• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عالمی یوم صحافت اور صحافیوں کے حقیقی حل طلب مسائل/سید عمران علی شاہ

عالمی یوم صحافت اور صحافیوں کے حقیقی حل طلب مسائل/سید عمران علی شاہ

خالق کائنات نے حضرت انسان کو تخلیق کرکے جہاں اسے اشرف المخلوقات بنایا وہاں اسے کائنات کے خزائن کو کھوجنے کی جستجو بھی عطاء فرمائی تاکہ وہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال سکے، انسان نے بھی مالک و خالق کی عنایت کردہ فہم و فراست کو بروئے کار لا کر زمین و آسماں میں موجود رازوں تک رسائی حاصل کی، انسان نے اپنی زندگی کو بطریق احسن گزارنے کے لیے جن ذرائع کا استعمال کیا ان کو پیشہ یا کاروبار کا نام دیا، دنیا میں آج بھی انسان اپنی ضروریات کو پورا کرنے کی غرض سے کسی نہ کسی پیشہ وابستہ نظر آتے ہیں، مگر ہر شعبے کے اپنے مسائل اور چیلنجز ہیں، حصول رزق بہت کٹھن ہوا کرتا ہے، دنیا میں عوامی شعور کو اجاگر کرنے اور ان کو حالات حاضرہ سے باخبر رکھنے کے لیے ،شعبہ صحافت سے وابستہ افراد بڑی ہمت اور جانفشانی سے آپنے فرائض منصبی اداء کرتے ہیں، صحافت کا شعبہ زندگی کے دیگر تمام شعبہ جات سے نہایت مختلف اور منفرد ہے، صحافت کا لفظ صحیفے ماخوذ ہے صحیفہ کے لغوی معنی کتاب یا رسالہ کے ہیں، بہرحال عملاً گایک عرصہ دراز سے صحیفہ سے مراد ایک ایسا مطبوعہ ہے جو مقررہ وقتوں میں شائع ہوتا ہے۔ چنانچہ تمام اخبارات و رسائل حقیقتاً صحیفہ کی حیثیت ہی رکھتے ہیں۔“

Advertisements
julia rana solicitors

عربی زبان کا لفظ ’صحیفہ‘ جس کا معنی کتاب یا نامہ ہے، اس سے لفظ ’صحافت‘ کی تشکیل ہوئی۔ اس میں کسی مناسبت یا دوسرے سروکار کا کوئی عمل دخل نہیں ہے بلکہ صحیفہ نگاری یا نامہ نگاری کو ہی اردو میں صحافت کہا جانے لگا اور یہ لفظ اس درجہ لوگوں کے دلوں میں سرایت ہوا کہ اس کا متبادل بھی کوئی نہیں ہے،
پاکستان میں شعبہ صحافت ان چند شعبوں میں شمار ہوتا ہے کہ ،جہاں عصری تقاضوں کو مد نظر رکھ کر جدت کو اپنایا جا رہا ہے ،اس وقت ملک میں، پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا جرنلزم بھی بہت برق رفتاری سے فروغ پا رہا ہے، جہاں تک بات سوشل میڈیا جرنلزم کی ہے تو، اس حوالے سے ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے تاکہ غیر میعاری مواد اور غیر مصدقہ خبروں کی فیک نیوز فیکٹریوں کا راستہ روکا جا سکے ،اس ضمن میں حکومتی سطح پر مؤثر قانون سازی اور قواعد ضوابط کو وضع کیا جانا از حد ضروری ہے ،مگر بہ ہر طور سوشل میڈیا کی اہمیت اور طاقت سے کسی صورت انکار نہیں کیا جاسکتا،
پاکستان میں صحافت سے وابستہ افراد کے لیے اپنے فرائض منصبی اداء کرنے پرخار ڈگر پر سفر کرنے کے مترادف ہے، صحافیوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ، ان کے معاشی حالات نہایت ابتر ہیں ،ملک میں چوٹی کے ساٹھ سے ستر مراعات یافتہ صحافیوں کے علاوہ دیگر تمام صحافیوں کے حالات زندگی ناگفتہ بہ ہیں،رہی سہی کسر انکا استحصال کرنے میں بڑے بڑے اخبارات اور ٹی وی چینلز پوری کر دیتے ہیں ،جو نمائندگی دینے اور پریس کارڈ دینے کے نام پر ان صحافیوں سے اچھی خاصی سیکورٹی فیس لے لیتے ہیں، پاکستان میں چند ایک گنے چنے صحافتی و اشاعتی ادارے ہیں جو اپنے ادارے سے منسلک افراد کو کوئی عوضانہ یا تنخواہ دیتے ہیں، ایسے میں صحافیوں کے مالی معاملات بہتر ہونے کے بجائے مزید ابتر ہی ہونے ہیں،اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ لوگ اپنی زندگی گزارنے کے کے اپنے اخراجات اٹھانے لیے کیا ذرائع بروئے کار لائیں ،جبکہ دوسری طرف ان صحافیوں کو بلیک میلر کہنا لفافہ کہہ کر ان کی تذلیل کرنے جیسے ایک فیشن سا بن گیا ہے،
صحافیوں کو اپنے فرائض اداء کرنے کے لیے جو تربیت درکار ہوتی ہے اس بھی شدید قلّت نظر آتی ہے جنوبی پنجاب کے صحافیوں کے لیے تو یہ سہولت قطعی میسر نہیں ہے، یہ لوگ ہر معاملے میں تو یکسر نظر انداز کیے جاتے ہیں، ان کے لیے مراعات تو نہ ہونے کے برابر ہیں، صحافی برادری اور ان کی فیملیز کے لیے صحت تعلیم جیسی سہولیات تو نہ ہونے کے برابر ہیں، جیسا انکا ان بنیادی ضروریات پر کوئی حق ہی نہ ہو۔
ملک میں شاید گنتی کی صحافی کالونیاں موجود ہیں، جہاں مثھی بھر صحافی رہائش پذیر ہیں، جبکہ ملک میں موجود صحافیوں کی ایک کثیر تعداد، کے سر پر ان کی چھت بھی موجود نہیں ہے اور وہ کرائے کے مکانوں اور رہائش گاہوں میں اپنی زندگیاں گزارنے پر ہیں، ان تمام مسائل سے بڑھ کر سب سے بڑا اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ صحافیوں کی زندگیاں نہایت غیر محفوظ ہیں
3 مئی دنیا بھر میں عالمی یوم آزادی صحافت کے طور پر منایا جاتا ہےتاہم پاکستان صحافت کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گزشتہ ایک سال میں 4 صحافیوں کو قتل کر دیا گیا جب کہ 104 سے زائد مقدمات درج کیے گئے۔آزاد ی صحافت اور آزادی اظہار رائے کسی بھی ملک اور سماج کی ترقی کی ضامن سمجھی جاتی ہے، ریاستی جبر اور غیر ریاستی عناصر کی مبینہ کارروائیوں کے سبب پاکستان میں آزادی صحافت اور رائے کی آزادی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں پاکستان میں 4 صحافی قتل کر دیے گئے اور 104 مقدمات درج کیے گئے جب کہ 200 سے زائد صحافیوں کو نوٹس بھی ملے۔ پاکستان دنیا کے ان 3 ممالک میں شامل ہے جہاں پیکا کے کالے قانون کے تحت کسی آن لائن فورم پر رائے دینے پر بھی مقدمات درج کر لیے جاتے ہیں جب کہ دنیا کے باقی ممالک میں ہتک کے قوانین کے تحت کارروائی کی جاتی ہے۔صحافت کے عالمی دن کے اس عظیم موقع پر، پاکستان بھر کی صحافتی برادری اس امر کے اعادہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے فرائض منصبی پوری جانفشانی سے اداء کرتے رہیں گے اور عوام میں اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کا شعور بیدار کرتے رہیں گے، مگر دوسری طرف حکومت وقت کو بھی چاہیے کہ وہ ملک بھر کے صحافیوں اور خاص طور پر جنوبی پنجاب کے صحافیوں کے لیے ایک جامع اور قابل عمل پیکج کا اعلان کریں، صحافیوں کی زندگیاں محفوظ کرنے کے لیے ان مکمل آئینی اور قانونی تحفظ فراہم کرے، صحافیوں اور ان کی فیملیز کے لیے صحت ،تعلیم اور بھرپور مالی اور
استحکام کے لیے انشورنس پروگرام متعارف کروائے، جس میں جنوبی پنجاب کے لیے خصوصی کوٹہ مختص کیا جائے، صحافی معاشرے کی آنکھ اور کان کا کردار اداء کرتا ہے ، اسی طرح سے اگر شعبہ صحافت حکومت کی معاونت نہ کرے تو ،اس کے لیے بھی اصلاح احوال کرنا ممکن نہیں رہے گا، دوسری طرف صحافت کے شعبے کے وقار اور ساکھ کو بحال کرنے کے لیے صحافی برادری کو بھی بھرپور زمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور ملکی وقار کے پیش نظر زرد صحافت اور منفی صحافت کرنے والوں کی بیج کنی کرنے کے لیے اپنا مؤثر ترین کردار اداء کرنا ہوگا، تاکہ ارضِ پاک کا وقار بلند ہو

Facebook Comments

سید عمران علی شاہ
سید عمران علی شاہ نام - سید عمران علی شاہ سکونت- لیہ, پاکستان تعلیم: MBA, MA International Relations, B.Ed, M.A Special Education شعبہ-ڈویلپمنٹ سیکٹر, NGOs شاعری ,کالم نگاری، مضمون نگاری، موسیقی سے گہرا لگاؤ ہے، گذشتہ 8 سال سے، مختلف قومی و علاقائی اخبارات روزنامہ نظام اسلام آباد، روزنامہ خبریں ملتان، روزنامہ صحافت کوئٹہ،روزنامہ نوائے تھل، روزنامہ شناور ،روزنامہ لیہ ٹو ڈے اور روزنامہ معرکہ میں کالمز اور آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں، اسی طرح سے عالمی شہرت یافتہ ویبسائٹ مکالمہ ڈاٹ کام، ڈیلی اردو کالمز اور ہم سب میں بھی پچھلے کئی سالوں سے ان کے کالمز باقاعدگی سے شائع ہو رہے، بذات خود بھی شعبہ صحافت سے وابستگی ہے، 10 سال ہفت روزہ میری آواز (مظفر گڑھ، ملتان) سے بطور ایڈیٹر وابستہ رہے، اس وقت روزنامہ شناور لیہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں اور ہفت روزہ اعجازِ قلم لیہ کے چیف ایڈیٹر ہیں، مختلف اداروں میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی ممبر ماسٹرز کی سطح کے طلباء و طالبات کو تعلیم بھی دیتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply