خوف کی زبان پر اُگی علامتیں۔۔احمد نعیم

وہ پیدا ہوا
تو شرافت اور نیک نامی کی ساری اُمیدیں
اُس سے وابستہ کر لی گئیں
تاکہ ۔۔۔فخر سے جیا جاسکے
بچپن ایسے  روز چھین لیا گیا
جب ایک شرارت کے نام پر
اُس کی پیٹھ سرخ دھبوں سے چمک اُٹھی تھی
اور اُسے
پیروں سے روند کر
تاریک گوشے میں ڈال دیا گیا
تنہائی اور مایوسی نے نفرت ایجاد کی
اور شرارت کا گلاگھونٹ دیا
کھلونوں کی خواہش نے خواب جنم دیا
صرف ایک خواب ۔۔
جو اُس کے باپ کی موت پر ختم ہوتا تھا
مگر یہ اُس کے بس کی بات نہیں تھی
(اُس کے بس میں تو ایک قلم آیا تھا)
وہ بولتا لڑکا سمٹ گیا
اور اپنے بیانیے  کا قتل کر ڈالا
تب اُس کی گونگی زبان نے
بےڈھنگی
بے تکی
علامتیں ایجاد کیں
اپنے اظہار کے لئے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply