دروازے از عرفان جاوید/تبصرہ۔۔بلال حسن بھٹی

لاہور ، پنجاب اور پنجابی سے احمد بشیر کے والہانہ قلبی تعلق کے متعلق ایک مکالمہ قابلِ ذکر ہے۔۔۔

ہماری پہلی ملاقات کا واقعہ ہے۔۔۔ میں نے کراچی میں انکے قیام اور اردو زبان پردست رس کے متعلق یہی تاثر اخذ کیا کہ غالباً اردو انکی مادری زبان ہے۔۔۔ میں نے ان سے اس تاثر کیا ذکر کیا تو کہنے لگے :

” کیا ایسی رنگیں اور زرخیز زبان کوئی غیر پنجابی لکھ سکتا ہے۔۔۔؟”

اس سوال میں انکی پنجابی ثقافت سے غیر معمولی محبت اور جانب داری ٹپکتی تھی۔۔۔

پنجاب کی تقسیم نے انھیں بہت دکھی کیے رکھا۔۔۔ جاٹ ادھر بھی تھے ، ادھر بھی ، کشمیری ہندوستان میں بھی تھے ، پاکستان میں بھی ، راج پوت ہندو بھی تھے ، مسلمان بھی۔۔۔۔

قائد اعظم کی بصیرت اور سکھوں کے پنجاب کو بہ طور اکائی رکھنے کی خواہش پر احمد بشیر صاحب کے تاریخی اور ان جانے انکشافات حیران کن تھے۔۔ احمد بشیر نے بتایا۔۔۔

” تقسیم سے پنجاب میں فسادات شروع ہوچکے تھے۔۔۔ماسٹر تارا سنگھ نے پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی عمارت کے باہر تلوار لہرا کر اعلان جنگ کر دیا تھا۔۔۔ گیانی ہری سنگھ کے ماسٹر تارا سنگھ سے تعلق دہائی بھر سے زیادہ ہوچکا تھا۔۔۔ ابتدا گرم جوشی کے تعلقات میں سرد مہری تب در آئی جب گیانی صاحب ہری سنگھ نے ماسٹر تارا سنگھ سے کہا کہ سکھوں میں ذات پات کے تعصبات در آئے ہیں جو بابا گرو نانک کی تعلیمات کے منافی ہیں۔۔۔ انہوں نے یہ مطالبہ بھی کر دیا کہ نچلے درجے سے تعلق رکھنے والے سکھوں کے لیے علیحدہ نشستیں مخصوص کی جائیں۔۔۔”

احمد بشیر نے توقف  کر کے بات جاری رکھی:

” اب جو فسادات کا آغاز ہوا تو گیانی ہری سنگھ قائد اعظم سے ملاقات کے لیے دلی گئے۔۔ ان کے ہم راہ ماسٹر ہزارہ سنگھ مجٹھیا تھے۔۔۔ گیانی صاحب کے الفاظ میں :

” جناح صاحب کے ہاں ہمارا خورشید حسن خورشید نے استقبال کیا۔۔۔ وہ جناح صاحب کے کمرے میں گئے اور لوٹ کر ہمیں اندر کمرے میں قریباً دھکیل دیا۔۔۔ ہمارے سامنے ایک پروقار اور بارعب شخص بیٹھا تھا جس میں خود اعتمادی واضح طور پر نظر آتی تھی۔۔۔ جناح صاحب نے بردباری سے مسکراتے ہوئے پوچھا :

” ہمارے سکھ ہم سے کیا چاہتے ہیں؟؟ ” میں نے کہا :

” جناب سکھ ریاست پاکستان میں رہتے ہوئے خودمختاری چاہتے ہیں۔۔ ہم دنیا میں اپنی واحد ماں دھرتی پنجاب کی تقسیم نہیں چاہتے۔۔”

” میں نے گیانی صاحب سے پوچھا کہ کیا انہوں نے انگریزی میں بات کی تھی۔۔” احمد بشیر نے بتایا۔۔۔

” اس پر گیانی صاحب کا جواب تھا :

” نہیں ہم جناح صاحب کی انگریزی دانی کا کہاں مقابلہ کر سکتے تھے۔۔۔ ہم نے اردو میں بات کی تھی جو وہ آسانی سے سمجھ گئے۔۔۔ میں نے ان سے کہا کہ اس طرح بنگال بھی تقیسم نہ ہوگا اور کشمیر بھی خود بخود پاکستان کو مل جائے گا۔۔۔ جناح صاحب نے کچھ دیر سوچا اور بولے :

” آپ بارہ آنے مانگ رہے ہیں جب کہ میں آپ کو پورا پیا دینا چاہتا ہوں۔۔۔ آپ لوگ مجھ سے پاکستان میں رہتے ہوئے خودمختار ریاست کی خواہش کر رہے ہیں جب کہ میں آپ کو مکمل پھلکیاں ریاست ، جالندھر کے ضلعے جہاں سکھ اکثریت میں ہیں ، گورداسپور ، فیروزپور اور امرتسر کے علاؤہ ننکانہ صاحب بھی دینا چاہتا ہوں جس کی راہ داری لاہور اور شیخو پورہ میں ہوگی۔۔۔

” ہم یہ سن کر دم بخود رہ گئے۔۔۔ جناح نے توقف کر کے کہا :

” ماسٹر تارا سنگھ کو میرا پیغام دے دیں کہ میں ان سے ملنا چاہتا ہوں۔۔۔ وہی صحیح معنوں میں سکھوں کی جانب مذاکرات کر سکتے ہیں۔۔۔ اسکے لئے میں ان کے دروازے پر امرتسر جانے کے لئے تیار ہوں۔۔ میں نے انھیں یہ تجویز بھجوائی ہے لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔۔۔ اگر وہ اس سے بھی زیادہ چاہتے ہیں ، انھیں دینے کو تیار ہوں۔۔۔”

احمد بشیر نے گیانی صاحب کے الفاظ دہراتے ہوئے کہا :

گیانی صاحب کہتے ہیں میں یہ تجویز لوٹ کر آیا۔۔ مجھے اندیشہ تھا کہ ماسٹر تارا سنگھ جناح صاحب سے ملاقات کے لیے تیار نہ ہوں گے۔۔ ان پر سردار پٹیل کا بہت اثر تھا جو انہیں جناح صاحب سے ملاقات نہ کرنے پر آمادہ و پاپند کر چکے تھے۔۔۔۔ واپس آکر میں نے کرتار سنگھ کے پاس یہ فیضانہ پیش کش لے کر گیا اور انہوں نے اسے قبول کرنے پر آمادہ کیا۔۔۔ میں نے اس تجویز کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب کی تمام زرخیز زمین کے مالک سکھ ہیں۔۔ ہمارے گوردوارے پورے پنجاب میں بکھرے ہوئے ہیں۔۔ اگر پنجاب تقسیم ہوگیا تو مغربی پنجاب کے ہندو ہجرت کر کے مشرقی پنجاب میں آجائیں گے۔۔۔ ان ہندو مہاجرین سے ہندو اکثریتی ملک میں ترجیتی سلوک کیا جاے گا۔۔۔ ہم ہر صورت گھاٹے میں رہیں گے۔۔ ہمارے لائل پور ( فیصل آباد ) شیخوپورہ اور سرگودھا کے معزز سکھوں ہر مشتمل ایک جتھے ماسٹر تارا سنگھ سے ملاقات کی۔۔”

ماسٹر تارا سنگھ کے جواب کا تذکرہ کرتے ہوئے ان مکالمات جو بیاں کرنے لگے :

” جواب میں ماسٹر تارا سنگھ گیانی صاحب پر غصے میں دہاڑا :

تمہیں جناح سے سکھوں کی طرف ملنے کی اجازت کس نے دی ؟ میں نہ مسلمانوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنا چاہتا ہوں اور نہ ہی جناح سے ملوں گا۔۔”

” آپ نے وضاحت کرنے کی ہمت نہ کی ؟ احمد بشیر صاحب نے گیانی جی سے پوچھا تھا۔۔

” میں نے وضاحت کر کے کہا کہ تقسیم کے نتیجے میں ہندو ، مسلمان اور سکھ قتل ہوں گے ، کوئی فائدہ نہ ہوگا۔۔۔ سکھ مسلمان لڑکیوں اور عورتوں کو اغواء کر کے ان سے زیادتی کریں گے۔۔۔ یوں وہ گورو گوبند سنگھ کی تعلیمات کی نفی کر کے سکھ دھرم سے نکل جائیں گے۔۔ جواباً مسلمان ایسا سلوک سکھ عورتوں سے کریں گے۔۔ یوں ہم دونوں صورتوں میں۔ خسارے میں رہیں گے۔۔۔ ”

ماسٹر تارا سنگھ نے پوچھا :

” تم کہاں سے تعلق رکھتے ہو؟ ” میں نے بتایا کہ میں امرتسر کے نیزدیک ایک گاؤں سے ہوں۔۔ ”

” ماسٹر تارا سنگھ نے کہا :

” اسی لئے تم ایسے خیالات رکھتے ہو۔۔۔ میں راول پنڈی کے قریب ایک ایسے گاؤں سے ہوں جسے مسلمانوں نے جلا ڈالا۔۔۔”

” میں نے ترکی بہ ترکی جواب دیا :

” ماسٹر جی یہ ذاتی دشمنی کا معاملہ نہیں۔۔ سکھوں کے مستقبل اور پنجاب کی تقسیم کا معاملہ ہے۔۔۔ ”

ماسٹر جی غصب میں کانپنے لگے اور کرپان پر ہاتھ رکھ کر دہاڑنے لگے۔۔۔ مجھے خطرہ ہوا کہ انکے جان نثار مجھے قتل کر ڈالیں گے چنانچہ مصلحت جانتے ہوئے اجازت لیکر نکل آیا۔۔۔”

ماسٹر تارا سنگھ نے اچھی خاصی پیش کش ضائع کردی۔۔ میں نے احمد بشیر صاحب سے کہا تو وہ بولے۔۔۔

” بعد میں اسکا ماسٹر تارا سنگھ جی کو بھی احساس ہوا۔۔۔”

” وہ کیسے ؟ ” میں نے پوچھا۔۔۔

” انہوں نے اس واقعے کا غیر متوقع انجام سنایا۔۔

” گیانی جی ماسٹر تارا سنگھ کی مخالفت کی وجہ سے پاکستان چلے آئے اور گردوارہ ننکانہ صاحب میں قیام پذیر ہوگئے۔۔۔ تقیسم کے بعد ماسٹر جی کو اپنی سنگین غلطی کا احساس ہوچکا تھا۔۔۔ انہیں انکا پنتھ بھی چھوڑ چکا تھا۔۔۔ چنانچہ دو دہائیوں کے بعد اپنے گناہوں کے کفارے کے لیے وہ ننکانہ صاحب آئے۔۔۔ گوردوارے کے روایتی طریقے کے مطابق یاتری کو سکھوں کے مقدس مذہبی کتب سے سنانا اور پڑھتا ہوا ہے۔۔۔ جس کے لئے پاکستان میں واحد گرنتھی گیان جی تھے۔۔۔ گیانی صاحب سے حکومت پاکستان نے اس کے لیے درخواست کی تو کسی قدر تردید کے بعد وہ مان گے۔۔۔ ماسٹر جی اور گیانی جی کا آمنا سامنا ہوا تو ابتدا ماسٹر جی انھیں پہچان نہ پائے۔۔۔ تھوڑی دیر بعد وہ پہنچانے لگے تو بری طرح رونے لگے اور بولے :

” گیانی ! مجھے معاف کر دو ، میں نے پنتھ کے خلاف بڑا گناہ کیا ہے۔۔ ” اس کے بعد انہوں نے گیانی جی کو واپس ہندوستانی پنجاب چلنے کو کہا تو گیانی جی نے یہ کہہ کر انکی معزرت کرلی کہ ماسٹر جی کی مجرمانہ حرکت کی وجہ سے انکے 128 رشتے دار قتل ہوگے جن کا خون انکے سر ہے۔۔۔ ماسٹر جی نے ہاتھ جوڑ کر اس سے معافی مانگی۔۔ ننکانہ صاحب کے دورے کی ایک برس کے اندر ماسٹر جی سورگ باش ہوگئے۔۔۔”

احمد بشیر صاحب نے یہ داستان ختم کی تو ہم دونوں ایک سوگ وار خاموشی میں کھو گئے۔۔

” مشرقی پنجاب کے ایک سکھ دانشور ورجس ونت سنگھ کنول نے بھی 1981 میں اس سارے معاملے کی میرے سامنے لاہور میں تصدیق کی تھی۔۔۔”

احمد بشیر صاحب نے بتایا :

” ہمارے ملک میں تحقیقی صحافت کی کوئی جگہ نہیں۔۔۔ زندہ قومیں تاریخ پر تحقیق کرتی ہیں۔۔ ایسے صحافی اور اور محقق عمدہ معاوضے پاتے ہیں۔۔ وہ قومیں سوچ و بچار کے بعد نئی پالیسیاں اس تحقیق کی روشنی میں بناتے ہیں۔۔ تحقیق کا بنیادی عنصر ہر دو قسم کی زوائے سامنے رکھ کر درست صورت حال سامنے لاتا ہے جب کہ یہاں کسی غلط العام بات تو دلائل کی ساتھ رد کیا جائے تو گالیوں اور شنام طرازی کی سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے۔۔۔ محقق کی نیت پر شک کیا جاتا ہے اور اسکی تحقیق کے پیچھے سازشی کہانیاں گھڑ کے اس سے منسوب کر دی جاتی ہیں۔۔۔”

احمد بشیر کے لب و لہجے میں دکھ کا گہرا رنگ جھٹک رہا تھا۔۔!!

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ:یہ مضمون بلال حسن بھٹی صاحب کی وال سے شکریہ کے ساتھ کاپی کیا گیا ہے!

 

Facebook Comments

بلال حسن بھٹی
ایک طالب علم جو ہمیشہ کچھ نیا سیکھنے کی جستجو میں رہتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply