​نظم میں مقطع فخریہ ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

تیری رفتار ِ قلم ، جُنبش ِ بالِ جبریل
ترا انداز ِ سخن شانہ ء زلف ِ ابہاؐم
مقطع فخریہ یا شعر فقط اپنے لیے؟
جس سے ہو اپنی ، (فقط اپنی ) بڑائی مقصود
خود ہی ہو اعلی تریں، خود ہی بلند و برتر
اپنی تعریف بھی، توصیف بھی، تشہیر بھی ہو
ایسا جو شخص ہے، وہ مَیں ہوں، مرے ہم نفسو
کہنے کی بات ہے، میں خود کو بھی ’’تُو‘‘ کہتا ہوں
’’تیرا‘‘، ’’تیری‘‘ سے جو مقصود ہے ، میں خود ہی ہوں
یہ روایت ہی رہی ہے کہ اَمر بالمعروف
’’مَیں‘‘ کا تو ذکر نہ ہو مقطع ٔ فخریہ میں!

آئیں، دیکھیں تو ذرا، بات کہاں پہنچے گی
کیا ہے ’انداز سخن‘؟ نغمگی؟ سرگم؟ سُر تال؟
یا کلا ونت کوی کی کوئی کمپوزیشن؟
یا غزل، قافیہ، آہنگ، وزن کا ادراک؟

کیا ہے ’الہام‘؟ اسے جانچیں ذرا، پہچانیں
کوئی برجستہ و بے ساختہ بر وقت بدیہہ؟
یا کہ فی الفور کسی لہر کا اٹھنا دل میں؟
یا اناجیل ۔۔ یا “آکاش” سے “بانی” کا نزول؟
اب ذرا دیکھیں تو آگے کیا ہے!
زلف الہام کی ہے ۔۔ مان لیا
’شانہ‘ انداز ِ سخن ہے، چلو، تسلیم کیا
’تیرا اندازِ سخن شانہ ٔ زلف ِ الہام‘
بات شاعر کی ہے تلطیفِ عبارت میں درست
(منحصر باتٰ تو البتہ اسی نہج پہ ہے
شعر غالب کے ہیں الہا٘م، وحی یا تنزیل!)

بالِ جبرئیل *سے حاصل ہوئی ’رفتار‘کی رو
کیسی تسریع ِ قلم، رفعتِ پرواز ِ خیال
کیسا اشباع فرشتے کا۔۔اور کیسی تیزی!
یہ بھی تسلیم کیا ہم نے جناب ِ غالبؔ
’’تیر ی رفتار ِ قلم، جنبش ِ بال ِ جبرئیل!‘‘

دیر نوشت

اتنی تعریف ضروری تھی، مگر عالی جاہ
کچھ پس و پیش سے کہنے پہ ہے قاری مجبور ۔۔
’’عجز ِ شاعر‘‘ نہ تھا غالب کا کبھی طور و طریق
فخر ہی فخر تھا، مرزائی تھی یا نخوت تھی!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

* راقم الحروف کے ذہن میں تھا کہ جامعہ میں ایم اے کی سطح پر انگریزی ادب پڑھاتے ہوئے اس نے بالِ جبرئیل کا استعارہ کہیں دیکھا ہے۔ دیکھئے’’ بین المتونیت‘‘ یعنی ’’انٹر ٹیکسچویلٹی‘‘ کا کمال کہ سترھویں صدی عیسوی میں ہنری کانسٹیبل Henry Constable (death 1613) نے اپنے بارے میں یہ سطور قلمبند کیں:

Advertisements
julia rana solicitors

The pen wherewith thou dost so heavenly sing
Made of a quail from an angel’s wing
چونکہ ابراہیمی سلسلے کے تینوں بڑے مذاہب فرشتوں کی صف میں جبرئیل اور اس کے وظائف کو تسلیم کرتے ہیں، اس لیے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ ہنری کانسٹیبل اور غالب نے اپنے اپنے زمان و مکان میں آزادانہ طور پر یہ استعارہ شاعر کے قلم کی تحریر کے لیے استعمال کیا۔ ہم اپنی فرسودہ اصطلاحات ’سرقہ‘ اور ’توارد‘ پر آج بھی قائم ہیں۔ہمیں انٹر ٹیکسچویلٹی یا بین المتونیت کا کچھ علم نہیں ہے۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply