خدا ہے /تبصرہ: علی رضا کوثر(3)

پچھلی اقساط میں ہم نے مصنف کا انکار خدا پڑھا، اب شروع ہوتا ہے اس کا اقرار خدا کا سفر۔
وہ ساری عمر انکار خدا کیوں کرتے رہے اس کے بارے میں ہم پڑھ چکے، اب پڑھینگے کہ انہوں نے کس وجہ سے خدا کے وجود کا اقرار کیا۔
اس قسط میں ہم باب چہارم پر تبصرہ کرینگے۔
جیسا کے ہم پڑھ چکے ہیں کہ مصنف دلیل کی پیروی کرتا ہے پھر چاہے وہ دلیل اسے سالوں تک ملحد رکھے یا پھر خدا پرست کردے۔ وہ اپنے نظریات پر دلائل نہیں بناتے تھے بلکہ دلائل کی بنا پر اپنے نظریات تشکیل دیتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں “پہلے سے سوچے ہوئے نظریات ہماری دلیل کو دیکھنے کے طریقے کو تشکیل دیتے ہیں بجائے اس کے کہ دلیل ہمارے نظریات کو تشکیل دے۔”
مصنف عقلی دلیل کو مانتے ہیں جو سائنس اور فلسفے کے ذریعے حق ثابت ہو۔ وہ لکھتے ہیں “کسی بیان کی صداقت کا طریقہ یہ ہے کہ ایسے ثبوت فراہم کیے جائیں جو اسے سچ ثابت کرتے ہوں۔ اگر بات صحیح معنوں میں عقلی اور مدلل ہے تو اسے سائنس یا فلسفے کے ذریعے اپنے حق ہونے کے دلائل پیش کرنا ہونگے”
یعنی یا تو آپ کا بیان (خواہ وہ خدا کےبارے میں ہوا یا کوئی اور) سائنسی طور پر سچ ثابت ہو یا فلسفے کے طور پر۔ مصنف کے نزدیک یہ دونوں سچائی کو پرکھنے کے میزان ہیں۔
آگے وہ اپنا اقرار لکھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے کس وجہ سے خدا کو مانا۔ میں یہاں یہ بتانا پھر ضروری سمجھتا ہوں کہ مصنف نہ تو وحی میں مانتے ہیں نہ نبی و پیغمبر میں۔ وہ فقط خدا کے قائل ہیں (مصنف ارسطو کے خدا کے قائل ہیں جسے ارسطو نے فرسٹ موور کہا ہے جو کائنات بنا کر اس میں دخل نہیں دیتا)۔ وہ لکھتے ہیں،
“میں اب یقین رکھتا ہوں کہ کائنات کو کوئی ذہن کبرٰی وجود میں لایا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ اس کائنات کے پیچیدہ قوانین اسے ظاہر کرتے ہیں جسے سائنسدانوں نے خدا کا ذہن کہا ہے۔ مجھے یقین ہے زندگی اور افزائش ایک الہامی ماخذ سے شروع ہوتی ہے”
یہاں غور کریں تو آپکو معلوم ہوگا کہ مصنف کسی مذہبی خدا کو نہیں مانتا (جس کا ذکر وہ باب کے آخر کرتے ہیں)، مگر وہ کائنات کو پیدا کرنے والے پر اعتقاد رکھتا ہے۔ وہ سائنس اور فلسفے کی مدد سے خدا تک پہنچا ہے۔ اور خاص کر ایک بات جو وہ بار بار کتاب میں لکھتے ہین کہ وہ خدا کو کائنات کے قوانین کی وجہ سے تسلیم کرتے ہیں۔ ان کوانین کو ہم اور آپ طبیعاتی اور ریاضیاتی قوانین کے نام سے جانتے ہیں۔
(Physical & Mathematical Laws)
جدید سائنس نے مصنف کو خدا پرستوں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ آگے وہ لکھتے ہیں کہ سائنس کے ساتھ ساتھ کلاسیکل فلسفے کے دلائل نے بھی انہیں مدد دی خدا کی حقیقت ماننے میں۔ سائنس کے ذریعے تین باتوں کی وجہ سے وہ کنورٹ ہوئے ہیں جن کے متعلق وہ لکھتے ہیں، “سائنس قدرت کی تین جہتوں کو نمایاں کرتی ہے جو خدا کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
۱۔ فطرت کے قوانین
۲۔ ذہانت سے منظم اور مقصد پر مبنی مخلوق
۳۔ فطرت کی لامحدودیت”
مصنف ملحد سے معتقد ہونے کو پیرادگم شفٹ نہیں کہتے۔ وہ کہتے ہیں کہ “میری کنورژن کو پیراڈگم شفٹ نہ سمجھا جائے۔ کیوں کہ میں افلاطون کے قول کا پیرو ہوں کہ دلیل کی پیروی کرو جہاں وہ تمہیں کے جائے”
(پیراڈگم شفٹ یعنی کسی سائنسی مفروضے کا تبدیل ہوجانا۔)
مصنف اگے چل کر تین سوالات کرتے ہیں۔
پہلا سوال- قدرت کے قوانین کہاں سے آئے۔؟
دوسرا سوال۔ زندگی کی افزائش غیر مادے سے کیسے ہوئی۔؟
تیسرا سوال۔ کائنات کیسے وجود میں آئی؟
میرا بھی ایک سوال ہے کہ جب ارسطو کے نظریے Biogenesis کو مان کر Abiogenesis کو رد کردیا گیا تھا تو آخر کیوں کائنات کی شروعاتی زندگی پر abiogenesis کی مدد لی جارہی ہے؟ جب کہ یہ نظریہ تجربے سے رد ہوچکا ہے۔
پچھلے باب میں جو دو سوال (شر اور آزادیء ارادہ) مصنف کے ملحد ہونے کا سبب بنے تھے ان مین سے ایک(شر) کا جواب اسے conway سے مل گیا۔ کونوے بھی مصنف کی طرح ارسطو کے خدا کو مانتا اور اسکا دفاع کرتا تھا۔
مصنف اس باب کے آخر میں پھر لوگوں کو اہنے خدا کی دریافت کے متعلق یہ بتاتے ہیں کہ “خدا سے متعلق میری دریافت کسی مافوق الفطرت مظہر کے بغیر خالصتاً فطری بنیادوں ہر آگے بڑھی۔اسے روایتی طور فطری الہات کہا جاتا ہے۔ اس کا کسی معلوم مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ اور نہ میں ایسا کوئی دعوا کرتا ہون کہ مجھے کوئی معجزانہ یا مافوق الفطرت تجربہ ہوا۔ میری الہامی دریافت عقیدے کا نہیں بلکہ عقل کا سفرِ مقدس ہے”

مشہورِ زمانہ ملحد جناب انتھونی فلو کی اس کتاب کی آج چوتھی قسط شایع ہو رہی ہے۔ اس قسط میں ہم فطرت کے قوانین کے بارے میں فلو کے خیالات پڑھینگے۔ یعنی یہ پوری قسط فقط ایک پوائنٹ (فطرت کے قوانین) پر مشتمل ہوگی۔ مصنف خود بھی اس پوائنٹ پر بات کرے گا اور دیگر مشہور فلسفیوں اور سائنسدانوں کے نظریات بھی بتائے گا۔
پچھلی اقساط پڑھ کر فطرت کو کچھ لوگ انسانی فطرت جسے مزاج کہا جاتا ہے وہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ میں یہاں بتاتا چلوں کہ فطرت یعنی کائناتی فطرت۔ جسے ہم نیچر بھی کہتے ہیں۔ جس پر ہماری فزکس ڈپینڈ کرتی ہے۔ جو ریاضیاتی اصول اور لاز کے تحت چلتی ہے۔
ہم پچھلی اقساط میں پڑھ چکے ہیں کہ فلو الحاد سے اعتقاد کی جانب فقط فطرت کی وجہ سے ہی آیا ہے۔ وہ فطرت میں کارفرما قوانین اس کا نظم و ضبط اور اسکی سمٹریکل اسٹرکچر کو دیکھ کر ہی یقین کرتا ہے کہ اس کائنات کو بنانے والا ضرور کوئی نہ کوئی دماغ ہے۔ لہذا فلو لکھتا ہے،
“خدا کو پہچاننے کیلئے سب سے زیادہ مقبول اور بدیہی طور پر قابل دلیل دیزائن (نظم و ضبط) کی دلیل ہے”
یعنی کائنات کی یہ ڈیزائن کسی ڈیزائنر کے وجود کو ثابت کرتی ہے۔”
فطرت کے قوانین کا ذکر اس کتاب مین بہت بار ملے گا۔(خاص کر کے باب پنجم میں)۔ کیونکہ فلو انہی قوانین کے باعث خدا پر ایمان لائے ہیں۔ مگر فطرت کے قوانین سے مراد کیا ہے؟ فلو اس کا جواب یوں دیتے ہیں “فطرت کے قوانین سے میری مراد اس (کائنات) کی ہم آہنگی اور باضابطگی ہے” وہ مزید کہتے ہین کہ “اہم نکتہ یہ نہیں کہ فطرت میں باقاعدگی موجود ہے۔ بلکہ یہ باقائدگی ریاضی کے لحاظ سے قطعی، آفاقی اور ایک دوسرے کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ہمیں جو سوال پوچھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ فطرت اس انداز مین کیسے بنی؟ یہ وہ سوال ہے جو نیوٹن سے لیکر آئن سٹائن اور آئن سٹائن سے لیکر ہائیزنبرگ تک کے سب سائنسدانوں نے ہوچھا ہے اور جواب دیا ہے۔ ان کا جواب تھا “خدا کا دماغ”۔
اسٹیفن ہاکنگ نے اپنی کتاب ‘وقت کی مختصر تاریخ’ کا اختتام اس اقتباس سے کیا ہے۔ “اگر ہم مکمل تھیوری دریافت کرلیتے ہیں تو یہ اس وقت صرف مخصوص سائنسدانوں کیلئے نہیں بلکہ سب کے لئے قابل فہم ہوگی۔پھر ہم سب فلسفی، سائنسدان اور عام عوام اس بحث میں حصہ لینے کے قابل ہونگے کہ کیوں ہم اور یہ کائنات وجود رکھتی ہے۔ اگر ہمیں اسکا جواب مل گیا تو یہ انسانی عقل کی بڑی کامیابی ہوگی۔ تب ہم خدا کے ذہن کو جان سکیں گے۔”
یعنی کائنات کو جان لینا اور اسکے وجود کو سمجھنا ہی خدا کی پہچان ہے۔ اور مصنف نے کائنات کو جاننے کے بعد ہی خدا کا اقرار بھی کیا ہے۔
یہان تک آپ جان چکے ہین کہ کائنات کوئی بڑا ذہن، فرسٹ موور، فرسٹ کاز، ڈوائن لا میکر، لامحدود عظیم روح، ذہن کبیر، اعلی استدلالی قوت یا پھر آئن سٹائن کے بقول کوئی ایک ‘ سپر دماغ’ ہے جو اس کائنات قوانین کو بنانے والا ہے۔ میں مذہبی انداز سے گفتگو نہین کر رہا لہذا میرے تبصرے کو مذہبی رنگ نہ دیا جائے۔ میں تو وہ لکھ رہا ہوں جو بڑے بڑے دانشور کہہ گئے یا ہھر خود مصنف نے جو کہا ہے۔ اور یہ بڑے دانشور بھی کوئی مذہبی خدا مین نہیں مانتے تھے بلکہ کائنات کو بنانے والے کو مان رہے تھے۔ یہ تو سب مذہب سے کوسوں دور تھے۔ جیسے اسپائینوزا فطرت کو خدا مانتا تھا۔ اور آئن سٹائن بھی اسپائنوزا کے خدا کا قائل تھا۔
مصنف، میکس پلانک کو کوٹ کرکے کہتا ہے
“سائنس مذہب کی تکمیل ہے۔ مذہب اور سائنس کے مابین کبھی کوئی مخالفت نہیں ہوسکتی۔ یہ ایک دوسرے کی تکمیل ہیں۔ “
میکس پلانک نے صحیح کہا۔ ہم ہی پاگل ہیں جو مذہب اور سائنس کے بیچ مخالفت قائم کرتے ہیں جبکہ نہ مذہب کو سائنس سے خطرہ ہے نہ سائنس کو مذہب سے۔ پال ڈیراک کہتا ہے “خدا بہت بڑا ریاضی دان ہے۔ اور کائنات کی تعمیر میں اس نے جدید ریاضی کا استعمال کیا ہے۔” مصنف اب چارلس ڈارون کو کوٹ کرتا ہے اور لکھتا ہے “چارلس دارون کہتا ہے کہ ‘جب علت اولی کی طرف میں ایک انسانی ذہانت کے ساتھ دیکھوں تو مجھے خدا کو ماننے والا کہا جاسکتا ہے۔”
پروفیسر جان فوسٹر نے اپنی کتاب
The Divine Law maker: Laws of Nature and existence of God
مین لکھتے ہیں، “فطرت کے باقاعدگی کو، چاہے جیسے بھی آپ دریافت کریں، ایک خدائی ذہن کے ذریعے ہی بہتر انداز میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ اگر آپ اس حقیقت کو قبول کرتے ہیں کہ قوانین موجود ہیں تو پھر کائنات کے نظام کے اوپر کسی کے اختیار کو مسلط کرنا ہوگا۔”
یہ چند اہم نکات تھے جو فلو نے اپنے بات مین وزن لانے اور پنی اپنی منوانے کیلئے بطور دلیل دیے ہیں۔ وہ کیوں خدا کو ماننے لگے اس کا جواب یہی ہے کہ انکو فطرت میں خدا دکھائی دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اسپائنوزا نے فطرت کو خدا کہہ دیا اور فلو نے فچرت کے بنانے والے کا اعتراف کیا۔
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply