ہم اور ثقافت(قسط1)۔۔نجم السحر

ہمارے دماغ میں، جو کہ  خرافات کے لیے ایک پانچ ستارہ ہوٹل ہے کئی دنوں سے کھلبلی مچی ہوئی تھی۔
حالانکہ ایسا ہرگز بھی نہیں تھا کہ ہمارے تمام کام مکمل ہوچکے ہوں اور کوئی بھی کام زیرِ التوا نہیں ہو۔
بچوں کے جوتے آڑھے ترچھے گھر میں جابجا پڑے تھے۔ فریزر میں منوں کے حساب سے برف جمی ہوئی تھی اور کپڑوں کے تین بنڈل الگ الگ چھوٹے کمرے کے پلنگ پر دھرے تھے۔ ایک دُھلنے والے ،دوسرا جو دھل تو گئے تھے مگر ان کو ابھی استری کرنی باقی ہے اور تیسرا بنڈل تھا ان کپڑوں کا جن کو فقط تہہ کرکے الماریوں میں سلیقے سے رکھنا تھا۔ ویسے تو ہمارے سرتاج کے مطابق ” پیاری بیگم صاحبہ آپ کوئی بھی یا کچھ بھی کام کر لیں یا کرنے پر راضی ہو جائیں تو سلیقے کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے”۔
( آپس کی بات ہے حضرت ہرگز ہرگز اس انداز میں ہم سے مخاطب نہیں ہوتے یہ تو ہماری دلی خواہش ہے کے وہ ہم کو اس انداز سے مخاطب کریں اور اپنی یہ خواہش ہم اپنے بلاگ کے ذریعے پوری کر رہے ہیں) ۔

اب ہم بھی کیا کریں۔ ہم نے زندگی ہمیشہ اپنے اصولوں پر گزاری ہے ۔۔۔۔ سر اٹھا کر ، جن کاموں میں ہماری دلچسپی نہ  ہو، یعنی پڑھائی سے لے کر کھانا پکانے اور صفائی تک، ہم نے ان کاموں کو کرنے میں کبھی اپنا وقت برباد نہیں کیا ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ اس کے نتیجے میں کئی بار ہماری کمر کو ہماری اماں کی چپل سے دھواں دار سلامیاں ملتی رہی ہیں کہ وہ بھی کچھ کم اُصولی خاتون نہیں ہیں۔ اوپر سے ہماری حرکات سے زیادہ ہمارے مستقبل کا خوف ان کو عارضہ فشارِ خون میں مبتلا کر چکا تھا۔ دو اصول پسندوں کی لڑائی میں بالآخر اماں نے ہی اپنے ہتھیار یہ کہہ کے ڈال دیئے کہ بیٹا ” لینا دینا مجھ میں نہیں ،ہنر پیشہ تجھ میں نہیں ۔۔۔ جیپ چلائیو روٹی کھائیو ۔۔۔ ”
پھر ہماری رخصتی کے وقت اپنی سمدھن کو روتے  ہوئے کہا کہ ” اے بہن اب آپ کے حوالے۔ ”
اللہ بخشے ہماری ساس انتہائی معصوم خاتون تھیں۔ جب تک ان کو ہماری والدہ کا یہ جملہ سمجھ آیا۔ تب تک ریفنڈ کی معیاد گزر چکی تھی۔

خیر بات ہو رہی تھی دماغ میں مچی کھلبلی کی اور کہاں سے کہاں نکل گئی۔
ہماری اکثر دلچسپیوں کو گھر والے شوشا، یار دوست کیڑا اور ہمارے سرتاج دورہ پڑنا کہتے ہیں۔
اس موئی فیس بک کے دانشوروں میں رہ رہ کر ہم بھی اُس بیماری سے شدید متاثر ہوئے تھے، جس کو پڑی لکڑی کہتے ہیں۔ اِس بیماری میں مبتلا مریض کو لگنے لگتا ہے کہ  معاشرے کی اصلاح، روایات کی پاسداری، اور اپنی ثقافت کو زندہ رکھنا فقط اُسی کی ذمہ داری ہے۔ اور اگر اُس نے یہ ذمہ داری، ایمانداری سے نہیں نبھائی   ،تو وہ قطعی طور پر ایک ذمہ دار شہری کہلانے کا حق دار نہیں۔

ہمیں بھی ایسے ہی یکایک یہ گمان ہونے لگا کہ ہمیں  اپنی زبان و ثقافت کو زندہ رکھنے کے لیے کچھ کرنا بےحد ضروری ہے اور صرف ہم ہی ہیں جو اس وقت اپنی روایات اور ثقافت کو فنا ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ ہم اپنے ناتواں کندھوں پر اس ذمہ داری کا بڑا بھاری بوجھ محسوس کر رہے تھے۔ دماغ میں ایک حشر برپا تھا کہ  اٹھو بی بی اٹھو ۔۔۔۔ کچھ کرو ۔۔۔ کب تک فارغ بیٹھے بیٹھے اپنی ذمہ داریوں سے نظریں چراؤ گی۔ تمہارے کلچر کو تمہاری ضرورت ہے، اٹھو ۔۔۔۔۔ اور اپنی پرانی روایات اور ثقافت کو دوبارہ سے زندہ کردو۔ یہ خیال دماغ میں روز با روز زور پکڑتا جا رہا تھا۔ مگر ہمیں کوئی موقع ایسا نہیں مل پا رہا تھا کہ جس پر ہم اپنے اس ارادے کی تکمیل کر سکیں۔ پھر قدرت نے ہماری پُرخلوص تڑپ کو دیکھتے ہوئے ہمیں ایک نادر موقع فراہم کیا۔ ہماری پیاری بھتیجی دعا جو ہے تو ہمارے جیٹھ کی بیٹی مگر ہمیں   بالکل اپنی بیٹیوں سی عزیز ہے۔ اس کی شادی طے ہوگئی۔ دعا گھر کی سب سے بڑی پوتی ہونے کی وجہ سے بے حد لاڈلی بھی ہے۔ باخدا اس کی شادی پر ہم اتنا خوش تھے کہ جتنا  اپنی شادی پر بھی نہیں تھے۔ خیر تاریخ وغیرہ کے فکس ہونے کے بعد ہم نے ایک دن میاں جی سے کہا ۔۔۔ ” بات سنیں ،ہمارے ذہن میں ایک خیال آیا ہے ”
ابھی ہم نے فقط اتنا ہی کہا تھا کہ صاحب ایسے گھبرائے، جیسے کسی شریف آدمی کے سامنے اچانک تھانےدار آجائے اور وہ اپنا بٹوا بھی گھر بھول آیا ہو۔ چائے کی پیالی ان کے ہاتھ میں کانپ گئی اور کھولتی ہوئی چائے نے چھلک کر ان کی سفید قمیض پر کبھی نہ مٹنے والے نشان ڈال دیئے۔ انکے منہ سے بے ساختہ نکلا ” یا اللہ خیر ۔۔۔ ”
یہ الفاظ سنتے ہی ہمارا دماغ گھوم گیا۔
لاحول ولا۔۔ اچھے بھلے موڈ کا ستیاناس کرنا اور منٹوں میں کلیجہ بغیر کسی بیرونی آگ کے بھون ڈالنا باخدا فقط شوہر کی ہی خاصیت ہوتی ہے ۔۔۔
ہم نے آنکھیں نکال کر پوچھا ” کیا مطلب ہے اس یا اللہ خیر کا ؟ ۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔ ”
تو جلے پر نمک چھڑکنے کو مزید کہتے ہیں کہ ” بیگم تاریخ گواہ ہے کہ آپ کے ذہن میں آنے والا یہ ” ایک خیال ” ہر بار ہمارے گھر اور ازدواجی زندگی میں بھونچال کا سبب بنا ہے ”
” اچھا ۔۔ اتنی بُری ہوں نا میں، دعا کریں کہ میں مر جاؤں ” ہم نے بڑے ہی درد بھرے انداز میں اپنی مظلومیت کا اظہار کیا۔ جس کا نتیجہ جھاڑ کی صورت میں ملا۔۔

” ہزار دفعہ کہا ہے کہ فیس بک پر “عشقوں کی بستی” اور ” محبت آگ کا دریا” ، ٹائپ کے گروپس چھوڑ دو یا کم از کم ان سستے عاشقوں کے اقوال ذلیل میرے آگے دہرانا بند کر دو ورنہ سچی اس بار میں نے نیٹ ہی کٹوا دینا ہے۔ کمال ہے میری زندگی کی آدھی انویسٹمنٹ تم پر لگ گئی ہے۔ میں کیوں کر اس کو ڈبونے کی دعاکروں گا “۔
” ہمارا دل جلانے پر بھی انویسٹ کیا ہے آپ نے کیا ۔۔۔۔ ہاں نہیں تو ایک بات کروں نہیں تو شروع ہی ہوجاتے ہیں ۔۔۔ ہم نہیں بول رہے اب آپ سے اور اب آپ ہم سے بات کرنے کی کوشش بھی نہ  کیجیے گا۔ ” یہ کہہ ہم نے منہ لپیٹ کر رونا شروع کر دیا تو حضرت ہنسنے  لگے۔
” اچھا بولو ۔۔۔ اب کیا دورہ پڑا ہے۔ ” جواب نہ  پا کر پھر بولے ” اچھا نا یار بولو کیا خیال آیا ہے تمہارے دماغ میں۔”
مگر ہم نے بھی طے کیا تھا جب تک دل سے نہیں پوچھیں گے ان کو کچھ نہیں بتائیں گے۔
آخرکار انھوں نے اپنے دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ۔۔۔

” اُف اللہ کہیں سے بھی ایک میچور چار بچوں کی ماں نہیں لگتی ہو ایسے بچوں کی طرح میرے سامنے اینٹھتے ہوئے ۔۔۔ بولو نا بابا پلیز اب نہیں تنگ کروں گا ”
ہم نے دل میں سوچا کہ
” ہونہہ ۔۔ ڈرامے بازیاں شروع جناب کی۔۔۔۔” لیکن مطلب چونکہ اپنا تھا۔ جس کے لیے ان کے کریڈڈ کارڈ کی اشد ضرورت تھی۔ سو ہم نے مزید اکڑنے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے کہا۔
” ہم دعا کی شادی پر غرارہ سوٹ پہننا چاہتے ہیں۔ تاکہ اپنی پرانی روایات اور ثقافت کو ایک بار پھر ریوائیو کیا جاسکے ۔”
اتنا سننا تھا کہ ان کے منہ سے ایک بلند و بانگ قہقہہ گولی کی طرح سے نکلا۔۔
اُف کھسیاہٹ اور غصے کے مارے ہمارا بُرا حال ہوگیا۔ دل کیا انکا حشر کر ڈالیں۔ مگر خون کا گھونٹ پی کر رہ گئے کہ اس وقت تعلقات میں کسی بھی قسم کی اونچ نیچ مالی معاملات میں رکاوٹ کا باعث ہوسکتے تھے ۔۔۔
وہ ہماری مصلحت بھری خاموشی سے خوب واقف تھے۔ اس لیے ہماری کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بولے ۔
” جانو کیا آپ بتا سکتی  ہیں۔ آخری بار آپ نے غرارہ کب زیبِ تن فرمایا تھا۔۔۔۔؟ ” سامنے سے طنز فرمایا گیا۔
ہم نے یاد کرنے کی کوشش کی تو مزید کھسیا گئے۔
” بیس سال پہلے غالباً آمنہ باجی کی شادی میں ” ہم نے منمناتے ہوئے کہا۔ مگر مخالف کو خود پہ حاوی ہوتے دیکھا تو پھر اپنی جون میں واپس آتے ہوئے بولے۔
” تو کیا ہوا ۔۔۔ اب ایسا تو نہیں ہے کے ہم غرارہ پہنا ہی بھول بھال گئے ہوں ۔۔۔ اتنے بے وقوف بھی نہیں ہیں ہم ۔۔۔ ہونہہ ۔۔۔ ” اس جملے پر وہ ہمیں  دیکھ کر فقط مسکرا کر رہ گئے اور کہا۔
” بیگم میں اور میرا کریڈٹ کارڈ اس نیک مقصد میں قدم قدم پہ آپ کے ساتھ رہے گا۔ بس کوشش کیجیے گا کہ  غرارہ پہن کر چلتے وقت ابا مرحوم کی واکنگ  سٹک ساتھ رکھیے گا۔ بصورتِ دیگر گرنے گرانے کی صورت میں نقصان بڑھ جانے کا اندیشہ ہے ۔۔۔ ویسے بھی اس عمر کی چوٹ اور موچ دونوں ہی دیر تک تکلیف دیتی  ہیں۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply