سنگ مر مر۔۔۔وسیم یوسف

رحمتاں بشیرے کی تیسری بیوی تھی، بشیرا محنت مزدوری کے ساتھ ساتھ وعظ و نصیحت بھی کیا کرتا تھا اس لیے گاؤں میں قدر ےجان پہچان تھی۔
بشیرے کے تینوں بچے کام کاج سے کوسوں دور شغل میلے میں مشغول رہتے اور گھر کی مالی ضروریات بشیرا ہی پوری کرتا تھا۔
اس کے دنیا سے جانے کے بعد اس کے خاندان کے حالات انتہائی ابتر ہوئے تو ایک بیٹا دوسرے شہر چلا گیا، مگر کوئی خاص کمائی نہ ہوئی نتیجتاً گھر میں فاقے شروع ہو گئے۔

رحمتاں کی اولاد تو نہ تھی مگر مرحوم شوہر کے بیٹوں سے ہمدردی ضرور تھی، اسکی معذوری آڑے نہ آئی اور اس نے طے کیا کہ محنت مزدوری اور دوسروں کے گھر کے کام کاج سے نظام چلائے گی، وہ روز گاؤں سے شہر کی طرف جاتی گھروں میں کام کرتی، ہمدردی بٹورتی، حکومتی فنڈ کیلئے چکر کاٹتی اور شام کو سامان اور کچھ پیسے لے کر گھر لوٹتی۔
بشیرے کے ایک بیٹے کو سکول بھی داخلہ دلایا اور دوسروں کے بڑے شہر جانے کیلئے سفری ٹکٹ وغیرہ  دلائی

بشیرے کے بچے چند ماہ کام کرتے پھر واپس آکر گھر میں پڑے رہتے اور رحمتاں کو مجبوراً ان کے لئے زیادہ محنت کرنی پڑتی۔
رحمتاں نے اسی طرح کئی سال گزار دیے، عمر کے اس حصہ میں اکثر بیمار رہتی مگر اس نے ہمت نہ ہاری۔

وقت گزرتا گیا اور رحمتاں کی ٹانگیں جواب دینے لگیں اور وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو گئی، علاج کروایا مگر لمبے سفر کے لیے مستقل چھٹی ہو گئی بشیرے کے سب سے بڑے بیٹے نے گھر میں مستقل رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا رحمتاں کی کمائی کے خاتمے کے بعد انہیں وہ بالکل بھی برداشت نہیں ہو رہی تھی اسکے لیے ہر دن غصہ بڑھتا ہی گیا، گھر میں اکثر شور شرابہ ہوتا اور نشانے پہ صرف رحمتاں۔ اس کی بیماری اور بڑھ گئی دمہ بھی آگیا اور وہ چارپائی کی ہو کر رہ گئی۔

ایک دن اسکے بیٹوں کو خبر ملی کہ رحمتاں کی کچھ رقم گاؤں کے مولوی صاحب کے پاس ہے یہ جان کر وہ سب آگ بگولا ہوگئے اور گھر آکر رحمتا ں پر تشدد کرنے لگے کہ پیسے ان کے حوالے کردے،، رحمتاں نے مولوی صاحب سے پیسے لیکر انھیں دے دیے، کچھ دن تو امن رہا مگر پھر ایک دن سب نے اس سے مطالبہ کیا کہ اور کہاں رقم چھپا رکھی ہے؟ رحمتاں نے لاکھ سمجھایا کہ اس کے پاس وہی چند ہزار روپے تھے جو اس نے اپنے کفن دفن کے لئے رکھے تھے، مگر بیٹوں نے ایک نہ سنی اس کا کھانا ترک کردیا اور اذیت میں مبتلا رکھا۔
رحمتاں نے بولنا چھوڑ دیا تھا وہ گھر کے کونے میں پڑی رہتی جب بھی کوئی اسکے پاس آتا وہ پتھرائی نظروں سے دیکھتی اور منہ پھیر لیتی۔
ایک دن پتہ چلا کہ اس کی حالت بہت بگڑ گئی ہے رشتے دار جمع ہوئے اس کے لب ہلتے وہ کچھ کہتی مگر نہ کوئی سمجھ سکا اور نہ کوئی سمجھنا چاہتا تھا، اگلے دن اس کی روح پرواز کر گئی وہ منوں مٹی تلے چلی گئی، لوگ گھروں کو لوٹ گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چند دنوں بعد بشیرے کے بڑے بیٹے نے اپنے بھائیوں کو ٹرین کے ٹکٹ تھمائے اور انھیں بہتر مستقبل کیلئے بڑے شہر بھیج دیا اور خود رحمتاں کی قبر پر سنگ مرمر لگانے کے لیے پیسوں کا انتظام کرنے لگا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply