احوال دیگر بمعہ تقریب رسم ختنہ۔۔منور حیات سرگانہ

ہاڑ کے مہینے کی تپتی دوپہر تھی،ہمارے ننھیال سے مہمان آ گئے تھے۔
اماں کا حکم جاری ہوا کہ ،جا کر دوکان سے کوکا کولا کی ٹھنڈی بوتل لے آ ۔
میں نے اپنے گنجے سر ،جس پر دو دن پہلے ہی گلامے نائی سے مشین پھروا کر معاملہ صاف کروایا تھا،پر نلکے سے بھگو کر صافہ رکھا،موٹر سائیکل کو کک ماری اور دروازے سے باہر نکل گیا۔
چاچے رشید کی کریانے کی دوکان گاؤں کے مرکزی چوک میں تھی۔جس کے آگے سرکنڈوں کی چھت والی بڑی سی چھپری تھی،جس کو کیکر کی ٹیڑھی میڑھی لکڑی کے ستونوں سے سہارا دیا گیا تھا۔اس چھپری کے نیچے گاؤں بھر کے فارغ البال افراد دھوپ سے سیاسی پناہ لے کر سارا دن دھرنا دیے رکھتے تھے۔

میں نے موٹر سائیکل سنگل  سٹینڈ پر کھڑی کرکے سیٹ کے اوپر سے پاؤں گھما کر جیسے ہی اترنے کی کوشش کی میرے سوتی لمبے ناڑے کا موٹا پھمن سیٹ اور ٹینکی کے درمیان والی درز میں پھنس گیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ میرے اترنے سے پہلے ہی شلوار اتر گئی۔اور ناظرین کے سامنے حالات حاضرہ کا پروگرام سیر بین چلنے کی بجائے،پلے بوائے ٹی وی کا پرومو چل گیا۔وہ تو بھلا ہو قمیص کا کہ جس نے کچھ پردہ رکھ لیا،ورنہ اس دن کئی راز طشت ازبام ہو جاتے۔

انگشت بدنداں کا محاورہ سن رکھا تھا ،عملی تصویر اس  دن چھپری کے نیچے فروکش جم غفیر کے چہروں پر دیکھ لی۔

نوجوانی کے دن تھے،ہم سب چھڑے چھانٹ لڑکے بالے رات کا کھانا کھا کر گرمیوں کی راتوں میں جانوروں کے باڑے والے بڑے احاطے میں سونے کے لئے چلے جاتے۔وہاں داخلی دروازے کے ساتھ ہی سب کے بیٹھنے کے لئے ایک کچا برآمدہ بنا ہوا تھا۔دن بھر دھوپ سے بچ کر بڑے بزرگ اس کے اندر بیٹھ کر حقہ کشی کرتے،اور شام ہوتے ہی،’دن کو راج فرنگی کا، رات کو راج ملنگی کا’کے مصداق برآمدے کے اندر رکھی جانے والی چارپائیاں اور دو  سرہانے باہر نکال لئے جاتے اور سب جوان پاؤں پھیلا کر بڑی شان سے لمبے لیٹتے گپیں ہانکتے اور سو جاتے۔

صبح دم روشنی ہونے سے پہلے احاطے کے کونے میں لگا نلکا کھڑکنے اور گیڑنے کی آوازیں آتیں۔بڑے بزگ زور زور سے کھنکار کر گلا صاف کرتے،باری باری وضو کرتے،اور ہماری چارپائیوں کے پاس سے گزرتے ہوئے،اٹھو اوئے خبیثو،او شیطانو، او لعنتیو نماز پڑھ لو،کی صدائیں لگاتے باری باری گزر کر مسجد میں چلے جاتے۔اور ہم باری باری ،دوہر کونوں سے پکڑ کر پیروں کے نیچے سے کھینچ کر اپنے اوپر ڈالتے ،اور مزید گہری نیند سوتے چلے جاتے۔

جب تک بزرگ مسجد سے نکل کر واپس آتے تب تک نماز کاوقت نکل چکا ہوتا،لیکن صلواتوں کا شروع ہو چکا ہوتا۔ہم سب کان لپیٹ کر اور کچھ سردی سے دوہرے ہو کر انجان بن کر پڑے رہتے۔
ایک دن تایا ابو نماز پڑھ کر مسجد سے واپس آ کر احاطے میں وارد ہوئے تو باقی نسل نو کروٹوں کے بل دہری ہو کر سو رہی تھی،جبکہ میں انجانے میں خودی بلند کیے سیدھا لیٹ کر سویا ہوا تھا۔میں نے دوہر کھینچ کر سر کے نیچے دے رکھی تھی۔اور بے خبر تھا کہ نگاہ مردمومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں،یہ الگ بات ہے کہ تایا ابو کا اڑتا ہوا جوتا تقدیر سے پہلے ،شاہین کی طرح پرواز کرتا ہوا،پہاڑوں کی چٹانوں پر پہنچ گیا ،اور میں ۔۔

تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا۔۔۔۔۔کی عملی تفسیر بنا دہرا ہو کر موقع واردات سے فرار ہونے میں کامیاب رہا۔

تایا ابو فلسفہ خودی کے اس قدر مخالف ہونگے مجھے پہلے بالکل اندازہ نہیں تھا۔

گاؤں کی پُر سکون زندگی میں بچوں کے ختنوں کے مواقع باقائدہ ایک تقریب میں بدل جایا کرتے۔اگرچہ ان کی حیثیت رسم شادی خانہ آبادی سے کم ہوتی،لیکن زمینداروں میں رسم ختنہ کی  تقریب کے باقاعدہ دعوت نامے جاری ہوتے۔جبکہ قدرے غریب لوگ اس موقع پر ڈھول بجا کر ‘کسی کے لٹنے کا تماشا ‘ دکھانے کے لئے لوگ اکٹھے کر لیتے۔

بالکل چھوٹی عمر میں تو ختنے کرنے کا رواج ہی نہیں تھا۔لاڈ پیار میں لڑکوں کے کچھ بڑے ہونے کا انتظار کیا جاتا،اس وقت تک گاؤں کی خالص خوراک،دودھ اور مکھن کے وافر استعمال کی وجہ سے کچھ نور نظر اور لخت جگر تو باقاعدہ ‘سانڈ کی شکل اختیار کر چکے ہوتے۔

بالآخر یہ بھاری پتھر گاؤں کے نائی کو ہی اٹھانا پڑتا۔جو سارا سال اس ‘مہا بھارت’ کے لئے اپنے اوزار تیز کرتا اور سنبھال سنبھال کر رکھتا رہتا تھا۔کئی بار یہ تقریب انفرادی ہوتی، جبکہ بعض موقعوں پر یہ اجتماعی قتل عام میں تبدیل ہوجاتی، جب کئی ایک مسیر، پتریر اس کام کے لئے اکٹھے کوالیفائی کر جاتے۔ اس دن نائی کو کشتوں کے پشتے لگانے کا موقع مل جاتا۔

اس کار خیر کے لئے گرمیوں کے وہ دن چنے جاتے جب مکھیاں گرمی کی شدت سے مر چکی ہوتیں،اور برسات کا موسم ابھی کافی دور ہوتا،تاکہ زخم خراب نہ ہو ۔
مقررہ دن پر ڈھول پر تھاپ پڑتی اور سارا گاؤں اکٹھا ہوجاتا۔

یہاں پر کچھ اس طرح سے میدان کارزار کو ترتیب دیا جاتا کہ درمیان میں ایک مٹی کی آٹا گوندھنے والی پرات(ساہنک) الٹی کر کے رکھ دی جاتی۔اس کے ارد گرد چارپائیاں بچھا دی جاتیں، جن پر اس جوان رعنا کے والد بزرگوار، تائے، چاچے اور مامے وغیرہ فروکش ہوتے، جس کی اس دن بلی چڑھائی جانی ہوتی۔ان کے پیچھے باقی رشتہ دار ،گاؤں والے، اور چھوٹے بچے کھڑے ہوتے، جن سب کو اس دن میٹھے چنے، گڑ اور مکھانے وغیرہ ملنے کی امید ہوتی،جو کہ دعا کے بعد تقسیم کیے جانے والے ہوتے۔

جب یہ کلوزیم شائقین سے بھر چکا ہوتا،تب ٹیرے ویرے کی چھوٹی سی گلابی ٹاکی نما باریک دھوتی زیب تن کیے اور گلے میں نوٹوں کے ہار پہنے ‘شیر کو میدان میں اتارا جاتا، جس کے مقابلے کے لئے گاؤں کا نائی گلیڈییٹر کے طور پر پہلے ہی اپنے آلات حرب و ضرب بمعہ اوپلوں کی راکھ سجا کر بیٹھا ہوا ہوتا۔ اوپلوں کی راکھ اس وقت پائیوڈین کی جگہ استعمال ہوتی تھی۔
اب یہی وقت ہوتا جس وقت بہت سے تماشے ظہور پذیر ہوتے۔
جو شریف النفس فرزندان ہوتے،وہ تو خاموشی سے سر جھکا کر بھیگی آنکھوں سے ساہنک پر آ کر بیٹھ جاتے۔ نائی ان کو باتوں میں لگاتا۔اور وقت مقررہ پر اوپر دیکھنے کو کہتا کہ وہ دیکھو’سبز چڑیا’ جا رہی ہے، وہ نیک بخت جیسے ہی اوپر دیکھتا، نائی چالاکی سے اسے اس کی ‘جمع پونجی’ سے محروم کر دیتا۔جب تک وہ نیچے دیکھتا اس کی دنیا اجڑ چکی ہوتی، اور اسے پیچھے صرف راکھ کی ننھی سی ڈھیری نظر آتی۔اس واردات کے بعد جو بہادر بچے ہوتے وہ نعرہ حیدری لگاتے، جبکہ کئی نائی کی ماں بہن ایک کر ڈالتے۔
کئی ایک تو خود چل کر نائی سے دو دوہاتھ کرنے آتے، جبکہ کچھ کو اٹھا کر میدان میں اتارنا پڑتا، اور ان پر جنگ مسلط کرنا پڑتی۔
کچھ جوانان رعنا ایسے بھی ہوتے کہ نائی کے ہتھیار سنبھالنے سے پہلے ہی ایسے ہتھیار اٹھاتے کہ نائی کے ہاتھ پیر پھول جاتے۔ کچھ جنگجو نائی کے اوزاروں سمیت میدان کارزار سے فرار ہو جاتے ،اور بڑی مشکلوں سے پکڑ کر واپس لائے جاتے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک ایسا ہی کردار عمری موچی نام کا لڑکا تھا، وہ اپنے ختنوں کی تقریب کی  آنے کے انتظار میں کافی بڑا ہو گیا تھا۔پورا گاؤں ڈھول بجا کر اکٹھا کر لیا گیا تھا، جس دن اس کو پکڑ کر اس کارخیر کے لئے لایا گیا، نائی اسے جیسے ہی پکڑ کر پرات پر بٹھاتا وہ فوراً اٹھ کر کھڑا ہو جاتا۔ساتھ ہی ان کا گھر تھا،اس کی ماں کافی دبنگ خاتون تھیں، دیوار کے اوپر سے اس کی ماں نے جھانک کر اسے پھٹکار لگائی،
وے حرام ذادے آ توں بیٹھنا اے کہ نہیں۔
اماں تجھ پر یہ بیت رہی ہوتی تو تجھ سے پوچھتا، عمری نے وہیں سے روتے ہوئے جواب دیا،
اس بات پر زور کا قہقہہ پڑا اور پوری محفل کشت ِزعفران بن گئی۔

Facebook Comments

منور حیات
ملتان میں رہائش ہے،مختلف سماجی اور دیگر موضوعات پر بلاگ لکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply