ہائی وے پر کھڑا آدمی(4)۔۔مشرف عالم ذوقی

اور جس وقت بارش کی بوندوں نے برسنا شروع کیا، ان عورتوں نے جمیلہ کے ارد گرد گھیرا بنالیا۔ دور سے یہ منظر دیکھنے پر ایسا لگتا تھا جیسے بارش میں زمین سے گندھی عورتوں نے رقص کرنا شروع کردیا ہو۔ مرد الگ بھیگ رہے تھے۔ وقت قریب آچکا تھا۔ موقع دیکھ کر عورتوں نے مقامی گیت گنگنانے شروع کردیے۔ یہ ایسا گیت تھا، جس میں صرف جمیلہ کے نام کو سنا جاسکتا تھا۔بارش میں گھیرا ڈالے ہوئے عورتیں بھیگ رہی تھیں۔ مگر ان عورتوں کا ہدف یہی تھا کہ بارش کے قطروں سے جمیلہ کو محفوظ رکھا جائے۔جب گھیرا کم ہونے کا احساس ہوا تو ان عورتوں نے مردوں کوآواز دی۔

اس طرح اب اس گھیرے میں مرد بھی شامل ہوگئے۔بجلی چمک رہی تھی۔بادل گرج رہے تھے۔بارش تیز ہوگئی تھی۔ یہ نئے انسان کے طلوع ہونے کا منظر تھا جو اس لہو موسم میں، تیز بارش میں، گھاس پھوس اور پتھروں کے درمیان پیدا ہونے والا تھا۔اس پُر آشوب موسم میں، نفرت کی فضا میں اس نے آنے کے لیے یہی وقت مقرر کیا تھا۔بارش کے قطرے روحانی موسیقی میں تبدیل ہوگئے تھے۔اور میرے ننھے شہزادے‘تمہارا استقبال تم اس تیز آندھی اور بارش میں آئےتمہارا استقبال تم زرد موسموں کے درمیان آئےتمہارا استقبال اور بہت جلد ہم تمہیں پاؤ ں پاؤں چلتا ہوا دیکھیں گےتم امید کے گھوڑے پر سوار ہوگےکیونکہ تم ایک نئی دنیا کے جشن کے ساتھ آئے ہواس موسلا دھار بارش میں اور عید گاہ کی نرم زمین پرتمہارا استقبال۔۔

عورتیں ابھی بھی جمیلہ کو گھیرے میں لیے ہوئے گیت گارہی تھیں۔ مرد بھی ان کے سر میں سُر ملا رہے تھے۔آسمان میں تیز بجلی چمکی۔ نوزائیدہ کے رونے کی آواز ابھری۔ گھیرا ڈالے مرد عورتیں اس بار خوشی سے ناچنے لگے۔ گھیرے کے اندر بیٹھی عورت نے آواز لگائی۔ بیٹا ہوا ہے۔اس بار ان کی خوشیوں میں بادل کی گرج کا اضافہ ہوچکا تھا۔یہ کیمپ میں پہلے بچے کی پیدائش تھی۔۔۔۔

سیواڑہ، لکھی پورہ کو دیکھنے سے قبل یہ پوری داستان ددّو شاستری نے سنائی تھی۔ اب نیند نے گھیرنا شروع کردیا تھا۔چھ برس یادوں کو بھولنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔صبح ہوتے ہی ہم نے ہوٹل چھوڑ دیا۔ بس سے سیواڑہ کا راستہ دوگھنٹے کا راستہ تھا۔ ہم پرانی یادوں سے کیا برآمد کرنے جارہے تھے، یہ ہمیں بھی پتہ نہیں تھا۔ بس میں کافی بھیڑ تھی۔ مشکل سے ہمیں کھڑے ہونے کے لیے جگہ ملی۔

سیواڑہ بس اسٹینڈ کے پاس بس رُک گئی۔ پہلے ہم نے ایک سڑک چھاپ ہوٹل کے پاس کھڑے ہوکر چائے پی۔پھر آس پاس گھومنے کا ارادہ کیا۔آزادی کے بعد پہلی بار ان بستیوں کو دیکھنے کا اتفاق ہورہا تھا، جہاں سے مسلمان ہجرت کرگئے تھے۔ اب ان بستیوں میں مسلمانوں کا کوئی وجود نہیں تھا۔ ایک مسجد ملی، جو ٹوٹی ہوئی تھی اور چھ برس پرانی کہانی سنا رہی تھی۔ سڑک کے کنارے کنارے چھوٹی دکانیں تھیں۔ ہم ان سے گزرتے ہوئے آگے بڑھے تو تقریباً ایک میل چلتے ہوئے اپنے گھر کے باہر دھنی رمائے چارپائی پر بیٹھے ایک صاحب نظر آئے۔ کبھی کبھی چھٹی حس کچھ ایسا کہہ جاتی ہے، جس کے بارے میں آپ کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ ایک چھوٹا سا کچا گھر تھا۔ چارپائی پر بیٹھے شخص کانام رما شنکر تھا۔ عمر ۱۵ کے آس پاس۔ ماتھے پر ٹیکہ لگا ہوا تھا۔ ہم نے نمستے کے لیے ہاتھ جوڑے تو انہوں نے چارپائی پر بیٹھنے کے لیے کہا۔سورج شان سے نکلا تھا اور دھوپ کی قرمزی شعاؤں نے سیواڑہ پر اپنا آنچل پسار دیا تھا۔’ اجنبی ہو۔۔۔۔۔‘’ جی۔‘’ نام کیا ہے؟‘ رما شنکر نے ددّو شاستری سے پوچھا۔ددّو نے اپنا نام بتایا۔ پھر رما شنکر نے مسکراکر میری طرف دیکھا۔’ تم تو مسلمان ہو۔‘اب چونکنے کی میری باری تھی۔’ مسلمان اپنے طور طریقوں سے پہچانے جاتے ہیں۔‘ رما شنکر نے مسکرا کر کہا۔ ’سیواڑہ میں سب اپنے تھے۔ غیر کون تھا۔ ایک ہوا چلی اور سب کچھ چلا گیا۔ میں نے آنکھوں کے سامنے اپنے دوست زین العابدین کو مرتے ہوئے دیکھا۔ موت کا تانڈو چلا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ ختم۔ جو اپنے تھے، وہ گھروں کو چھوڑ گئے۔ رما شنکر رہ گیا۔ نام کا پنڈت۔ ان لوگوں نے دھرم کو سمجھا ہی کیا ہے۔ لیکن ایک بات ہے۔ یہاں بہت سے ایسے لوگ ہیں اب جنہیں چھ برس پہلے کے حادثے پر افسوس ہورہا ہے۔۔۔

رما شنکر خاموش ہوگئے۔ ۔۔جیسے یادوں کا ایک کارواں آنکھوں کے آگے سے گزر گیا ہو۔ وہ اب بھی اسی کارواں کے ساتھ تھے۔’چھوٹے چھوٹے معصوم بچے تھے۔ عورتیں تھیں جن کو ہم بھابھی بھابھی کہتے تھے۔ ان کی شادیاں اسی گاؤں میں ہوئیں۔ ہمارے لیے سارے پرب تہوار ایک جیسے تھے۔ فرق بس لباس کا تھا۔ یہاں ایک مزار ہوا کرتا تھا ۔ وہ مزار اب بھی ہے۔ ستم ڈھانے والے مزار توڑنے کی ہمت نہیں کرسکے۔ عورتوں کی عزت کو لوٹا۔ بچوں کو گولیاں ماریں۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔‘رما شنکر کی آنکھوں میں آنسو جھلملارہے تھے۔’ سب کچھ ان آنکھوں نے دیکھا۔‘ رما شنکر نے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔۔۔’اسی قصبے میں میرا ایک دوست تھا، رحیم میاں۔ بڑا دلچسپ۔ اس کو میرے پاس بیٹھنے میں بہت مزہ ملتا تھا۔ وہ اردو کی کتابیں خوب پڑھتا تھا۔ جانتے ہو ایک دن اس نے کیا کہا۔ مجھے ابھی بھی اس کی بات یاد ہے۔۔۔۔‘ رما شنکر دوبارہ ہنسے۔ اب وہ سنجیدہ تھے۔ ’رحیم کہتا تھا، مسجدوں میں رقص کرنا منع ہے۔مگر جاہل مسجدوں میں ناچا کرتے ہیں یہ جاہل مندروں میں بھی ناچتے ہیں۔سڑکوں پر بھی۔ ان جاہلوں نے مذہب کو نہیں سمجھا۔ گاؤں کے حسن کو تباہ کردیا۔

مگر یہ سب اچانک۔۔۔۔۔۔‘ ددّو شاستری نے پوچھا۔’ کیا اچانک کچھ ہوتا ہے۔؟اچانک کچھ بھی نہیں ہوتا۔‘’ پھر یہ سب۔۔۔۔‘’ پرانے زخم کیوں کریدتے ہو میاں۔۔۔۔۔‘’ کیا زخم بھر گئے؟‘’ نہیں میاں۔زخم تو جان جانے کے بعد بھی نہیں بھریں گے۔‘’ پھر بتائیے۔۔۔ یہ سب کیوں اور کیسے ہوا۔‘ میں نے رما شنکر کے چہرے کو دیکھا۔ اس کے چہرے پر اچانک جھرّیاں پیدا ہوگئی تھیں۔’ کچھ باہر لوگ آنے لگے تھے۔‘’ باہری۔۔۔۔۔‘’ جو ہمارے قصبے کے نہیں تھے۔ شہر سے تھے۔دلّی کے تھے۔ لکھنؤ کے تھے۔ ممبئی کے تھے۔۔۔۔‘’ کیوں؟ ‘’ یہ لوگ سارا دن آس پاس منڈلایا کرتے تھے۔ کبھی مکھیا سے مل رہے ہیں۔ کبھی سرپنچ سے۔ ان میں۔۔۔۔۔۔‘رما شنکر نے میری طرف دیکھا۔’ان میں تمہارے لوگ بھی تھے۔ ایک نوجوان تھا۔ اس کی تصویر میرے بیٹے کے پاس ہوگی۔ کچھ لوگوں کے ساتھ آیاتھا۔ میرے بیٹے سے دوستی ہوگئی۔وہ مسجد میں اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ ٹھہرا تھا۔ میرے بیٹے نے اس کے ساتھ تصویر بھی لی تھی۔۔۔۔۔۔‘رما شنکر کہتے کہتے رُک گئے۔’ پھر وہ کہاں چلا گیا؟ ‘’ جہاں سے آیا تھا، وہیں چلا گیا۔ اس کے بعد کچھ سناتنی آئے۔ یہ سمجھ میں آنے لگا تھا کہ گاؤں کی فضا کو خراب کیا جارہا ہے۔ کچھ ہونے والا ہے۔لیکن ایک بات سیواڑہ کے بارے میں کہوں گا۔

وہ کیا؟‘ ددّو شاستری نے پوچھا۔’ جوکچھ ہوا، اس کو صرف دنگے کے نظریے سے مت دیکھو۔ سماجی ذات پات کا فرق بھی میں سمجھتا ہوں،یہ بھی اہم کڑی ثابت ہوا۔سماجی دنگے کو سمجھنے کے لیے اس پورے ڈھانچے کو سمجھنا ہوگا جس نے ہمارے معاشرے اور سماج کو کئی حصوں میں تقسیم کررکھا ہے۔ یہاں عوام کی پہچان مذہب سے زیادہ برادری سے ہوتی ہے۔ پہلے پوچھا جاتا ہے، کس برادری سے ہو بھائی؟ اب مسلمانوں کو ہی لو۔ جاٹ برادری سے جو لوگ مسلمان بنے وہ مولا جٹ کہلائے۔ تیاگی سماج سے جو لوگ مسلمان بنے، وہ مسیہرا کہلائے۔ راجپوتوں کو راندھڑ کہا گیا۔ جو گوجر ایمان لائے، وہ مسلم گوجر ہوگئے۔جن راجپوتوں نے اسلام قبول کیا، ان کی برادری میں ’گوتر‘ میں شادی کو اچھا نہیں مانا جاتا۔آج بھی وہاں وہی رسمیں چلی آرہی ہیں جب وہ ہندو ہوا کرتے تھے۔ اس لیے سیواڑہ میں مذہب الگ ہونے کے باوجود کبھی کوئی فرق نظر نہیں آیا۔ مگر برادریوں کے درمیان فرق پیدا ہوچکا تھا۔‘’ برادریوں کے درمیان مطلب۔؟‘’ اونچ نیچ برادری۔ مگر یہاں تک سب ٹھیک تھا۔ اس کے بعد۔‘’ اس کے بعد؟‘ ددّو شاستری نے پوچھا۔’ اس کے بعد یہ کہہ کر ماحول کو خراب کیا گیا کہ مسلمانوں نے بڑے پیمانے پر ہندوؤں کو اپنے مذہب میں کنورٹ کیا ہے۔ ایسے مسلمانوں کو گھر واپسی کے لیے کہا جانے لگا، اس سے سیواڑہ کی فضا میں تناؤبڑھ گیا۔۔۔۔۔۔ اور پھر ایک دن دو گروہوں میں ہاتھا پائی ہوئی۔ پھر گولیاں چلیں اور ماحول بے قابو ہوگیا۔‘’

ابھی آپ نے کہا کہ ہمارے لو گ بھی تھے؟‘’ ہاں۔حادثے کے پہلے تمہارے لوگ بھی آرہے تھے۔؟‘’ مسلمانوں کو سمجھانے؟‘’ راجنیتی سے کھیلنے۔۔۔۔۔۔۔‘ رما شنکر آہستہ سے بولے۔’

راجنیتی سے کھیلنے مطلب؟ ‘ ددّو شاستری نے پوچھا۔’ آگ میں گھی ڈالنے۔ راجنیتی کا کوئی دھرم نہیں ہوتا، اس سے آگے مت پوچھو۔‘’ آپ نے کہا کہ آپ کے بیٹے کے پاس۔۔۔۔۔‘’ ایک تصویر ہے۔۔۔۔۔ ابھی دکھاتا ہوں۔‘ رما شنکر نے اپنے بیٹے کو آواز لگائی۔ اس کا بیٹا شمبھو دو ایک آواز کے بعد دوڑا ہوا آیا۔ اس کی عمر تقریباً 30  سال ہوگی۔ گیہواں رنگ، قد میانہ۔۔۔۔ اور رما شنکر کی طرح اس کے چہرے سے بھی شرافت برستی تھی۔رما شنکر نے اس کے کان میں کچھ کہا۔ شمبھو اندر چلا گیا۔ کچھ دیر کے بعد وہ اپنا موبائل لے کر آیا۔موبائل پر کچھ دیر تک وہ تلاش کرتا رہا۔ پھر ایک تصویر آگے کردی۔ شمبھو کے ساتھ ایک تصویر تھی۔ دونوں مسکرا رہے تھے۔ میں اور ددّو شاستری دونوں اس تصویر کو دیکھ کر چونک گئے۔’ یہ تو اپنا شمس ہے۔‘’ ہاں۔‘ میں نے ددّو کی طرف دیکھا۔’ ہاں شمس۔۔۔۔ بڑا پیارا نوجوان تھا۔ مگر کیا ہوا۔؟‘’ شمس کو قتل کردیا گیا۔‘ ددّو شاستری بولے۔۔۔۔۔۔’ مجھے معلوم تھا۔‘ رما شنکر آہستہ سے بولے۔’ کیا معلوم تھا؟ ‘’ راجنیتی۔۔۔۔۔۔۔‘میں سناٹے میں تھا۔’ گویا یہ آپ کہہ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔‘’ میرا منہ مت کھلواؤ۔‘ رما شنکر نے بیٹے کو جانے کا اشارہ کیا۔’ یہ فساد ایک طرفہ نہیں تھا۔ بلکہ۔۔۔۔۔۔‘’ تھا تو ایک طرفہ۔ مگر۔۔۔۔۔۔رنگ دونوں نے مل کر دیا۔‘’ کیا یہ ممکن ہے؟‘میرے ذہن ودماغ میں آندھیاں چل رہی تھیں۔’ اس دیش میں اب سب کچھ ممکن ہے۔ ہوا پہلے خراب نہیں تھی۔ پھر سیواڑہ دونوں جماعتوں کے لوگ آنے لگے۔ سیاسی لوگ بھی ترشول اٹھائے گھومتے تھے ماحول اچانک خراب نہیں ہوا۔ مگر جو گزری وہ معصوم بیماروں پر۔ جو بچ گئے وہ سیواڑہ چھوڑکر چلے گئے۔

رما شنکر کا بیٹا اس درمیان چائے اور بسکٹ لے آیا۔ کچھ دیر بعد ہم رما شنکر کے یہاں سے نکل گئے۔ابھی قصبے کا جائزہ لینا تھا۔ یہاں ایک تھانہ بھی تھا۔ کچھ دور پر پولیس کی ایک جیپ کھڑی تھی۔ آس پاس کئی مندر تھے۔ پھر وہ مزار بھی مل گیا جس کے بارے میں رما شنکر نے کہا تھا۔ ابھی بھی مزار پر دو عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ شہر کی کچھ دیواروں پر زہریلے نعرے ابھی بھی لکھے ہوئے تھے۔ وقت کی دھول میں بھی تحریریں زندہ رہ گئی تھیں۔ ہم دیر تک سیواڑہ میں گھومتے رہے۔ جو کچھ رما شنکر نے بتایا اس سے زیادہ کچھ حاصل ہونے کی امید نہیں تھی۔مندر سے آرتی کی آواز گونج رہی تھی۔ کچھ صحت مند اور مسٹنڈے نوجوان ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔سیواڑہ کے علاوہ دو ایک بستیوں کو اور دیکھنا تھا۔ اس درمیان دوبار وینتی چوپڑہ کا فون آیا۔ ایک بار اس نے خوف زدہ لہجے میں بتایا کہ اس کا این جی او آفس تک پیچھا کیا گیا، یہ اس کا وہم بھی ہوسکتا ہے۔ مگر وینتی کو پہلی بار میں نے خوفزدہ محسوس کیا تھا جبکہ وہ اس طرح کی خاتون نہیں تھی۔دو دن ہم نے سیر سپاٹے میں گزارے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ تمام بستیاں آس پاس تھیں۔۔۔۔ اور چھ برس قبل یہاں خون کی ہولی کھیلی گئی تھی۔لکھی پورہ میں زیادہ تر نچلی ذات کے لوگ تھے۔ یہاں کچھ مسلمان اب بھی آباد تھے۔ لیکن یہاں کوئی بھی ایسا نہیں ملا جو پرانی یادوں کی یاد تازہ کرنا چاہتا ہو۔سمبھلی گاؤں اور دیگر گاؤں کا جائزہ لیتے ہوئے دو دن گزر گئے۔ اب ہمیں دلی واپس لوٹنا تھا۔ دلی کے بعد سنبھل، راجو کے دیے گئے پتہ پر جانا تھا اور اجو چا چاسے ملاقات کرنی تھی۔ مگر اس دورہ کا یہ فائدہ ہوا کہ جو معلومات ہمیں آسانی سے حاصل ہوئی، وہ خوفزدہ حقیقت کو بیان کرنے کے لیے کافی تھی۔ رما شنکر کی بات یاد آرہی تھی۔ راجنیتی میں دھرم نہیں ہوتا۔ راجنیتی میں سب جائز ہے۔اب ہمیں دلی واپس لوٹنا تھا۔ لیکن ہمارا ایک مشن مکمل ہوچکا تھا۔ شمس سیواڑہ آیا تھا۔ لیکن کیوں آیا تھا؟ اور کن لوگوں کے ساتھ آیا تھا۔؟ان لوگوں کی منشا کیا تھی۔؟کیا شمس کچھ ایسی باتوں کو جان گیا تھا، جو شاید اسے نہیں جاننا چاہیے تھا۔؟کیا شمس اپنے ہی لوگوں سے بیزار تھا۔؟ فرض کیجیے، یہ کسی ایک تنظیم کا مسئلہ تھا۔ کیا شمس تبریز کے ساتھ جو کہانیاں سامنے آرہی تھیں، اس نے بیشتر تنظیموں کے لیے شک کے جال بن دیے تھے۔؟ ان کے ساتھ سب سے اہم سوال یہ بھی تھا کہ حق وصداقت کے کلمات جو ان تنظیموں سے ابھرتے تھے، وہ کیا تھے؟۔ مساوات اور ملت کے نعرے جو دیے جاتے تھے، کیا وہ سب کھوکھلے تھے؟ سارا معاملہ،سارامشن اسپانسرڈ تھا۔؟پھر دودھ کا دھلا کون تھا۔ ہندو جماعتیں یا ملی تنظیمیں۔ ہندو سبھا، ہندو واہنی یا حکومت کے ذریعہ پیسہ حاصل کرنے والی تنظیمیں۔ یہ تنظیمیں جو بدلتی ہوئی سیاست کے ساتھ چلتی ہیں۔ حکومت کے بڑے فیصلوں میں ان کا ہاتھ ہوتا ہے۔ کیا اسی لیے ملک کی ایک بڑی آبادی نے ان تنظیموں کو قبول نہیں کیا۔؟آگے بڑھنے پر ایک سور باڑا نظر آیا۔ کچھ جنگلی سور نالیوں میں لوٹ رہے تھے۔ سیاہ چمڑے پر مٹی لگی ہوئی تھی۔ اس طرف تیز بدبو تھی۔ بدبو کے ساتھ ساتھ کچھ دور چلنے پر بس اسٹینڈ تھا۔ اب ہمیں دلبر نگر اسٹیشن جانا تھا اور وہاں سے دلی کے لیے ٹرین پکڑنی تھی۔فیض اچانک سامنے آگئے۔’ ہمیں حیرتوں کے لیے تیار رہنا چاہیے‘’ یہ کیا بات ہوئی؟‘ فیض نے قہقہہ لگایا۔ تمہارا دور حیرتوں کا ہے۔ حیرتوں سے نجات نہیں۔‘’ آپ کیا کرتے؟‘’ میں شاعری بند کردیتا۔ کسان بن جاتا۔‘’ لیکن اس ملک کے کسان تو خود کشی کررہے ہیں۔‘’ پھر میں بھی خود کشی کرلیتا۔‘فیض مسکرائے اور نظروں سے غائب ہو گئے۔ابھی دلبر نگر کی ٹرین نہیں آئی تھی۔ ہم دیر تک اسٹیشن پر آوارہ گردی کرتے رہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply