نظم کہانی۔۔۔(4)ڈاکٹر ستیہ پال آنند

گیلاتیا سے کون بچے گا

(۱)
کیا مورت تھی
جس کے خال و خد
چہرے کی وضع، بناوٹ
شکل و صورت
پتھر کی اک سِل سے یوں اُبھرے، جیسے
اس کے اندرصدیوں سے مخفی ہوں
اور اب جاگ اُٹھے ہوں
کیا مورت تھی
چہرہ، مہرہ
آنکھیں
رخساروں پر کھِلتی سُرخی
ہونٹو ں پر اک
ہلکے خم جیسی گِیلی مُسکان کا پرتو
بالوں میں
ساون کی گھٹا کی خُنکی کا جاں بخش تاثر
جیسے پتھر کی سختی کو
دُھنک دُھنک کر
میں نے ریشم کی نرمی میں بدل دیا ہو

کیا مورت تھی
جس کا سیمیں تن میرے تیشے کی کاٹ سے
یوں اُبھرا تھا
جیسے پل دو پل میں یہ پتھر کی مورت
جاگ اٹھے گی
میں پیگمِلین ، خود مبہوت سا
اک ٹک اُس کو دیکھ کے آخر
اپنی ہی تخلیق سے جیسے پوچھ رہا تھا
’’کیا تم زندہ ہو سکتی ہو؟‘‘

(۲)
یہ وردان تھا حسن کی دیوی کا ۔۔۔۔یا میرے
فن کا ایک کرِشمہ ہی تھا
جب میں نے پتھر کی اُس مورت کو اپنے
خوابوں کی شہزادی جیسے روپ میں دیکھا
دل سے ایک دعا نکلی ۔۔۔۔اے کاش، یہ مورت
زندوں کی اس دنیا میں اک جیتی جاگتی
عورت بن کر ظاہر ہو ۔۔۔
شہزادی ۔۔۔۔میرے خوابو ں کی
وہ اک دیوی، جس کی پوجا
میری زیست کا نصب العین رہے مرنے تک

میری دعا بدلی وردان میں
جاگ اُٹھی میرے ہاتھوں سے گھڑی ہوئی پتھر کی مورت

اس کا چہرہ، اس کی آنکھیں
زلفیں، ہونٹ، وہ سیمیں تن
باہوں کا لوچ، تنفس کی خوشبو ۔۔۔ سب تحفے
میرے لیے تھے
اس کی پرستش
میری زیست کا واحد مقصد
میرا نصب العین، مری دن رات کی بھگتی
میرا فرض، مری عادت تھی
وہ دیوی تھی
میں تھا پجاری

(۳)
اپنی ہی تخلیق کا خود عابد بن جانا
شاید فطرت کی رُو سے یہ بات غلط تھی
لیکن میں عابد تھا
اور اپنے معبود کی ہر خواہش کو پورا کرنا
میرے زندہ رہنے کی غرض و غایت تھی
گیلاتیا کے ابرو کی ہلکی سی جُنبش
ایک اشارے پر مر مٹنا
اُس کی ہر جائز نا جائز خواہش کی تکمیل کی خاطر
اپنے دن کا چیَن، رات کی نیند گنوانا
میری ساری زیست کا مقصد
اس اک بات میں ہی مخفی تھا

(۴)
لیکن کب تک؟
گیلاتیا کو انسانی قالب دے کر
شاید یہ حسن کی دیوی بھول گئی تھی
پتھر کے دل میں دھڑکن پیدا تو ہو سکتی ہے، لیکن
پتھر کے دل میں انسانی جذبہ کیسے پیدا ہو گا؟
وہ نازک احساس کہاں ہے؟
عشق ہی اوّل، عشق ہی آخر ۔۔۔۔
اس جذبے کو پتھر کا دل کیا سمجھے گا؟
بُت میں جان تو پڑ سکتی ہے
لیکن ’جان‘ کو ’روح‘ کے رُتبے تک پہنچانا ؟
شاید دیوی کے وَردان میں ایسی کوئی بات نہیں تھی

(۵)
گیلاتیا میں پیار کا جذبہ پیدا ہونا نا ممکن تھا
پیار، عبادت، عشق ، پرستش
دو طرفہ جذبے ہیں، تبھی تو
ان کا نبھانا
ایک فریق کا کام نہیں ہے
عابد اور معبود میں تو دُہرا رشتہ ہے
دیوی اور پجاری دونوں
اپنی بھگتی کی ڈوری سے ایک برابر بندھے ہوئے ہیں

گیلاتیا تو حاکم ِ جاں تھی
حکم چلانے میں ماہر تھی
کیسے سمجھتی
اس کا عابد سینے میں اک دل رکھتا ہے
پیار کا وہ بھی تو بھوکا ہے
گیلاتیا، اک جیتی جاگتی عورت
اس جذبے سے بالکل نا واقف تھی
اپنے حسن پہ نازاں، یہ پتھر دل عورت
اس رشتے کو
اپنی پرستش تک محدود ہی رکھ سکتی تھی

(۶)
گیلاتیا ، اک جابر ، حاکم
مالک ِ کل تھی
اور میں بے چارہ، پِگملین
بس اک خادم
اک کٹھ پُتلی
جس کا اُٹھنا، بیٹھنا، چلنا، پھرنا ۔۔۔۔ سب کچھ
ان ہاتھوں کی مرضی پر ممکن تھا، جن سے
اس کی رسّی بندھی ہوئی تھی

کب تک یہ یک طرفہ عبادت چل سکتی تھی؟
آخر میں نے خود سے پوچھا ۔۔۔۔
کیا میں اپنے ہی فن پارے کی ہستی کو
(جس کو میں نے خلق کیا ہے)
تیشے کی اک چوٹ سے خود ہی
ریزہ ریزہ کر سکتا ہوں؟

لیکن اک بے جان مورتی
تیشے کی اک چوٹ سے توڑی جا سکتی تھی
اک زندہ عورت کا مرنا؟
وہ بھی اک فنکار کے ہاتھوں ؟
نا ممکن ! بالکل نا ممکن
میں پِگمِلین، گیلاتیا کا خالق و عابد
تیشہ ہاتھ میں لے کر بیٹھا سوچ رہا ہوں
میرے لیے اب راہ ِ نجات فقط اتنی ہے
اپنے سر کو کاٹ کے
اس بے رحم کو خود ہی پیش کروں
یہ آخری بھینٹ پجاری کی اپنی دیوی کو

لیکن ، لوگو
صدیوں سے اس عورت ذات کے ہاتھوں
بے چارے مردوں پر
کیا بیتی ہے؟
میری کہانی سے کچھ سیکھو
میں پِگمِلین ، اک بے چارہ
تم سب پِگمِلین، بے چارے
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک بے حد حسین عورت کا بُت، جسے یونانی دیومالائی کہانی کے مطابق اس کے خالق بت تراش پگمیلین
کے اسرار پر حسن کی دیویPygmalion
Aphrodite (افرودِتی)نے زندہ کر دیا تھا۔ بعد کی کہانی آپ نظم میں پڑھ سکتے ہیں۔ جارج برنارڈ شاء نے انگریزی میں ایک ڈرامہ اس موضوع پر لکھا۔(ستیہ پال آنند)

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply