• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستان کا المیہ،لاپتہ افراد اور جعلی پولیس مقابلے۔۔۔ منصور ندیم

پاکستان کا المیہ،لاپتہ افراد اور جعلی پولیس مقابلے۔۔۔ منصور ندیم

آج کل ملک بھر کے کئی حصوں سے جعلی پولیس مقابلوں اور افراد کے لاپتہ ہونے کی تواتر سے خبریں آنا ایک معمول بن گیا ہے۔ لیکن کراچی میں ہونے والا تقریباً ہر پولیس مقابلہ ہی مشکوک نکلتا ہے۔ اس کے باوجود اعلیٰ حکام کے کان پرجوں تک نہیں رینگتی۔ نہ ہی اس کی حساسیت پر کوئی نوٹس لیا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی جواب طلبی ہوتی ہے ۔ اس رویے سے جعلی پولیس مقابلوں کو سند توثیق مل جاتی ہے۔ گویا یہ سرکاری پالیسی ہے کہ جس کو چاہو گرفتار کر کے پولیس مقابلے میں ماردو، کون عدالتی کارروائی، ثبوت و گواہ کا جھنجٹ مول لے، ایک گولی سے فیصلہ ہو جاتا ہے۔ جعلی پولیس مقابلے میں کراچی کے ایس ایس پی راؤ انوار نے بڑی شہرت حاصل کی ہے۔

گزشتہ دنوں ہی انہوں نے سچل گوٹھ میں کئی ایسے افراد کو پراسرار مقابلے میں ہلاک کردیا جو پولیس کی تحویل میں تھے۔ کراچی میں لوگوں کو گھروں سے اٹھانے کا بھی سلسلہ جاری ہے اور ان کے لواحقین یہی دعا کرتے ہیں کہ وہ کسی پولیس مقابلے میں مار نہ دیے جائیں۔ اب حالیہ مبینہ مقابلے کا ایک نیاکارنامہ سامنے آیا ہے جس میں شعبہ انسداد دہشت (سی ٹی ڈی ) اور رینجرز بھی ملوث ہیں۔ گزشتہ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب پولیس اور رینجرز نے بلدیہ ٹاؤن کے علاقے رئیس گوٹھ میں محاصرہ کر کے 8افراد کو ہلاک کردیا۔ دعوے کے مطابق مارے جانے والوں کا تعلق کالعدم انصار الشریعہ سے تھا اور اس مقابلے میں انصار الشریعہ کا سربراہ شہریار وارثی عرف ڈاکٹر عبداللہ ہاشمی بھی مارا گیا اور اس طرح کراچی سے انصار الشریعہ کا قلع قمع کردیا گیا۔ اس کامیابی کا اعلان، رینجرز ہیڈ کوارٹر سندھ میں رینجرز کے ترجمان کرنل فیصل عارف اور پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے اے ڈی آئی جی عامر فاروقی نے مشترکہ پریس کانفرنس میں بڑے فخر سے کیا اور کہا گیا کہ مارے جانے والے افراد شہر میں دہشت گردی کی بڑی کارروائی کی منصوبہ بندی کررہے تھے، مارے جانے والوں میں شہریار عرف عبداللہ ہاشمی بھی شامل ہے۔ جب کہ شہریار ایک عرصے سے پولیس کی حراست میں تھا اور اس کی گرفتاری کی خبریں اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں۔

حالانکہ 23اکتوبر، روزنامہ جنگ کی اشاعت میں اس خبر کو  شائع کیا گیا تھا جس کے مطابق ’’ انصار الشریعہ پاکستان کا سربراہ کراچی سے گرفتار، یہ تنظیم کا ترجمان بھی ہے‘‘۔ سی ٹی ڈی انسپکٹر فیاض فاروقی نے دعویٰ کیا کہ شہریار عرف ڈاکٹر عبداللہ ہاشمی کو کراچی کی کنیز فاطمہ سوسائٹی سے ستمبر کے پہلے ہفتے میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ایم کیو ایم کے خواجہ اظہار الحسن پر حملے کے بعد عبداللہ ہاشمی کے علاوہ پسنی سے مفتی حبیب اللہ اور کوئٹہ سے جامعہ کراچی کے لیکچرار مشتاق کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ ابھی تک ان دونوں کو پولیس مقابلے میں مارنے کی خبر نہیں آئی ہے۔ عبداللہ ہاشمی کی گرفتاری کی خبر 6اور 7ستمبر کو کراچی کے کئی اخبارات میں شائع ہوئی اور ہیرالڈ میگزین نے اس بارے میں 19اکتوبر کو ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی۔ سی ٹی ڈی نے یکم ستمبر کو عبداللہ ہاشمی کی گرفتاری کا دعویٰ کیا اور رینجرز نے بھی اس کی تصدیق کی۔ یہ کتنا ’’خطرناک‘‘ شخص تھا کہ قید میں رہ کر بھی پولیس سے مقابلہ کررہا تھا۔
اس سے پہلے لاہور میں مال روڈ بم دھماکہ کے مبینہ ملزم انوار الحق کا مناواں میں ، سی ٹی ڈی کی حراست میں ڈرامائی حملہ میں مارے جانا، اور مزید کچھ لوگوں کا بھی مارا جانا، اب سمجھ یہ نہیں آتا کہ اگر واقعی کسی نے حملہ کیا تھا تو  CTD  والوں کا کوئی نقصان کیسے نہیں ہوا تھا ؟
ریاستی ادارے کی حراست میں انتہائی مطلوب افراد کا رہنا اور ان کی منتقلی پر بھیجی جانی والی ٹیم پر حملہ کیسے ہوا؟
انوار الحق اور دوسرے ملزمان کے گھر والوں سے اگر پوچھا جائے تو یقیناً پتہ چلے گا کہ وہ لوگ ریاستی اداروں نے کافی عرصہ پہلے سے ہی اٹھائے ہوے ہونگے۔
ویسے ہی جیسے ملک اسحاق کا ریاستی اداروں نے ماورائےآئین اور ماورائے عدالت قتل کیا تھا، اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک اسحاق مجرم اور قاتل ہے، لیکن یہی لوگ بالاصل ریاستی اداروں کی ضرورت کے تحت باہر آزاد گھومتے ہیں اور کام ختم ہونے پر ان کو ایسے ہی مار دیا جاتا ہے۔
ویسے ہی جیسے مشہور قوال امجد صابری کے قاتل ہر مہینے چار بار پکڑے جاتے ہیں، اب تو امجد صابری کے لواحقین یہاں تک کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اگر اصل قاتل نہیں ملتے تو باقی بے گناہوں کو تو معاف کر دو، بالکل ایسے ہی ماضی میں بھی کراچی میں حکیم سعید کے قاتل ہر روز گرفتار کئے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ حکیم سعید کے قتل کے نامزد ملزمان کو عدالتوں سے سزا سنا دینے کے بعد کراچی کے ایک ایماندار افسر نے اصل مجرم گرفتار کر لئے تو اس پولیس آفیسر پر دباو ڈالا گیا کہ آپ خاموش رہیں اور جن ملزمان کو نامزد کر دیا گیا ہے ان کو ہی رہنے دیں، اس افسر نے بات نہیں مانی تو اس کو معطل کر دیا گیاتھا۔
گزشتہ سال ملک کے مختلف حصوں سے بلاگرز کا لا پتہ ہو جانا ، ملک بھر سے مختلف اہل تشیع افراد اور دوسری مذہبی جماعتوں اور سیاسی جماعتوں کے افراد کا لاپتہ ہونا بھی اب روز کا تماشہ بنتا جارہا ہے۔
پولیس اور اس کے شعبہ سی ٹی ڈی کے ایسے جعلی مقابلے اب کوئی نئی بات نہیں رہی، لیکن حیرت اس پر ہے کہ رینجرز اس مقابلے کا دعویٰ کررہی ہے۔ حیرت تو اس پر بھی ہے کہ ابھی تک کسی طرف سے وضاحت نہیں آئی۔ رینجرز، پولیس اور سندھ کے وزیر داخلہ کچھ تو فرمائیں کہ حقیقت کیا ہے؟ ایسے جعلی مقابلے کب تک چلیں گے۔ کیا ان جعلی مقابلوں کا مقصود فقط فائلیں بند کروانا ہے۔ آخر کب تک ایسے چلتا رہے گا، اصل مجرمان کبھی نہ پکڑے جاتے ہیں اور اگر نہیں پکڑے گئے تو کیا یہ دھشت گردی کبھی ختم ہو سکے گی۔

“کیا کوئی اندازہ کرسکتا ہے پاکستان کے عام عوام کے لئے یہ کس قدر بے بس کردینے والی صورت حال ہے؟”
ان ماں باپ اور گھر والوں پر کیا بیت رہی ہوتی ہے ۔”کیا کوئی اندازہ کرسکتا ہے پاکستان کے عام عوام کے لئے یہ کس قدر بے بس کردینے والی صورت حال ہے؟”ان ماں باپ اور گھر والوں پر کیا بیت رہی ہوتی ہے ۔حیرت تو ان صاحبان پر ہے جو یہ کہتے ہیں کہ  “کچھ تو  کیا ہوگا تبھی تو لا پتہ ہوتے ہیں ، ہمیں کوئی لاپتا کیوں نہیں کرتا؟” ریاستی اداروں کی جانب سے لوگوں کو لاپتہ کرنے کو جائز قرار دینے کے لیے عمومی طور پر  دی جانے والی ایک دلیل۔ یہ دلیل یقینا ًشرم ناک اور بھیانک ہے۔ کسی بھی جرم کی صورت میں کسی شخص کو گرفتار کرنے اور عدالت میں پیش کرنے کے علاوہ کوئی بھی راستہ کسی بھی صورت جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایک بہتر پاکستان کے لیے قانون کی بالادستی قائم کرنے کے لئے قانونی دائرے کے اندر ہی رہنا ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

کیا آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ افرا تفری کے اس ماحول میں یہ “کچھ کیا ہی ہوگا” والا جملہ قتل وغارت گری کا کتنا بڑا جواز ہے؟ ان جعلی پولیس مقابلوں کا آغاز تو ہے لیکن اس کی انتہا کیا ہو گی۔کیا پاکستان کے شہری کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، یہاں پاکستانیوں کو مسلک اور جماعتوں سے وابستگی پر لا پتہ کیا جاتا ہے ، مگر پاکستان میں بسنے والا ہر شہری صرف پاکستانی ہے ، ریاست کی نظر میں کسی بھی شہری کی کوئی جماعت نہیں ہوتی اس کا کوئی مسلک بھی نہیں ہوتا۔ ریاست کے لئے شہری فقط شہری ہوتا ہے اور اس کے کچھ بنیادی حقوق ہوتے ہیں۔ جرم کی بنیاد پر بھی اس کو اغوا نہیں کیا جاسکتا۔قانونی اور عدالتی سطح پر لوگوں کو حراست میں لیا جانا چاہئے، اور قانونی تقاضوں کو پورا کر کے اس فرد کو سزا دینی چاہیئے   اور  ماورائے عدالت حراست میں لینا کم سے کم الفاظ میں بھی بربریت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اور ان جعلی پولیس مقابلوں کو کسی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply