عمران خان سچا ہے/وقاص آفتاب

وہ کہتا تھا کہ مغرب کو وہ سب سے زیادہ سمجھتا ہے مگر نادان لوگ اس کا مذاق اڑاتے رہے۔ اس پر کارٹون اور لطیفے بناتے رہے۔واقعی جس طرح سے اس نے کمیشن اور رشوت کی رقم کیش میں لینے کی بجاۓ ڈائمنڈ والی انگوٹھی اور ٹرسٹ کی زمین لے کر لی اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ واقعی سچا تھا۔ مغرب میں با اثر اور امیر لوگ رشوت اور کمیشن کا پیسہ کیسے چھپاتے ہیں اور کیسے اسکو اپنی جیبوں میں ڈالتے ہیں ۔ آئیے اس کی ایک جھلک دیکھیے اور پھر اس کا موازنہ اپنے یہاں کے امراء و اشرافیہ سے کیجیے۔

مغربی ملکوں بشمول امریکہ میں اعلیٰ سرکاری عہدیدار، عوامی نمائندے اور حساس لوگ کمیشن اور کک بیک میں شاز ہی کیش وصول کرتے ہیں۔ سب سے آسان طریقہ یہ ہوتا ہے کہ رشوت یا کمیشن لینے والے کے ساتھ معاملہ طے کر کے اسے اور اس کی بیوی کو بحرا وقیانوس یا بحرالکاہل کے اندر موجود کسی دور دراز جزیرے کی سیر پر چھٹیوں کے بہانے بلایا جاتا ہے جہاں مذکورہ افسر یا عہدیدار کی بیوی کو ڈائمنڈ یا قیمتی جیولری کا سیٹ دے دیا جاتا ہے ۔ وطن واپسی پر آتے ہوۓ یہ خاتون وہ جیولری پہن لیتی ہے اور یوں چپ چاپ یہ کپل واپس آجاتا ہے۔ جیولری کی اس رشوت کو مزید سچائی کا رنگ دینے کے لئے اس کپل کو ضروری دستاویزات بھی فراہم کی جاتی ہیں جن میں یہ دکھایا جاتا ہے کہ جیولری کا سیٹ اس کپل نے کسی انعامی سکیم میں یا آکشن میں باقاعدہ بولی دے کر خریدا تھا۔ اس طرح کی رشوت لینے والے کے لیے رسکی ہوتی ہے کیونکہ قدم قدم پر دینے والا آپکی ویڈیو اور آڈیو بنا کر ساری زندگی آپکو بلیک میل کر سکتا ہے۔ ایک اور طریقہ جس میں بینکوں کے حکام بھی شامل ہوتے ہیں وہ یہ ہے کہ کمیشن لینے والے عہدیدار کو دور دراز جزیرے کے کسی بینک سے قرضہ دلوایا جاتا ہے جس پر وہ دل کھول کر وہاں یا مشرق وسطی میں شاپنگ کرتا ہے اور جاتے ہوۓ کچھ رقم کیش آؤٹ بھی کروا لیتا ہے۔ اپنے وطن واپس پہنچ کر یہ عہدیدار کوئی بھی بہانہ بنا کر بینک کو قرضہ دینے سے معذرت کر لیتا ہے ۔ کچھ عرصہ خط و کتابت ہوتی ہے جس میں بینک والے بظاہر سخت کارروائی کی دھمکی دیتے ہیں جبکہ یہ مزید مہلت مانگتا رہتا ہے۔ پھر جب یہ قصہ پرانا ہونے لگتا ہے تو یہ کاریگر شخص بینک سے قرض معافی اور رحم طلبی کی درخواست کرتا ہے۔ بینک اس کی درخواست کو سنجیدگی سے لیتا ہے اور تھوڑی بہت ہچکچاہٹ کے بعد یہ فیصلہ کرتا ہے کہ چونکہ قرض کی رقم کی واپسی کے لئے کی جانے والی قانونی چارہ جوئی اور بین القوامی کارروائی قرض اور سود کی مالیت سے کہیں زیادہ مہنگی ہو گی اس لئے معاف کرنا ہی مناسب ہے ۔

یہ دونوں طریقے دو تین لاکھ ڈالر کے کمیشن اور رشوت تک استعمال ہوتے ہیں ۔

معاملہ اس سے زائد کا ہو تو عموماً کمیشن دینے والے جس کو رشوت دینی ہو اس کے نام کی بلواسطہ یا بلاواسطہ آف شور کمپنی کھول کر رقم اس میں جمع کرواتے ہیں۔ یہ رقم ایک کمپنی سے دوسری، دوسری سے تیسری اور یوں چار پانچ کمپنیوں اور چار پانچ ملکوں کی سیر کر کے اصل وصول کنندہ کے ملک تک پہنچتی ہے ۔ جہاں یا تو یہ رقم کیش کروالی جاتی ہے یا پھراس رقم سے جائیداد خریدی جاتی ہے اور یہ جائیداد ایک ٹرسٹ کے نام ڈال کر اسے ٹیکس حکام سے shield کر دیا جاتا ہے۔ جائیداد خریدنے والے وصول کنندہ کو متعدد دوسرے ٹرسٹیز کی طرح ایک ٹرسٹی بناتے ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ باقی ٹرسٹی الگ ہو جاتے ہیں اور جس نے کمیشن لیا ہوتا ہے وہ اور ایک آدھ اور شخص ٹرسٹی رہ جاتے ہیں ۔اس سارے عرصہ میں درمیانی کمپنیوں کے ذریعہ اس رقم سے ہونے والے کاروبار اور اس میں ہونے والے نفع اور نقصان کی ایک پیپر ٹریل بھی بنائی جاتی ہے تاکہ ہر چیز قانونی اور جینوئین لگے۔ یہ طریقہ شریف فیملی نے بھی استعمال کیا، زرداری نے بھی اور بہت سے دوسرے مقتدر لوگوں نے بھی۔ کپتان نیازی نے بھی ماضی میں آف شور کمپنی بنائی تھی اور اس کا اعتراف بھی کیا تھا ۔

حالیہ القادر سکینڈل میں آپ نے آف شور کمپنی تو نہیں بنائی کیونکہ پیسہ اپنے گھر کے آدمی نے دینا تھا اور کمپنی بنانے کی ضرورت نہ تھی ۔مگر ٹرسٹ اور جائیداد کا درجہ بالا طریقہ استعمال کر کے آپ نے ان لوگوں کو شرمندہ کر دیا جو آپکے مغربی نظام کے علم کے بارے میں ٹھٹھا کرتے تھے۔

یاد رہے کہ کمیشن اور رشوت کا یہ طریقہ صرف سیاستدان ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت سے طبقے استعمال کرتے ہیں ۔ دنیا میں اسلحہ اور منشیات کی تجارت اور بڑے کاروباری سودوں میں کمیشن کے لئے یہی طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ نظام اب بھی مقبول ہے مگر کچھ لوگ اب اس تہہ در تہہ نظام کی بجاۓ بٹ کوائن اور اس طرح کی دوسری کرنسیوں میں ڈیلنگ کو ترجیح دے رہے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہر پانچ سات سال بعد کوئی نہ کوئی تحقیق سامنے آتی ہے تو کسی ایک ملک کے بینکنگ نظام کے بارے حیران کن انکشافات ہوتے ہیں۔ مثلاً پہلے پھوڑنے والوں نے سوئس اکاونٹس اور سوئس بینکنگ سسٹم کا بھانڈا پھوڑا چنانچہ سوئس بینکوں کی دکان ویران ہوگئی اور ان میں جانے والی حرام کی رقم پانامہ، ورجن آئی لینڈ اور دوسرے دور دراز بینکوں میں جانے لگی ۔۔ پھر پانامہ پیپرز میں کچھ ان دور دراز کے بینکوں کے احوال بھی واضح ہوۓ اب شاید ان لوگوں نے کوئی اور ٹھکانہ ڈھونڈ لیا ہو۔ یہ کئی سو ارب ڈالڑ کی معیشت ہے ۔۔ اسے کون بند کر سکتا ہے؟

Facebook Comments

Waqas Aftab
Intensivist and Nephrologist St. Agnes Hospital Fresno, CA, USA

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply