یہ کہانی کوئی بیس برس پہلے لکھی گئی۔سب سے پہلے پاکستان کے ایک رسالے سے اٹھا کر اسے اردو اور ہندی کی روسی مصنفہ لُدمیلا نے روسی زبان میں ترجمہ کیا۔ہندی میں اسےکئی بار مختلف رسائل نے شامل ِاشاعت کیا۔← مزید پڑھیے
طاہر صرف پانچ سال کا تھا جب اس کے والد کی میت گاؤں پہنچی تھی۔ ۔تب اسے اتنی عقل اور سمجھ ہی نہیں تھی کہ ان پر کیا قیامت ٹوٹ چکی ہے۔ اس کے چھوٹے سے ذہن کے کسی گوشے← مزید پڑھیے
وہ پیدا ہوا تو شرافت اور نیک نامی کی ساری اُمیدیں اُس سے وابستہ کر لی گئیں تاکہ ۔۔۔فخر سے جیا جاسکے بچپن ایسے روز چھین لیا گیا جب ایک شرارت کے نام پر اُس کی پیٹھ سرخ دھبوں سے← مزید پڑھیے
وکٹر ہیوگو 26 فروری 1802 کو بسکاں میں پیدا ہوا ۔ وکٹر ہیوگو نے ایک بھرپور زندگی بسر کی وہ صرف ایک ناول نگار ہی نہیں شاعر ،ادیب ،ڈرامہ نگار اور سیاستدان بھی تھا۔ اس کا والد نپولین کی فوج← مزید پڑھیے
درویشوں کا ڈیرا اردومیں لکھنے والے دو ادیبوں کے درمیان لکھے گئے خطوں پر مشتمل اپنی نوعیت کی ایک منفرد کتاب ہے۔ کیونکہ رابعہ الرَبّاء اور سہیل خالد کے درمیان کوئی ایسا رشتہ نہیں ہے جسے کوئی نام دیا جا← مزید پڑھیے
“سوہنیے، تیرے نال بنیا کیہہ “؟ قریب سے گزرتے ایک اوباش نے آوازہ کسا ۔کچہری کی بھیڑ میں اس کی شکل نہ دیکھ پائی۔ “او دو گلاں ساڈے نال وی کر لے”یہ کوئی دوسرا کمینہ تھا اس قسم کے کتنے← مزید پڑھیے
چاروں اطراف ہُو کا عالم تھا۔ صبح کاذب کے اندھیرے اور کہر میں سب چھپا ہوا تھا۔ شلوار قمیض میں ملبوس عدنان کمبل میں ٹھٹھرتا ہوا ،کچھ ٹھوکریں کھا کر ایک جگہ پہنچ کر رک گیا۔ “مجھے معاف کر دو۔← مزید پڑھیے
ملک میں وباپھیلی تو نوجوانوں کاایک طبقہ اُٹھا اور انہوں نے غریب اور لاچار دیہاڑی دار مزدوروں کی مدد کی ٹھانی اور عطیات کے لئے گھر گھر پہنچے۔ حکومتِ وقت نے دیکھا تو اُن کی غیرت بھی جاگ گئی اور← مزید پڑھیے
آنسو بہا بہا کر آنکھیں سوکھ گئی تھیں۔ کھارے پانی کا ایک ریلا کئی دنوں سے اُمڈا چلا آ رہا تھا، لیکن آخری انتم ایک دن اور ایک رات تو قیامت کاطوفان اٹھا تھا اور میں ہسپتال میں انٹینسو کیئر← مزید پڑھیے
جنت کے سات درجے ہیں نا، میں نے فرشتے سے پوچھا ۔ فرشتےنے جواب دیا ۔ ہاں میں نے پھر پوچھا۔ کیا میں کسی اعلئ یا ادنئ درجے کی صرف سیر کرنے جا سکتا ہوں؟ فرشتہ بولا۔ یہ جنت ہے← مزید پڑھیے
اور جب خلیج بنگال کی مون سون کلکتے پر چھاجوں پر پانی برسا رہی تھیں۔ دھرم تلے میں واقع پیل پایوں اور خوبصورت جھلیموں والے اُس وسیع وعریض گھر کے آراستہ پیراستہ کمرے میں اُسے انگوٹھی پہناتے ہوئے اُسے ایک← مزید پڑھیے
ابا جی کو میرے میٹرک کے امتحان میں پاس ہونے کی خوشی ضرور ہوئی مگر اتنی نہیں جتنی ہونی چاہیے تھی۔ انہوں نے میری خواہش کے برعکس مجھے شہر کالج بھیجنے کے بجائے بڑے بھائی کے ساتھ آڑھت پر بھیج← مزید پڑھیے
ایک دن اس نے حد درجہ وارفتگی میں محبت جتانے کو مجھ سے کہا سُن۔۔ ابھی اس لمحہء موجود میں کرہ ارض پر بسنے والی سب ہی لڑکیوں کی قسم تیرے ہاتھوں کی حدت سے لپٹی ہوئی چوڑیوں کی قسم← مزید پڑھیے
تُم۔۔۔ ہمیشہ ہی کہتے ہو میں لکھتی ہوں تو لفظوں سے ٹِیس اٹھتی ہے ہر لفظ درد کی چادر اوڑھ کر اپنے نقطے گنوا کر زِیر زَبر شَد مَد نوچ پھیکتا ہے الفاظ اپنے مطلب سے بیگانے ہوتے چلے جاتے← مزید پڑھیے
دوسرے دن ہم بڑے خوش تھے کہ میاں جی ہمارے ساتھ شاپنگ پر جانے کو تیار ہوگئے۔ سچ کہیں تو ہم کو شاپنگ سے سخت چڑ ہے۔ یہ جان کر شاید کچھ لوگوں کو حیرت ہو مگر باخدا ہمارا دماغ← مزید پڑھیے
جب آپ نے ہر کام چھوڑ دیا ہے تو داڑھی بھی چھوڑلیں۔ کسی نے مجھ سے پوچھا ” تم نے پوری داڑھی کیوں نہیں چھوڑی ، فرنچ کٹ کیوں؟“ میں نے جواب دیا ”کوئی کام تو ہو فرصت میں← مزید پڑھیے
وہ پورے ایک دن کا خواب تھا۔وہ شخص، خواب جیسا،بالکل اس کے سامنے کھڑا تھا، اپنے پو رے قد اور چمکتے چہرے کے ساتھ، اس کی پوری شخصیت پر متانت کی بڑی واضح چھاپ تھی۔ “تو یہ ہے وہ؟” لڑکی← مزید پڑھیے
عجب وبا پھیلی تھی۔ کچھ علاقے بالکل متاثر نہ ہوئے تھے، مگر بعض علاقوں میں ناقابلِ بیان دہشت کا عالم تھا۔ ایسا وائرس پھیلا تھا کہ لوگ بات کرتے تھے اور بونے ہوجاتے تھے۔ مگر ایک عجب بات تھی کہ← مزید پڑھیے
1۔ بشیراں، نزیراں گروپ: یہ عورتیں چٹی اَن پڑھ سے لے کر پانچ چھ جماعت پاس ہوتی ہیں ۔ انہیں دنیا کے حالات اور کرونا، شرونا کچھ معلوم نہیں ہوتا ان کی دنیا شوہر بچے اور گھر ہوتا ہے۔ یہ← مزید پڑھیے
مرزا اطہر بیگ کا ناول غلام باغ ایک عجیب سی تکرار اور بعض جگہ ہذیان کے غیر ضروری بیان کے باوجود ایک زبردست ناول ہے اس ناول کو اردو کے شاہکار ناولوں میں جگہ نہ بھی دی جائے تو بھی← مزید پڑھیے