کچی سڑک۔۔طارق اقبال

طاہر صرف پانچ سال کا تھا جب اس کے والد کی میت گاؤں پہنچی تھی۔ ۔تب اسے اتنی عقل اور سمجھ ہی نہیں تھی کہ ان پر کیا قیامت ٹوٹ چکی ہے۔
اس کے چھوٹے سے ذہن کے کسی گوشے میں اس وقت کی اتنی سی یاد ہی نقش ہو سکی کہ وہ گھر کے سامنے کھیلتے بچوں کے ساتھ گاڑی کے پیچھے بھاگ رہا تھا تو، اسے گاؤں کی غریب عورت ماسی جواہراں نے پکڑ لیا، ڈانٹ کر کہا کہ گھر میں باپ کی میت پڑی ہے اور تم بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہو۔ ماسی جواہراں نے اسے لے جا کر باپ کی میت کے سرہانے کھڑا کر دیا، جہاں اس کی ماں پورے گاؤں کی عورتوں کے ساتھ پاگلوں کی طرح رو رہی تھی اور کہا کہ تو بھی رو۔۔  تب اسے بالکل سمجھ نہیں آئی تھی کہ اس کی ماں پاگلوں کی طرح کیوں رو رہی ہے اور وہ کس لیے روئے۔۔
اس وقت اس کے نزدیک اہم چیز وہ گاڑیاں تھیں جو اس کے گاؤں کی کچی سڑک پر اس کے باپ کی فوتگی پر آنے والوں کو لے کر پہنچ رہی تھیں، ایک بچے کی ان میں دلچسپی کیسے نہ ہوتی ،جس نے پہلی دفعہ  گاڑی ہی چند ماہ پہلے دیکھی تھی، جب اس کے گاؤں میں کچی سڑک کا افتتاح کرنے ضلع کا ڈی سی آیا تھا۔

وہ پندرہ میل کچی سڑک اہل علاقہ نے اپنی مدد آپ کے تحت بیس ہزار روپے کی خطیر رقم چندہ کر کے بنوائی تھی اور ڈی سی صاحب نے خصوصی طور پر حکومت کی طرف سے سرکاری بلڈوزر مہیا کیا تھا۔ سڑک کا افتتاح کرنے ڈی سی  صاحب آئے ،تو اہل علاقہ نے باقاعدہ جشن کا اہتمام کیا تھا۔

جب وہ چیزوں کو سمجھنے کے قابل ہوا تو لوگوں سے سنتا تھا کہ ڈی سی  صاحب نے سٹیج پر آ کر سب سے پہلے اس کے باپ کا نام لے کر کہا تھا کہ روز جب میں دفتر پہنچتا تھا تو اس کا خط میز پر میرا انتظار کر رہا ہوتا تھا۔۔ پھر چند ماہ بعد اسی کچی سڑک پر گاڑی میں اس کے باپ کی میت آئی تو لوگ افسوس کرتے ہوئے کہتے کہ کیا اس نےاس لیے سڑک بنوانے کے لیے دن رات ایک کر دیا تھا۔

زندگی کا پہیہ تو چلتا رہتا ہے اب بِنا باپ کے طاہر کی زندگی بھی بھاگ پڑی۔وراثت کی زمینوں سے آنے والے حصے پر ان کی گزر بسر ہونے لگی۔ اگرچہ اس مشکل وقت میں اس کے چچاؤں نے ان کا ہر طرح سے خیال رکھا لیکن اس وقت ان کا حقیقی سہارا ان کی نانی بنی، جو  اپنے بھائی کے گھر سے مستقل طور پر  ان کے پاس آ گئیں۔ اور اس نے ان بہن بھائیوں کے جوان ہونے تک ان کو باپ کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔
طاہر کی نانی بھی عجیب عورت تھی، اپنے دو  جواں سال  بیٹوں کی ناگہانی موت کے بعد جب طاہر کے نانا جیل سے لمبی قید سے رہا ہو کر آئے تو اس نے خود رشتہ مانگ کر اپنے خاوند کی نرینہ اولاد کی خاطر دھوم دھام سے دوسری شادی کروائی تھی۔
جب یہ حادثہ ہوا تب وہ  گھریلو ناچاقی کی بِنا پر بھائی کے پاس رہ رہی تھی۔

طاہر کا بچپن نانی سے قصے کہانیاں سنتے گزرا۔ اس کی نانی کمال کی قصہ گو تھیں۔جب بھی وہ کوئی قصہ سناتیں تو ایسا سماں باندھ دیتی کہ سننے والے پر سحر سا طاری ہو جاتا۔یہ الگ بات ہے کہ اس کا چھوٹا سا گاؤں ہی سحرانگیز کہانیاں اور داستانیں اپنے اندر سموئے ہوئے تھا۔

طاہر اکثر سکول سے واپس آتا تو دیکھتا کہ اس کی ماں چکی پیستے ہوئے رو  رہی ہوتیں اور ساتھ ساتھ دکھ بھرے گیت بھی گنگناتی رہتیں۔
وہ ماں کو روتے دیکھ کر بہت دکھی ہوتا اور کہتا کہ ماں تو نہ رویا کر   ۔ ا س کی ماں کہتی کہ بیٹا روؤں گی نہیں تو مر جاؤں گی اور مجھے تم  لوگوں کے لیے جینا ہے ،تو رونا تو پڑے گا۔۔

وہ جب بھی نانی سے کہتا کہ کہ ماں سے کہو نہ روئے تو نانی اسے کوئی قصہ کہانی سنانے بیٹھ جاتی۔وہ ان قصوں میں اسے سناتی کہ اس کا نانا کیا کارنامے سر انجام دیتا تھا، اس نے دو باقاعدہ شادیوں کے علاوہ چار پانچ اور نکاح کیے تھے، اپنے کارناموں کی وجہ سے آدھی سے زیادہ عمر جیل میں گزار دی تھی۔

جب طاہر کو وہ دادا کے قصے سناتی تو وہ حیران ہوتا کہ نانا کے مقابلے میں دادا بالکل مختلف شخصیت کے مالک تھے اور انگریزوں کے دور میں دس جماعت پڑھے ہوئے تھے۔ باقاعدہ دینی تعلیم حاصل نہ کرنے کے باوجود مولوی ان کے نام کا حصہ بن گیا تھا۔حکمت بھی کرتے اور پٹواریوں والا کام بھی۔ جب بھی کوئی ان کے پاس آتا اس کے ساتھ مریض دیکھنے یا زمینوں کا “بنا” نکالنے چل پڑتے، وہیں سے کوئی ان کو اور آگے لے جاتا،کئی کئی دنوں بعد گھر لوٹتے۔ ۔.

اسے نانی سناتی کہ کیسے اس وقت کے مشہور ڈاکو اور اس کے گاؤں والوں میں مقابلے ہوئے تھے، کیسے اس ڈاکو نے رات کو گاؤں میں آکر مخالفین کے گھر کو آگ لگائی دی تھی، کیسے انھوں نے اس کا مقابلہ کیا تھا اور پھر کیسے صبح گاؤں میں موجود مخالفین کو جلتی آگ میں پھینکا گیا تھا۔۔ ۔اسی قیامت خیز دن طاہر کا جواں سال ماموں بھی گولی کا نشانہ بنا تھا۔
اس کا دوسرا ماموں اس سے کچھ عرصہ پہلے چند دن بیمار رہنے کے بعد اس وقت فوت ہو گیا جب وہ دس جماعتیں پاس کرنے کے بعد سکول ماسٹر کا کورس مکمل کر کے گاؤں پہنچا تھا۔ ۔اس کی نانی کہتیں کہ اسے کسی کی نظر کھا گئی تھی۔

طاہر اکثر نانی سے فرمائش کر کے وہ کہانی سنتا جب وہ صبح صبح گھر میں کمرے کے دروازے کے سامنے بیٹھی لسّی بنا رہی تھی اور اس کا نانا کمرے میں بغیر قمیض کے سویا ہوا تھا کہ پولیس کاچھاپہ پڑ گیا۔ جیسے ہی سپاہی نے کمرے میں گھسنے کی کوشش کی تو اس نے لسی کے ڈولے سے مدھانی نکال کر آگے کر دی۔اب پولیس والا جس طرف ہوتا وہ مدھانی اس کے آگے کر دیتی اور اس کشمکش میں اس کا نانا دروازے سے نکل کر بھاگنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔جیسے ہی وہ گھر سے بھاگ کر باہر نکلا تو باہر کھڑے سپاہی نے اسے پکڑنے کی کوشش کی اور اس نے بچنے کے لیے کھیت کے ساتھ لگی کانٹوں کی باڑ سے چھلانگ لگا دی۔اس نے چادر باندھی ہوئی تھی اور سپاہی کا ہاتھ چادر کو پڑ چکا تھا۔ چادر سپاہی کے ہاتھ میں رہ گئی اور وہ الف ننگا بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔۔ پولیس والوں سے دور جا کر ناچنے لگا اور زور زور سے آواز کسنے لگا کہ ہمت ہے تو پکڑ لو ۔اس دن صبح صبح سارے گاؤں نے یہ تماشا دیکھا تھا۔

طاہر کو اکثر محسوس ہوتا کہ نانی باقی بہن بھائیوں کی نسبت اسے زیادہ پیار کرتی ہے۔ جھگڑالو ہونے کی وجہ سے جب وہ بہن بھائیوں سے لڑتا اور امی سے مار کھاتا تو نانی اسے پیار کرتی اور چپ کراتی۔گاؤں میں ہر شادی غمی پر اسے ساتھ لے جاتی۔

ان کے چھوٹے سےگاؤں میں صرف پرائمری سکول تھا۔  نانی نے ان کو پڑھانے کابیڑہ  اٹھایا تو پندرہ میل دور قصبے  میں ان کے ساتھ مقیم رہیں، جہاں بہن بھائیوں نے باری باری تعلیم مکمل کی۔وہ سب کو فخر سے بتاتیں کہ گاؤں میں میرے نواسوں نے ہی سب سے پہلے بارہ جماعتیں سائنس کے ساتھ پڑھی ہیں، یہ بتا کر تین بار زمین پر تھوکتی تھیں کہ نظر نہ لگ جائے۔یہ بھی نانی کی اپنی ہی سائنس تھی۔

کچھ عرصہ بعد طاہر کی ہردلعزیز نانی کو ایک نئی مصیبت نے آ گھیرا۔اس کے نیچے والے ہونٹ پر ایک دانہ نکل آیا۔ہر قسم کا دستیاب علاج اور ٹوٹکا کرنے کے باوجود وہ ٹھیک نہیں ہوا۔ اگرچہ درد نہیں تھا لیکن رفتہ رفتہ وہ دانہ بڑھنے لگا۔

کسی نے مشورہ دیا کہ نشتر ہسپتال ملتان میں اس کا علاج ممکن ہے تو وہاں جا کر داخل کروایا گیا اور ڈاکٹروں نے لیبارٹری ٹیسٹ کے لیے تھوڑا سا دانہ کاٹ  کر لیبارٹری ٹیسٹ کیا، لیکن کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے اور بغیر آپریشن کیے دوائیں دے کر ڈسچارج کر دیا۔طاہر اس دوران بھی نانی کے ساتھ ہی رہا۔

اب وہ بڑا ہو چکا تھا اور اس نے گھر کی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانا تھا۔نوکری ملی تو گھر سے ہزار میل دور کراچی میں۔سب کی یادیں لیے کراچی آ گیا،جو اسے الگ دنیا لگی۔گھر میں رابطے کا واحد ذریعہ خط تھا جو باقاعدگی سے لکھتا اور جواب کا شدت سے انتظار کرتا۔اس دوران ملک میں کینسر کا ہسپتال بنا اور بھائی نے اسے خط کے ذریعے اطلاع دی کہ نانی کو لاہور کینسر ہسپتال لے کر جا رہے ہیں۔کچھ عرصے بعد پھر خط کے ذریعے بری خبر ملی کہ کینسر ہسپتال میں چیک کروانے کے بعد انکشاف ہوا کہ نانی کو گلے کا کینسر ہے جو اب تیسرے سٹیج پر پہنچ چکا ہے۔ کہا گیا ہے کہ علاج اب ممکن نہیں۔

طاہراب فوراً گھر جانا چاہتا تھا لیکن اس کو چھٹی نہیں مل رہی تھی اور کہا گیا کہ کچھ عرصہ کے بعد چھٹی ملے گی۔مجبوراً  چپ ہو رہا ۔

کچھ دنوں کے بعد  طاہرکو جب نانی کے فوت ہونے کی اطلاع ملی تو اس کی نانی کو فوت ہوئے دو دن گزر چکے تھے۔اس کے لیے اب دنیا اندھیر ہو چکی تھی ۔اسی وقت گھر کے لئے روانہ ہوا۔ سارے رستے یہی سوچتا رہا کہ اب جب نانی ہی نہیں رہی تو میں جا کر کیا کروں گا۔دوسرے دن وہ گھر پہنچا تو اس کے لئے تو دنیا ہی بےمعنی ہوگئی۔اس کی ماں نے اسے گلے لگانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اب کیا لینے آئے ہو جس کے لیے آئے ہو وہ تو قبر میں جا چکی۔اس کی ماں اسے بار بار کہتی کہ مرتے وقت بھی اس کی زبان پر تمہارا نام تھا- جب بھی ہوش میں آتی تو کہتی کہ “آ وے میرا طاہر میں بہوں وراگی آں”  پھر کہتی کہ وہ نہیں آئے گا ،جب آئے تو اسے کہنا کہ نہ میں تیری ماں نہ تو میرا بیٹا۔

طاہر اب بھی ماں کے سامنے نانی کا ذکر کرنے سے کتراتا ہے اور اگر ذکر ہو بھی جائے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ وہاں سے نکل جائے کیونکہ اب بھی اس کی ماں وہی الفاظ دہرا دیتی ہے اور اسے لگتا ہے جیسے اس کا کلیجہ پھٹ جائے گا۔

وہ کسی کے سامنے کبھی نہیں روتا یہاں تک کہ نانی کی فوتگی پر گھر پہنچ کر بھی نہیں رویا تھا لیکن جب بھی کہیں اس کی نانی کا ذکر ہو جائے تو وہ رات کو سو نہیں پاتا۔وہ رات کو چپکے چپکے داڑھی اور تکیہ بھگو دیتا ہے

اسے ایسے لگتا ہے جیسے نانی کی آواز آ رہی ہو

Advertisements
julia rana solicitors

“آ وے میرا طاہر میں بہوں وراگی آں”۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply