ادب نامہ    ( صفحہ نمبر 104 )

گھروندا ریت کا(قسط3)۔۔۔سلمیٰ اعوان

اب ایسی بھی کوئی بات نہ تھی کہ وہ اپنی اِس گھبراہٹ اور بے چینی کو جویوں بیٹھے بٹھائے تپ ملیریا کی طرح یکدم اُس پر چڑھ دوڑی تھی کے پس منظر سے ناواقف تھا۔ ٹھنڈے پانی سے لبالب بھرے←  مزید پڑھیے

برکت۔۔ربیعہ سلیم مرزا

چینی کی قیمت 70 روپے سے بڑھ کے 80روپے ہو گئی ۔وزیراعظم نے اسکا نوٹس لے لیا ۔۔۔ ٹی وی کی تیز آواز سے اس کی آنکھ کھل گئی ۔ “اٹھ بھی جاؤ مجھے بھوک لگی ہے ” اس بندے←  مزید پڑھیے

میری ڈائری کا بوجھ۔۔روبینہ فیصل

تمہاری سفری گٹھریوں کا سارا بوجھ آنے کے سب رنگین پتوں میں ڈھکے مناظر اور جاتے ہوئے موسم کے سب بے رنگ نصاب صفحہ صفحہ یاد ہیں۔۔۔ صفحہ صفحہ اس ڈائری میں قید ہیں بدلی محبت کے چہرے سے رِستے←  مزید پڑھیے

اے دلِ ناداں،آرزو کیا ہے۔۔۔۔رفعت علی خان

ہاں جوان، اب بتاؤ کہ تمہارا تعلق کہاں سے ہے، اور کس چیز کی  تلاش تمہیں سفر میں کھینچ لائی؟ میزبان نے پوچھا۔۔ مہمان نے لمبی سانس لی، اور یوں گویا ہوا۔۔ اے مرے محسن، قصّہ کچھ یوں ہے، کہ←  مزید پڑھیے

و با۔۔سلمیٰ سّید/افسانہ

کہاں سے چلی تھی یہ زندگی جو رکی ہے اب آ کے ایسی جگہ ۔۔۔ جس میں کوئی نہیں ہے سہارا مرا ۔ سہارے تو خیر باپ کے بعد ان گنت تھے مگر جس کو میں کہہ سکوں کوئی جائے←  مزید پڑھیے

لاہور دھنی رام روڈ پر سال 1855ء میں نصب ہونے والا پہلا “خطوط کا ڈبہ”۔۔۔شاہد محمود ایڈووکیٹ

جس میں “محبت نامے” ڈالنے والے پوسٹ کارڈ کا کونہ پھاڑ کر پیغام محبت بھیجنے والے پوسٹ کارڈ پر نقش و نگار بناتے ان میں دل سمونے والے کچھ من چلے جو خون سے “رتا” خط لکھتے تھے محبوب کے←  مزید پڑھیے

گھروندا ریت کا(قسط2)۔۔۔سلمیٰ اعوان

اپنے گھر کے بیرونی تھڑے پر بیٹھا اور وہاں محفلیں سجاتا اب وہ اچھا نہیں لگتا تھا۔ ایک تو اُس نے تاڑ جتنا قد نکال لیا تھا۔ دوسرے اب وہ کوئی ارمنی ٹولہ ہائی  سکول کے چوتھے پانچویں درجے میں←  مزید پڑھیے

”ناخن بال نرس اور کورونا ویکسین“ (فکاہیہ)۔۔مرزا یاسین بیگ

گھر بیٹھے بیٹھے سب سے زیادہ تیزی سے بال اور ناخن بڑھ رہے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ہم کام کاج کیے بغیر جو اضافی کھانا کھارہے ہیں وہ صرف بالوں اور ناخنوں کو لگ رہا ہے ۔ گھر←  مزید پڑھیے

دو ٹکے کا لڑکا۔۔محمد افضل حیدر

شام کو حمید صاحب کام سے فراغت پاکر گھر واپس آئے تو کھانے کے دستر خوان پر زویا کو موجود نہ پاکر مضطرب ہوئے۔ زویا کہاں ہے۔نظر نہیں آرہی؟ کالج سے واپس آنے کے بعد سے دروازہ بند کرکے بیٹھی←  مزید پڑھیے

روحانی مسیحا۔۔میاں ضیا ء الحق

ہیلو حبیب! کہاں ہو جی گھر پر ہوں اچھا۔ کئی دن سے آئے نہیں دکان پر۔ بس ذرا گھر میں ہی مصروف تھا آؤں گا کسی دن۔ ٹھیک ہے ضرور آنا۔ کھدر اور کاٹن کی نئی ورائٹی آئی ہے۔ پسند←  مزید پڑھیے

زندگی سفر میں ہے۔۔سلمیٰ سیّد

زندگی سفر میں ہے اور اس کے پاؤں میں آبلے پڑے ہیں جو ان سے رس رہا پانی دشتِ نارسائی کو دے رہا ہے سیلا پن قہقہوں میں سسکی ہے اور جینا رسکی ہے پھر بھی لب ہنسیں گے اورآنکھ←  مزید پڑھیے

خصوصی اجازت۔۔روبینہ فیصل

کرونا کا وہ مریض جانتا تھا کہ وہ اپنے بیوی بچوں کو نہ چھو سکتا ہے نہ قریب سے دیکھ سکتا ہے، پھر بھی وہ انہیں آخری دفعہ دور سے ہی سہی مگر دیکھنا چاہتا تھا۔ اسے احساس تھا کہ←  مزید پڑھیے

قطامہ۔۔۔رفعت علوی

جب وہ ملا تو خود میں اپنی دسترس میں نہ تھا۔۔ ایک رومان زدہ اور حُسن پرست ادھیڑ عمر کے مرد کی انوکھی محبت کی دکھی کہانی! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ آندھی کی طرح آئی اور طوفان کی طرح میری زندگی پہ←  مزید پڑھیے

آکاس بیل۔۔عمر قدیر اعوان

یہ مارچ کے آخری ایام تھے جب دن خوب کھلے ہوئے ،تمازت بھری دھوپ سے بھرپور اور راتیں خاموشی، سکون اور خُنکی  لیے ہوئے ہوتی ہیں۔ ایسی ہی ایک چاند کی چودھویں رات میں کلر کہار جھیل کے قریب ایک←  مزید پڑھیے

عشق سے تیرا وجود۔۔صائمہ بانو

مرمری سے دودھیا جبہ و سیہ عمامہ میں مستور وہ نوجوان کسی عمیق فکر کے زیرِ اثر خود بھی ماحول پر تنے سکوت کا اک ساکن حصہ محسوس ہورہا ہے، اس کی کنپٹی پر نمایاں رگیں یوں تنی ہوئی ہیں←  مزید پڑھیے

وبا کا بُوٹا۔۔رمشا تبسیم

یہ وبا کا بیج کِس نے بویا کہ وبا کے بُوٹے کی ہر شاخ پر اِک لاش اب لٹک رہی ہے۔۔ گلشنِ وبا میں اب چہار سُو ہی موت کا موسم چھا رہا ہے, ہر شخص کو اب تو ڈرا←  مزید پڑھیے

نئی دنیا۔۔محسن علی

اب یہ نئی دُنیا ہے جنگ کے بعد کی دُنیا، صفی سرحدی کی دُنیا، اب بھوک سے بے حال لوگ بھوک سے لڑتے آگے بڑھتے ہیں ، اب یہاں سماجی ترقی کا محور جدید تعلیم و تربیت ہے، اب اس←  مزید پڑھیے

احوال دیگر بمعہ تقریب رسم ختنہ۔۔منور حیات سرگانہ

ہاڑ کے مہینے کی تپتی دوپہر تھی،ہمارے ننھیال سے مہمان آ گئے تھے۔ اماں کا حکم جاری ہوا کہ ،جا کر دوکان سے کوکا کولا کی ٹھنڈی بوتل لے آ ۔ میں نے اپنے گنجے سر ،جس پر دو دن←  مزید پڑھیے

موت کی آخری قسط۔۔احمد نعیم

جنگل میں صدیوں سے ڈٹا ہوا یہ پتلا گزشتہ صدی تک تو خاکی رنگ سے میٹ میلا ہوا تھا، مگر ان دس دہائیوں کے درمیان یہ مسلسل سیاہ ہوتے ہوتے اِس قدر منحوس سیاہ ہوگیا ہے، اِس کی سیاہی اور←  مزید پڑھیے

درندوں کی بستی۔۔اُسامہ ریاض

شہر کا بوڑھا دیوانہ گورکن سر میں خاک ڈالے بال نوچتا ہوا، تعفن زدہ گلیوں میں مارا مارا پھر رہا ہے کہ اس کے علاوہ سارا شہر وبا کے ہاتھوں میٹھی نیند سو چکا ہے۔ چیلیں اور کوّے اپنے منہ←  مزید پڑھیے