بیٹی رحمتِ خداوندی۔۔غلام سرور

انسان کی تربیت کے طریقوں میں ایک قدرتی عمل جس کو فطرت کہتے ہیں، پیدائش کے ساتھ آتا ہے، دوسرا نرچرنگ /پرورش،جس میں انسان معاشرے سے اور اردگرد کے ماحول سے سیکھتا ہے۔ اس پرورش میں معاشرہ زبان کا کردار ادا کرتا ہے کیونکہ معاشرے کی ایک زبان ہوتی ہے۔ مطلب بولنا قدرتی فعل ہے اور کیا بولنا یہ معاشرتی فعل ہے۔ نرچرنگ وہ تربیت ہوتی  ہے،جوبچہ اردگرد کے ماحول میں دیکھتا اور سنتا ہے مطلب معاشرہ بھی بچوں کی تربیت کرتا ہے۔جو وہ سُن اور  دیکھ رہے ہوتے  ہیں ،ان کے دماغ میں بیٹھ جاتا ہے ۔ اور اس کی فطرت بن جاتا ہے جوکل کے معاشرے کی عکاسی کرے گا۔ اگر معاشرہ بیٹی کو رحمت بنا کر دکھائے گا تو بچے مستقبل میں اس سبق کو لاگو بھی کریں گے۔
اولاد اللہ پاک کی اپنے بندوں کو عطا ہے جس کو چاہے بیٹا دے اورجس کو چاہے بیٹی دے۔ کسی کو محروم کر دے اور کسی کو دونوں عطا کرے۔ اولاد اللہ پاک کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔اللہ کے محبوبؐ فرماتے ہیں “بیٹیاں اللہ پاک کی رحمت ہوتی  ہیں۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا ” جب اللہ پاک اپنے بندے پر بہت زیادہ خوش ہوتا ہے تو وہ اِ س بندے کو اولاد میں بیٹی دیتا ہے۔ ” اللہ کے محبوب نبیؐ اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ حضرت مسور بن مخرمہ سے مروی ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا ” بے شک فاطمہ میری شاخ ثمر بار ہے جس چیز سے اسے خوشی ہوتی اس چیز سے مجھے خوشی ہوتی اور جس چیز سے اسے تکلیف پہنچتی ہے اُس چیز سے مجھے تکلیف پہنچتی ہے۔ ” اللہ کے آخری نبیؐ کی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ جنت کی عورتوں کی سردار ہے۔ جب آپؐ کے  پاس تشریف لاتیں تو آپؐ اٹھ کھڑے ہوتے اور اپنی جگہ پر اپنی لاڈلی بیٹی کو  بٹھاتے۔ یہ سبق آنے والے انسانوں کے لیے مشلِ راہ ہے اور سنتؐ بھی۔
اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔ بیٹی کو اللہ پاک کی خوشنودی قرار دیتا ہے۔ کسی انسان / مسلمان کے لیے اس سے بڑی خوشخبری کیا ہو سکتی  ہے کہ اللہ نے اس کو بیٹی سے نوازا ہے۔ میرے ساتھ ایک معلم کے بیٹے کے ہاں بیٹی کی پیدائش  ہوئی تو میں نے پوچھا آپ نے بتایا ہی نہیں  دعوت دیں۔ کہتے بیٹا ہوتا تو بتاتا اور دعوت بھی دیتا۔ لڑکیوں کی پیدائش پر خوشی نہیں کرتے۔میں  نے کہا بیٹی تو اللہ کی رحمت ہے ،خوش ہونا چاہیے۔ سارا دن اس مباحثہ کی وجہ سے ان کے جواب نے افسردہ بنا دیا۔ سنتے آئے ہیں کہ ہم نام کے مسلمان ہیں۔ یہاں تک بھی بات ٹھیک لگتی۔۔ مگر میں کہوں گا ہم اب نام کے مسلمان بھی نہیں رہ گئے۔
گہرائی میں جھانکنے سے مسائل کا واضح ادراک ہوتا ہے۔ اس قدر ذہنی پستی ہے کہ سر پیٹنے کو دل کرتا ہے۔ تقریباً  آٹھ مہینے پہلے لیڈی ولنگڈن ہسپتال میں ایک آنکھوں دیکھا غمگیں و افسردہ واقعہ  دیکھا۔ لڑکے کے گھر والے بہو پر تشدد کر رہے تھے  کہ الٹراساؤنڈ میں تین بیٹیوں کے بعد پھر سے بیٹی کی خبر آئی  ہے اور اس بے چاری کو وہی تن تنہابے بس چھوڑ کر گھر واپس آگئے۔”اللہ اپنے بندوں سے ماں سے بھی ستر گنا زیادہ پیار کرتا ہے “۔ اور اللہ کی رحمت سے اس کو بیٹا ہوااور اس بےبس لڑکی کی جان میں جان آئی۔ یہ معجزہ تھا اور اس بات کا ثبوت کہ اللہ ستر گنا زیادہ پیار کرتا ہے ۔اس قسم کے سینکڑوں واقعات روزانہ کی بنیاد پر کہیں نہ کہیں رونما ہو رہے ہوتے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کا منافقانہ رویہ ہے جو بیٹوں کی پیدائش پر لاکھوں مبارکیں  وصول کرتا  ہے اور بیٹی کی پیدائش پر بتانا بھی پسند نہیں  کرتا۔ اس ذہنی پستی کا خاتمہ انفرادی بہتری سے منسلک ہے۔ یہ مسئلہ معاشرے کی پستہ حالی کی عکاسی کرتا ہے۔ جس کے ظاہر و باطن ،فعل و قول  میں تضاد ہے۔
میرا دوست ملک فراز کہتا ہے ، میری خواہش ہے کہ اس کی پہلی اولاد بیٹی ہو کیونکہ وہ چھوٹے بہن بھائیوں کےلیے ماں کاکردار ادا کرتی ہے۔ بیٹیوں سے پیار آپؐ کی سنت اور”ایک سنت پر عمل کرنے کااجر سو شہیدوں کے ثواب جتنا ہوتا ہے”۔
معاشرے کی پستہ حال ذہنیت اور معاشرتی و سماجی رسم ورواج نےاس ناانصافی کوتخلیق کیا۔ اس معاشرے کا کام سماجی اصطلاحوں اور دقیانوسی خیالات سے نکل کر بیٹی کو جائز حقوق دینا ہے۔کس کو کیسا محسوس ہوتا  ہے،مگر جب مجھے پتہ چلے کہ فلاں کے ہاں بیٹی ہوئی ہے  تو میں خصوصاً اس کو مبارکباد کہنے جاتا ہوں ۔معاشرے کی تربیت میں بیٹی کی پیدائش اللہ کی بندے سے محبت ہے ۔بیٹی کو  رحمت مانتے ہوئےلوگوں سے مبارکیں وصول کرناہے۔ اور اس ذہنی پستی کو جس میں بیٹی کو کم تر بنایا گیا ہے اس کو ختم کرنا ہر انسان کی پہلی ذمہ داری ہے۔ احمد شعیب صاحب کا ایک شعر ہے ۔۔
 میں نصیبوں کی ماری ستائی ہوں
لوگ کہتے ہیں میں بیٹی، پرائی ہوں

Facebook Comments

Ghulam Sarwar
پنجاب یونیورسٹی سے انٹرنیشنل ریلیشنز میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply