گھروندا ریت کا(قسط3)۔۔۔سلمیٰ اعوان

اب ایسی بھی کوئی بات نہ تھی کہ وہ اپنی اِس گھبراہٹ اور بے چینی کو جویوں بیٹھے بٹھائے تپ ملیریا کی طرح یکدم اُس پر چڑھ دوڑی تھی کے پس منظر سے ناواقف تھا۔ ٹھنڈے پانی سے لبالب بھرے دو گلاس اُ س کے اندر یوں گئے جیسے مئی جون میں تپتی زمین پر ایک قطرہ پانی پڑے اور بھک سے اُڑ جائے۔ اُبھرتے، ڈوبتے اور مضطرب دل کو ذرا بھی سکون اور چین نہ ملا۔
میز پر فائلوں کا انبار پڑا تھا۔ اُس کا جی نہیں چاہتا تھاکہ وہ کسی فائل کوہاتھ لگائے اور کھولے۔ اُس کا اسسٹنٹ نور الزماں آیا۔ صوبائی سطح پر چند دنوں بعد جنر ل مینجروں کی جو اہم میٹنگ چٹا گانگ میں ہونے والی تھی۔ و ہ اُس کا ایجنڈا اپروول Approval کے لئے لایا تھا۔ اُس نے بے دلی سے کاغذ اُس کے ہاتھ سے پکڑا۔ میز پر پیپر ویٹ کے نیچے رکھا اور سرکے اشارے سے اُسے چلے جانے کو کہا۔ چپڑاسی ریجنل ڈائریکٹر کے پاس سے فائل لایا اُ س نے وہ بھی پکڑی اور بغیر کھولے میز پر ڈال دی۔

گھروندا ریت کا(قسط2)۔۔۔سلمیٰ اعوان
اُس کا ذہن گُڈمُڈ سا ہو رہا تھا۔ کسی بھی کام پر توجہ دینے کے لئے تیار ہی نہیں تھا۔ کچھ دیر بعد وہ اُٹھا۔ اپنے چھوٹے سے کمرے میں اِدھر اُدھر چکر کاٹنے لگا۔ پھر شیشے کی دیوارسے باہر دیکھنے لگا۔
سڑک پر آگے پیچھے نئی نویلی اور پرانی کاروں، منی بسوں اور سائیکل رکشاؤں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ موتی جھیل کا کمرشل ایریا، زیر تعمیر عمارتوں کا ایک لامتناہی سلسلہ،سامنے جناح ایونیو کی شاندار دوکانیں اور اُن کے دروازوں میں داخل ہوتے اور باہر نکلتے صاحبِ  ثروت لوگ۔
اِس منظر میں اُس کے لئے کوئی نیا پن یا کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ جب سے وہ یہاں ملازم ہوا تھا اور یہ کمرہ اُس کی تحویل میں آیا تھا۔ وہ سینکڑوں بار یہ سب دیکھ چکا تھا۔ پر جانے آج کیا با ت تھی؟ اُس  نے اپنے آپ سے کہا تھا۔
”ڈھاکہ کس تیزی سے اپنی جون بدل رہا ہے۔ سر بفلک عمارتیں اپنے دامنوں میں آباد جھونپڑوں کا مذاق اُڑاتی ہیں۔ دھوتیاں صنعتی ترقی نے کونے کھدروں میں چُھپا دی ہیں۔ تیز ی سے بدلتی اقدار نے معاشرتی زندگی کا ڈھانچہ بدلنے پر کمر کَسی ہوئی ہے۔ خلوص، پیار اور محبت پر بھی کائی سی جم گئی ہے۔ ہر ایک ننانوے کے چکر میں اُلجھا ہوا نظر آتا ہے۔
وہ میز پر دوبارہ آکر بیٹھ گیا۔ کلائی پر نظر ڈالی۔ ابھی ایک بجنے میں آدھ گھنٹہ باقی تھا۔

اُ س نے اُکتاہٹ کے انداز میں اپنے دونوں بازو اُوپر اُٹھائے۔ فون کو دیکھا، بغیر کسی ارادے کے ریسیور کریڈل سے اُٹھایا۔ ہاتھوں میں ہلکے ہلکے گھماتے ہوئے اُس نے خود سے کہا تھا۔
یہ فون ہی تو ہے جس نے اُسے اضطراب میں ڈال دیا ہے۔ بات توبس اتنی سی تھی کہ وہ تو کام میں پورے انہماک سے مگن تھا۔بس ابھی تھوڑی دیر پہلے اُس کے بڑے بھانجے احتشام الرحمن کی بیوی نجمہ احتشام نے اُسے فون پر دوپہر کا کھانا اپنے ہاں کھانے کی دعوت دی تھی۔ اُس نے معذرت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ آج نہیں آسکے گا۔ دفتر میں کام بہت ہے۔ لیکن نجمہ احتشام نے اُسے صورتِ حال سے آگا ہ کرتے ہوئے بتایا کہ اُ س کی دونوں چھوٹی بہنیں رات کلکتہ سے آئی ہیں۔

اُس کا ہاتھ یہ بات سُنتے ہی اِک ذرا لرزا تھا۔ دل بھی دھڑکا کیونکہ دونوں بہنوں کی کلکتہ سے آمد اور اُس کا کھانے پر مدعو کیا جانا ایک ہی سلسلے کی کڑی تھا۔ اُن دونوں میں سے ایک کو اُسے اپنی بیوی کے طور پر پسند کرنا تھا۔ اُ س نے پہنچنے کا وعد ہ کیا اور فون بند کردیا۔

تب سے یہی چھوٹا سا واقعہ اُس کی بے چینی اور اُلجھن کا باعث بنا ہوا تھا۔ طبعاً وہ کچھ اتنا شرمیلا لڑکا بھی نہ تھا پر شاید یہ دیکھنے دکھانے والا سلسلہ نفسیاتی طور پر عجیب سے تاثرات قلب وذہن پر منعکس کررہا تھا۔ اور جب ایک بج گیا وہ کُرسی سے کھڑا ہوگیا۔ اُ س نے تنقیدی نظر اپنے کپڑوں پر ڈالی۔
”ٹھیک ہی ہیں۔“ اُس نے اپنے آپ سے کہا۔
پر جب وہ لفٹ سے نیچے جانے کے لئے اُس میں داخل ہوا اور شیشے میں اپنے سراپے کا ناقدانہ جائزہ لیا۔ اُس کے جی میں آئی کہ اگر وہ گھر جاکر کپڑے تبدیل کرلے تو زیادہ مناسب ہوگاپر اگلے لمحے اُس نے اِس خیال کو جھٹک دیا۔ سج سجا کر جانے کے تصور سے ہی اُسے عجیب سی وحشت کا احساس ہوا۔
”لعنت بھیجو۔ یہ کچھ کچھ شِکنوں والے کپڑے، ذرا ذرا بکھرے بال، چہرے پر بکھرا قدرے مصروفیت کا پرتو شخصیت کی گھمبیر تا کا عکاس ہے۔ کالجوں میں پڑھنے والی وہ لڑکیاں میرے اِس رویّے سے جان جائیں گی کہ میں نے اُن کا قطعی نوٹس نہیں لیا۔“

گراؤنڈ پر پہنچ کر وہ اپنے نئے نویلے ہنڈے کی طرف بڑھا۔ مگ بازار کی طرف جاتے ہوئے کتنے ہی خیال اُس کے دماغ میں آئے اور ہینڈلو ں پر اُس کی مضبوط گرفت پراثر انداز ہوئے۔
گھر کے برآمدے میں ہی اُسے نجمہ نظر آگئی جس نے اُس کا استقبال معنی خیز مسکراہٹ سے کیا اور اُسے لئے ڈرائنگ روم میں آگئی۔
اور پھر یوں ہوا کہ نجمہ احتشام کے بے حد خوبصورت ڈرائنگ روم میں دُلدوآپا سے باتیں کرتے ہوئے اُ س نے آناً فاناً ہی وہ فیصلہ کر ڈالا جس کا خیال ہی اُسے بولائے جا رہا تھا۔

وہ سر وقد نازک سی لڑکی جو ابھی تھوڑی دیر پہلے کمرے میں آکر داہنے ہاتھ کے صوفے پر بیٹھی تھی اُسے بے طرح بھا گئی۔ وہ یقیناً کسی طرح بھی اپنی اُس بہن سے اچھی نہ تھی۔ جس کی چمپئی رنگت، گردن تک کٹے بالوں کے درمیان پور ی آب وتاب سے چمک رہی تھی۔ جو شانتی نکیتن کی سٹوڈنٹ تھی اور کتھک سے لے کر رمبا تک سبھی طرح کے رقص کرنا جانتی تھی۔ جو سُنا تھا بُہت اچھا گاتی ہے اور اِس وقت بھی بڑی میٹھی آواز میں باتیں کر رہی تھی۔

پر پتہ نہیں اُسے یہ سب کیوں اپیل نہ کیا۔ اُس نے دیکھا سانولے سے ایک وجو د نے برآمدے میں سے گزرتے ہوئے بڑی ادا سے نفیس کڑھت کی سوتی ساڑھی کے لمبے آنچل کو پام کے پودوں سے اُلجھنے سے بچایا اور جب اُس نے ایسا کیا تھا وہ بُہت دلکش نظر آئی تھی۔ وہ جو لیڈی برے بورن کالج کلکتہ میں تھڑ ڈائیر میں پڑھتی ضرور تھی پر جسے رقص وموسیقی سے ذرا بھی لگاؤ نہ تھا۔ لیکن اِس کے باوجود اُ س لڑکے نے فیصلہ کیا کہ یہی اور صرف یہی لڑکی اُس کی زندگی کی ساتھی بنے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply