ہم اور ثقافت(دوسری،آخری قسط)۔۔نجم السحر

دوسرے دن ہم بڑے خوش تھے کہ میاں جی ہمارے ساتھ شاپنگ پر جانے کو تیار ہوگئے۔ سچ کہیں تو ہم کو شاپنگ سے سخت چڑ ہے۔ یہ جان کر شاید کچھ لوگوں کو حیرت ہو مگر باخدا ہمارا دماغ بازار جاتے ہی بالکل بند ہو جاتا ہے۔ اللہ بھلا کرے شروع سے ہی ہماری شاپنگ ہماری پھپھو کرواتی رہی ہیں یا ہمارے پاپا اب یہ ڈیپارٹمنٹ ہمارے سرتاج نے سنبھال لیا ہے۔ وہ ہم کو جانی پہچانی برنڈز کی ریڈی میٹ شاپ پر لے جاتے ہیں اور وہاں کی سیلز گرل جو لباس بھی ہم کو بیچنے میں کامیاب ہوجائے ہم وہ لے کر گھر آ جاتے ہیں۔ مگر اس بار معاملہ کچھ الگ تھا۔ ہم کو جو چیز چاہیے تھی وہ ریڈیمیٹ نہیں مل سکتی تھی۔ سو پورا طارق روڈ گھومنے کے بعد جب ہم دونوں تھک کر چور ہو گئے۔ مگر ہم کوئی بھی چیز پسند کرنے میں ناکام رہے۔ تو یہ ہم کو لے کر ایک بوتیک میں گھس گئے اور خود وہاں پڑے ایک بڑے سے صوفے پر دھم سے بیٹھ گئے اور کہا۔
” اب بس۔۔۔ میرے اندر چلنے کی اور سکت باقی نہیں ۔۔۔۔ سو جو لینا ہے یہیں سے لے لو ورنہ واپس گھر لے جاؤں گا اور دعا کی شادی پر تم کوئی پرانا جوڑا پہنوگی۔۔۔ ”
ہم نے ان کی بات سن کر برا سا منہ بنایا ابھی ہم کچھ کہنے ہی والے تھے کہ ایک سیلز مین نے ہم دونوں کو دکان میں داخل ہوتے دیکھ کر پوچھا۔ ” جی سر ۔۔۔ کیا خدمت کروں آپ کی۔۔۔۔۔۔؟ ”
انِہوں نے کہا: ” یار مجھے ایک گلاس ٹھنڈا پانی منگوا دوں اور اِن کو جو چاہیے وہ دے دو۔۔۔۔ ”

ہم اور ثقافت(قسط1)۔۔نجم السحر
ہمارے صاحب نے ہم کو سیلز مین کے اوپر ایسے چھوڑا جیسے برگر خواتین اپنے بچے مارکیٹ میں جاکر کسی پلے گروپ میں نینی کے اوپر ڈال کر جان چھڑا لیتی ہیں۔۔۔۔
” یس میم کیا دکھاوں آپ کو ۔۔۔۔ ؟ ” سیلز مین ہماری طرف متوجہ ہو کر بولا۔
” قریبی رشتہ داروں میں شادی ہے تو ہمیں بہت اچھا سا کام والا غرارہ سوٹ سلوانا ہے۔” ہم نے کہا۔
سیلز مین بےانتہا ماہر تھا۔ ذرا سی دیر میں ہی ہماری پسند ناپسند بھانپ گیا۔ اور ہمیں ہماری قمیض کے لیے انتہائی نفیس کام اور غرارے کے لیے بے انتہا پیارا بنارسی کپڑا پسند کروانے میں کامیاب ہوگیا اور پوچھا ” باجی آپ کو کیا بنوانا ہے غرارہ پینٹس یا نارمل غرارہ ۔۔۔۔ ”
ہم نے عرض کی ” ہم کو سچی مچی کا غرارہ سلوانا ہے جو ہماری دادی پردادی پہنتی تھیں وہ کتنے کپڑے میں بن جائے گا۔۔۔۔؟ ”
” باجی غرارہ پینٹس کے لیے تو پانچ میٹر کپڑا کافی ہوتا ہے۔ مگر جو چیز آپ مانگ رہی ہیں اس میں تو پورا سات میٹر کپڑا لگے گا۔۔۔۔۔” سیلز مین نے کہا۔
” ٹھیک ہے بل کتنا بنے گا۔۔۔۔ ؟ ”
” باجی کپڑے، کام اور جوڑے کی سلائی کو ملا کر صرف تیس ہزار روپے۔۔۔۔۔”
” دماغ تو ٹھیک ہے تمہارا ایک جوڑے کی قیمت پوچھی تمہاری دکان کی نہیں۔۔۔۔۔۔!!! ” ہمارے میاں صاحب تقریباً چیخ پڑے ۔۔۔۔
” سر باجی نے چیز ایسی پسند کی ہے جو میری دکان میں سب سے بہترین ہے اوپر سے غرارے کا جو اسٹائل سلوانا چاہ رہیں اس میں کپڑا بھی بہت لگتا ہے۔۔۔۔” سیلز مین نے خالص کاروباری انداز میں کہا

” ہاں تو اور کیا ۔۔۔ ہم اپنی ثقافت کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتے ہیں نا۔ ارے ہمارے پاس رہ ہی کیا گیا ہے۔ بزرگوں کی تمام روایات کو ہم بھولتے جا رہے ہیں ہم کو انہیں زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔۔ ” سیلز مین نے ہمیں تقریر کے موڈ میں دیکھا تو بیچ میں ہماری بات کاٹی اور بولا۔
” ہاں تو بس ٹھیک ہے نہ تو کاٹ دو سر سات میٹر کپڑا۔۔۔۔۔”
” کاٹ دے میرا بھائی ۔۔۔۔ تو کاٹ دے ۔۔۔۔ بس مجھے جلدی فارغ کر دے ۔۔۔۔۔ ” انہوں نے فوراً ہی ہتھیار ڈال دیئے۔
” باجی ناپ کیسے دیں گی آپ ۔۔۔۔؟ ” سیلز مین نے مطمئن ہو کر پوچھا۔
” میں کل آفس جاتے ہوئے ان کے ناپ کا ایک جوڑا آپ کی بوتیک پر ڈراپ کر جاؤں گا۔۔۔۔۔”

شکر یہ مرحلہ تو حل ہوا۔ گھر آکر ہم بہت خوش تھے۔ ایسا لگا جیسے کوئی بہت بڑا کارنامہ انجام دے کر آئے ہیں۔ آج کے بعد ہمارے آباؤ اجداد کا سر فخر سے بلند ہوجائے گا کہ ان کی نسل میں کوئی تو ہے جو ان کی روایات اور ثقافت کو بچانے کے لئے کوشاں ہے۔ شادی سے صرف دو دن قبل ہمارا غرارہ سوٹ سِل کر آگیا۔ مگر ہم مہندی اور مایوں کے فنکشنز میں اتنا مصروف تھے کہ غرارے کو پہن کر چیک کرنے کی نوبت ہی نہ آئی بس اتنا ہم نے دیکھ لیا تھا کہ سوٹ بڑا اچھا سیا ہے درزی نے اور کام بھی بے انتہا نفیس لگ رہا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ بھی ہم نے چیک نہیں کیا شادی کا دن آگیا اور ہم نے خوشی خوشی تیاریاں شروع کیں فٹافٹ اپنا سوٹ باہر نکالا اور اس کو دیکھتے ہی منہ سے نکلا ۔۔۔۔
” ہائے اللہ اس میں تو کمر بند ہے ۔۔۔۔ ”
” جی بیگم اِطلاعاً عرض ہے کہ آپ کی ثقافت سے الاسٹک، ہُک یا بیلٹ کا دور دور تک کوئی واسطہ نہ تھا۔۔۔۔۔” پھر انتہائی چھچھورے پن سے بولے۔ ” مدد درکار ہو تو مانگنے میں شرمائیے گا نہیں ۔۔۔۔ ”
” ہنہہ ۔۔۔!! خاطر جمع رکھیے۔ بچی نہیں ہیں ہم ۔۔۔۔ ” ہم پاؤں پٹاخ کر وہاں سے چلے گئے۔
اب حالت یہ تھی کہ ہم خود کو اس سات میٹر کے گھیردار غرارے میں گھسانے کی کوشش کر رہے تھے۔ غرارہ پہنتے وقت تین دفع لڑکھڑائے اور دو مرتبہ بچوں کی طرح غلطی سے ایک ہی پائنچے میں دونوں پاؤں ڈال دیئے۔
” ہائے اللہ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کس جنجال میں پھنسا لیا ہم نے اپنے آپ کو۔۔۔۔۔ ہم پر بھی کبھی کبھی پاگل پن کا بھوت سوار ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔ ہمارے آباء کی روح اس وقت اپنی نئی نسل کی نا اہلی دیکھتے ہوئے کتنا تڑپتی ہوگئی ۔۔۔۔۔ لیکن ہمارا بھی کیا قصور اس کو پہننا، پہن کے سنبھالنا اس قدر آسان تو نہیں۔۔۔ سچی قسم سے تھوڑا سا کپڑا اس میں اور شامل کیا جاتا تو با آسانی شامیانہ بن سکتا تھا۔۔۔ اسی لئے تو پرکھوں کی اس ثقافت کو نئی نسل نے ترک کردیا کہ یہ ثقافت جان اور جیب دونوں پر بے حد بھاری تھی ۔۔۔۔ ” ہم خود کو کوسنے شروع ہوئے اور پھر خود ہی خود کو اپنی نااہلی کی صفائیاں دینے لگے۔
بہرحال اس وقت تو یہ غرارہ پہننا ہی پڑے گا کہ واپسی کی تمام کشتیاں ہم جوش وخروش میں خود پھونک آئے تھے۔ دوبارہ ہمت جمع کی اور پھر غرارے کا غور سے مشاہدہ کیا۔ اس کے پورا جغرافیہ کو دیکھنے کے بعد احساس ہوا کہ، بنا ایک واضح روٹ میپ بنائے ہمارا اس میں گھس جانا تقریباً ناممکن ہے۔ کیونکہ یہ شرارہ تو تھا نہیں جس کو پیروں کی جانب سے پہننا دشوار لگے تو سر کی جانب سے پہن لیا جائے۔
ہمارے سرتاج نے ہم کو اس قدر مشقت میں دیکھا تو فرماتے ہیں۔
” بیگم مجھے آپ کی نیک نیتی پر کوئی شبہ نہیں ہے۔ لیکن جہاں سے میں دیکھ رہا ہوں وہاں سے آپ مجھے دادی پردادی کی روایات کو جلا بخشنے سے زیادہ ان روایات کی والدہ ماجدہ اور ہمشیرہ محترمہ کرتی ہوئی زیادہ نظر آرہی ہیں ۔۔۔”
” ہزار دفعہ کہا ہے ہمارے ساتھ یہ اردو اردو مت کھیلا کیجیے ۔۔۔” ہم نے پھاڑ کھانے کے انداز میں جواب دیا۔

آخرکار ہم اپنا غرارہ سوٹ پہن کر تیار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ تو فخر سے میاں کو دیکھ کر اٹھلاتے ہوئے پوچھا۔ ” کیسے لگ رہے ہم لگ رہے ہیں۔۔۔ ”
وہ ہمارے دائیں کان کی جھمکی کھینچ کر مسکراتے ہوئے بولے۔ ” ہم لوگ بہت لیٹ ہورہے ہیں ورنہ سچ میں ضرور بتاتا۔۔۔ ”
” افو بھئی ۔۔۔۔ پیچھے ہٹیں ۔۔۔۔ ”
ہم نے شرماتے ہوئے یہ جملہ کہا اور ان سے ایک محفوظ فاصلے پر جانے کی کوشش ہی کی تھی کہ غرارہ ہماری ہیلز میں آکے الجھ گیا اور گرتے گرتے بچے۔ وہ تو شکر ہے کہ یہ قریب ہی کھڑے تھے تو بچت ہوگی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جیسے تیسے کر کے ہم لوگ شادی ہال پہنچے۔ گاڑی سے اتر کر ہم نے گیٹ بند کیا۔ ابھی دو قدم بھی نا چلے تھے کہ چر سے آواز آئی۔ گھوم کر دیکھا تو سمجھ آیا کے ہم نے اپنے نئے جوڑے کا دوپٹہ گاڑی کے دروازے میں ہی پھنسا کر ہلکا سا پھاڑ لیا ہے۔
” ہائے اللہ ۔۔۔۔!! ”
کہہ کر اپنا پھنسا ہوا دوپٹہ نکالنے کے لیے دروازہ کھولا ہی تھا کہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہوئے میاں جی سر پیٹ کر بولے۔
” اللہ بخش اماں مرحوم کو۔۔۔۔۔ بالکل صحیح کہا کرتی تھیں۔ ہماری بہو ہانڈی بنائے اور جلائے نہیں یا نیا نویلا سوٹ پہنے اور اس کو پھاڑے بغیر گھر سلامت لے آئے تو یہ ممکن ہی نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔”
” اُف ” مارے غم اور غصے کے ہم نے گاڑی کا دروازہ ڈھڑام سے بند کیا ۔۔۔۔ اور شادی ہال میں داخل ہوگئے۔ پورا وقت تمام محفل ہم عجب سٹپائے بوکھلائے اور بولائے بولائے ہی پھرے ۔۔۔ کئی دفعہ گرتے گرتے بچے یہاں تک کہ ایک بے تکلف دوست نے ہمارے سرتاج سے پوچھ ہی لیا۔ ” یار یہ بھابھی کو غرارہ پہن نے کا مشورہ کس نے دیا تھا۔”
اس پر ہنستے ہوئے ہمارے سرتاج بولے۔ “شکر کرو یار کے صرف غرارہ ہی پہنا ہے۔ ان پہ تو ثقافت کو زندہ اور پائندہ کرنے کا اتنا بھوت سوار ہوا تھا کہ یہ تو پاندان اور اُگال بھی ساتھ لے کر چلنے کو تیار تھیں۔ میں نے سمجھایا ۔۔۔۔ بیگم ایک وقت میں اتنی ہی ثقافت اختیار کرو جتنی سنبھال سکو ۔۔۔۔۔۔ ”
ان کی یہ بات سن کر سب لوگ ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہو گئے ۔۔۔ اور ہمارا جی کیا کہ سب کے سامنے ان سے جھگڑا کر لیں مگر اس وقت ہم اس قدر بوکھلائے اور کھسیائے ہوئے تھے۔ کہ جھگڑا کرنے کی بھی ہمت نہیں تھی۔
جیسے تیسے شادی کی تقریب ختم ہوئی اور ہم لوٹ کر گھر آئے ۔ یقین مانئے غرارہ تبدیل کرکے ایسے مطمئن ہوئے مانو کوئی بہت بھاری بوجھ اتر گیا ہوں۔ دعا کی شادی کو ایک سال ہونے کو آیا ہے وہ دن ہے اور آج کا دن اس غرارے کو ہم نے دوبارہ ہاتھ نہیں لگایا۔ آج تک پورے خاندان میں ہمارا اور ہمارے غرارے کا مذاق اڑاتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply