا سبب نہ بنیں۔اپنی ذات سے ہرممکن حد تک دوسروں کو راحت پہنچائیں ۔میرا ماننا ہے کہ بطور انسان ہر دوسرے انسان کا احترام مجھ پہ فرض ہے چاہے وہ کسی بھی فرقے،عقیدے یا مذہب کا پیروکار ہو۔ میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے یہ میرا موٹو ہے۔خدا اور مذہب انسان کا سو فیصد ذاتی فعل ہے۔میرے خیال سے اسے خدا اور انسان کے بیچ ہی رہنا چاہیے۔ہمیں لوگوں پہ فرعون بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔اخلاقیات بہرحال ہر انسان میں ہونی چاہئیں۔زندگی مختصر ہے اور خواہشات کی فہرست طویل تر۔تو کیا آپ کی کوئی ایسی خواہش ہے جو آپ کو لگتا ہو کہ پوری نہیں ہوئی۔؟ ایک بات اور کہ آپ آج کے پاکستانی معاشرے کی عورت کو ذہنی طور پہ کہاں دیکھتے ہیں۔کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آج کی پاکستانی عورت کل نسبت آج زیادہ آزاد اور خودمختار ہے؟اور آنے والے کل میں اور بہتر ہو گی؟اب مجھے اجازت دیجیے،اگلے خط اور آپ کے جوابات کا انتظار رہے گا۔ آپ کی دوست نوشی بٹ ۲۸۔اگست۔۲۰۱۹

خالد سہیل کا نوشی بٹ کو ساتواں خط

نوشی بٹ کو ایک دہریہ درویش کی دعائیں !

میں نے جب آپ کا آدرش پڑھا

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

تو مجھے بہت خوشی ہوئی اور اپنی تخلیقات کے بارے میں اپنا ایک جملہ یاد آیا

MY CREATIONS ARE MY LOVE LETTERS TO HUMANITY

ایک نفسیات کے طالب علم ہونے کے ناطے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہر انسانی بچہ جس خاندان اور معاشرے میں پلتا بڑھتا ہے اس کا ماحول اس کی

SOCIAL, RELIGIOUS AND CULTURAL CONDITIONING

کرتا ہے اور وہ بچہ اپنے خاندان سکول اور معاشرے کی اقدار کو لاشعوری طور پر قبول کر لیتا ہے اور انہیں اپنا سمجھنے لگتا ہے۔

جب وہ بچہ جوان ہوتا ہے تو اس کے اندر تنقیدی شعور بیدار ہوتا ہے اور وہ اپنی موروثی اقدار پر نظرِ ثانی کر کے چند اقدار کو رد اور چند کو قبول کر سکتاہے۔میں نے اپنا فلسفیانہ سفر اپنی کتاب

FROM ISLAM TO SECULAR HUMANISM

میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔

آپ نے پوچھا ہے کہ میری کونسی خواہش ابھی پوری نہیں ہوئی۔ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ مجھے ساری دنیا کی سیاحت کا شوق تھا۔ چنانچہ میں نے آدھی دنیا کا سفر کیا جس میں ہندوستان۔۔۔یورپ۔۔۔لاطینی امریکہ۔۔۔جنوبی افریقہ۔۔۔سعودی عرب۔۔۔اسرائیل اور روس کا سفر شامل ہے لیکن ابھی آدھی دنیا کا سفر باقی ہے جس چین اٹلی اور کئی اور ممالک شامل ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ۹/۱۱ کے حادثے سے پہلے میں جتنا سفر انجوئے کرتا تھا اب نہیں کرتا۔اس لیے اب میری خواہش میں وہ پہلی والی شدت باقی نہیں رہی۔

آپ نے مشرقی عورت کے بارے میں  میری رائے پوچھی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ عورت کی آزادی وخود مختاری میں تعلیم ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ جوں جوں تعلیم عام ہو رہی ہے عورتوں کی حالت بھی بہتر ہو رہی ہے۔میری نگاہ میں کسی بھی معاشرے میں انسانی ارتقا کے سفر میں عورتیں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔میں اس حوالے سے کافی پرامید ہوں۔ اس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں

میری نانی کی تعلیم دو جماعتیں تھی

میری والدہ کی تعلیم آٹھ جماعتیں تھی

میری بہن کی تعلیم تیرہ جماعتیں تھی

میری بھانجی نے چند سال پیشتر یونیورسٹی سے گریجویشن کی۔ اس طرح ہمارے ننھیال کی عورتوں کو گریجویشن کرنے میں چار نسلیں لگیں۔

میرے لیے یہ ایک خوش خبری ہے۔

سوشل میڈیا بھی عورتوں کی جدوجہد میں ایک مثبت کردار ادا کر رہا ہے اگر انٹرنیٹ نہ ہوتا تو آپ کی اور میری یہ خط و کتابت بھی ممکن نہ ہوتی۔

میں سمجھتا ہوں کہ جب عورت معاشی طور پر خود مختار ہو تی ہے تو وہ اپنے باپ،بھائی،شوہر اور بیٹے کی دست نگر نہیں رہتی اور اپنی زندگی کے فیصلےخود کر سکتی ہے۔اس کی معاشی آزادی اس کی نفسیاتی سماجی اور تخلیقی آزادی کے لیے راہ ہموار کرتی ہے۔

چونکہ آپ پاکستان میں رہتی ہیں اور زمینی حقائق سے مجھ سے کہیں زیادہ باخبر ہیں آپ مجھے بتائیں کہ آپ کی پاکستانی عورت کے مستقبل کے بارے میں کیا رائےہے؟ کیا آپ کو میرے جلد جلد خط لکھنے پر حیرت ہو رہی ہے یا نہیں؟ جہاں تک میری کتاب کا تعلق ہے ہم آپ کے اگلے خط کے بعد یہ سلسلہ ختم کر سکتے ہیں ۔اگر آپ چاہیں  تو ہم جاری بھی رکھ سکتے ہیں۔

اگر آپ کی اجازت ہو تو میں یہ سب خطوط مکالمہ کے ایڈیٹر دوست احمد رضوان کو بھیج سکتا ہوں۔ وہ اس سے پہلے میرے کئی دوستوں کے ادبی محبت نامے چھاپ چکے ہیں۔۔۔کیا خیال ہے؟

آپ کا سات سمندر پار دوست

Advertisements
julia rana solicitors

خالد سہیل ۲۸ اگست ۲۰۱۹

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply