ریپ۔۔۔عاطف ندیم

شکار کے معاملے میں انسان اور جانور میں بہت عجیب فرق ہے،اوریہی فرق، انسان کو حیوانیت کے قریب تر کر دیتا ہے۔ جانوروں کے برعکس،انسان،شکار کے زندہ جسم کو ہی نوچنا شروع کر دیتا ہے،سر سے پاؤں تک،اس کے تڑپتے جسم پر اپنے دانتوں سے وار کرتا ہے۔اس کی گردن، کمر اور کلائیوں پر اپنے دانتوں سے پھول بنا کر،خودجھومنے لگتا ہے۔اور اس کھیل کا، بھیانک ترین اختتام ایسے بھی ہوتا ہے کہ، اس کٹے پھٹے، خون الود اور تڑپتے جسم کو اکثر زندہ چھوڑ دیتا ہے۔ ایسے میں وہ معصوم شکار بار بارموت کی بھیک مانگ رہا ہوتا ہے، کیونکہ اس کے بعد کی زندگی،اس کے لیے موت سے بھی زیادہ بھیا نک ہو سکتی ہے۔مگر انسان ااس تڑپتے شکار کو، زندہ چھوڑ کر موت سے بھی بڑی سزا دیتا ہے۔

اغواء  ہونے والی اکیس سالہ اس لڑکی کے جسم کے ساتھ بھی شکاری کئی روز تک کھیلتے رہے، اس کا جسم نوچتے رہے  ،ان کے دانتوں سے  اس کے نازک بدن کا کوئی حصہ نہ بچ سکا۔اس کے جسم کے ایک ایک حصے کو نوچا گیا، اور بار بار نوچا گیا۔۔ درد وحشت سے اس کا دکھتا جسم، زندگی سے موت کی بھیک مانگتا رہا۔جسم کے ساتھ روح تک فنا ہو چکی تھی اس کی۔۔ مگرہوس زدہ   بھوک،ابھی بھی اس کے گرد مسلسل  ناچ رہی تھی۔ کیسی بھوک تھی یہ،جو مٹنے کا نام  ہی نہیں لے رہی  تھی۔جسم کی بھوک تو کچھ دیر کی  مہمان جیسی ہوتی ہے نا۔۔۔پھر،پھر یہ بھوک کیوں زندہ ہے ابھی تک؟؟۔اوہ اچھا۔اب سمجھ آئی!بھوک جب حلال و حرام کا دائرہ توڑ ڈالے نا، تو پھر ایسی شکل اختیار کر تی ہے جسے کبھی موت نہیں آتی۔ جیسے کئی روزسے،اس لڑکی کے جسم سے کھیلتے خاکی شیطان اب بھی بھوکے تھے۔۔ایسی حرام بھوک جاہل اور اندھے معاشروں میں پروان چڑھتی ہے، زندہ رہتی ہے اور سر عام جھومتی ہے۔

یہ اس کی خوش نصیبی تھی یا بد قسمتی! جو وہ خاکی شیطان کی قید سے زندہ بازیاب ہو چکی تھی ۔جس نازک کلی کو، خاکی شیطان نے اپنے ناپاک وجود سے مسل ڈالا، اب وہی کلی، اپنوں میں دوبارہ لوٹ رہی ہے۔ اس معاشرے میں لوٹ کے جارہی ہے، جس کی لغت میں داغ کا لفظ صرف صنف نازک کے لیے بولا جاتا ہے،اور وہ بھی ایسا دا غ جسے مٹانے کے لیے  عورت کو اپنی شہ رگ پر چھری چلانی پڑتی ہے، اس داغ کو،اپنے خون سے دھونے کی کوشش کرتی ہے مگریہ  داغ تو  اس کے خون کے ساتھ بھی نہیں صاف ہوتا۔ ۔بلکہ  یہ داغ  اس کے کفن پر بھی نشان چھوڑنے کے بعد قبر تک ساتھ جاتا ہے۔۔وہ مر کر، دفن ہو جاتی ہے مگر، اس کا داغ پھر بھی، زندہ رہتا ہے۔

” جب سے گھر لوٹی ہو اسی طرح خاموش بیٹھی ہو۔۔تمھاری ماں کتنی دیر سے تمھارے پاس بیٹھی ہے، باتیں کرو مجھ سے”۔وہ بیڈ پر دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بت بنی بیٹھی تھی۔چہرے پر بکھرے سر کے بالوں کو   سنوارتے   ہوئے ماں نے  بیٹی کی  خاموشی اور اداس بیٹھنے پر شکوہ کیا۔۔
“باتیں کیسے کروں امی؟۔۔میں تو رونا چاہتی ہوں، ہاں امی!زور زور سے چیخنا چاہتی ہوں، چِلانا چاہتی ہوں میں۔

“روتی بھی تو نہیں ہو تم۔۔جب سے آئی ہو گم سم بیٹھی چھت کو ہی دیکھے جا رہی ہو”۔

“کیسے روتی امی، کسی نے بھی سینے سے نہیں لگایا۔پھر کیسے روؤں۔۔۔۔کیوں امی؟۔ کہا ں ہیں سب؟؟ بابا، بھیا۔۔۔اور آپی!آپی تو اتنی دور نہیں رہتی، آپی کو ترس بھی نہ آیا اپنی چھوٹی بہن پر؟۔کیا ان سب کو میرے زندہ لوٹنے پرافسوس ہے؟۔

“ایسی بات نہیں ہے میری جان۔تمھیں زندہ دیکھ کر تو تمہاری ماں جی اٹھی ہے۔ آجائیں گے وہ سب بھی”۔

“جو ہوا اس میں میرا کیا قصور تھا امی۔ میں گھر سے تو نہیں بھاگی تھی۔ میں تو یہ بھی نہیں جانتی کہ مجھے اغواء  کرنے والے لوگ کون تھے۔وہ  دیوار سے   ٹیک لگائے ماں سے باتیں کیے جا رہی تھی۔

“ہم سب جانتے ہیں کہ تم بے قصور ہو ، تمہارا ان لوگوں سے کوئی تعلق نہ تھا۔۔۔ کیوں پریشان ہوتی ہو؟تمہاری ماں تمہارے ساتھ ہے”۔

“ماں تو اندھی ہوتی ہے،ماں تو گنہگارر اولاد کے بھی ہاتھ چوم لیتی ہے۔۔۔مگر یہ کیسی دنیا ہے امی، جہاں کوئی باپ، بھائی اور باقی عزیزحقیقت جانتے ہوئے بھی  ایک بے گناہ لڑکی کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔۔امی،ایک بیٹی درندوں کے منہ سے چھلنی جسم کے ساتھ واپس آئی ہے،بجائے اس کے کہ میرے زخموں پر مرہم رکھا جائے، مجھے مزید  اذیت دی جا رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور دن ڈوبا،سورج زرد ی کی چادراُتار کر  سیاہی کا لبادہ اوڑھ چکا تھا،  آنے والی رات کی وحشت اور سناٹے سے خوف زد ہ تمام چرند پرند گھروں کی  جانب دوڑ رہے تھے۔چاروں طرف پھیلا انسانوں کا ہجوم بھی  اب ٹھکانوں کی جانب لوٹ رہا تھا، وقفے وقفے سے، کسی شیر خوار بچے کی چیخ،سناٹے کو توڑ دیتی،مگر ماں، ڈر اور خوف کے ہتھیار سے، بچے نیند کی تاریکی میں دھکیل دیتی۔ دن بھر کے انسانوں کے ہجوم اور شور سے تنگ، گلیوں نے بھی سکھ کا سانس لیا۔ ایسے میں  ایک پولیس وین،گلی کے  کونے پرآ رُکی۔وین سے دو  بھاری جسامت والی  سی لیڈی پولیس نیچے اتری، اور پھر ایک نوجوان لڑکی، آہستہ آہستہ وین کا سہارا لیتے نیچے اتری۔ ننگے پاؤں، ادھڑا لباس،بکھرے بال، آنکھیں درد کی شدت سے پھیلی ہوئیں ، چہرے  کا منظر اس لاعلاج مریض جیسا، جس کی  زندگی کے سبھی رنگ مٹ چکے ہوں ۔ مسلسل کئی روز تک حوا کی یہ بیٹی ہوس کے پجاریوں کا  سامان ِ لذت بنی رہی اورآخر کار بازیابی کے بعد وہ اپنے گھر کے سامنے پولیس وین سے اتر رہی تھی۔ اس وقت گلی بالکل ویران تھی، گلی کی طرح اس لڑکی کے گھر کا دروازہ بھی ویران تھا۔ان بوجھل اورویران آنکھوں نے نگاہ اٹھا کر جب اپنے گھر کے دروازے کو دیکھا تو اسے لگا کسی انجان گھر کے سامنے کھڑی ہے۔وہ نادان تو سمجھ رہی تھی کہ اس کی واپسی کی خوشی میں اس کا دروازے  پر استقبال ہو گا، اس کے زندہ لوٹنے کی خوشی میں سب گھر والے اسے سینے سے لگانے کو بیتاب ہونگے۔اپنی عزت  گنوا کے آنے والی لڑکی، اس بات سے لاعلم تھی کہ جس لڑکی کو خاکی شیطان کا منہ لگ جائے ، تو مومنوں کی بستی میں، وہ اچھوت بن جاتی ہے،اس کے وجود سے ان مومنوں کو بدبو آنے لگ جاتی ہے۔۔۔ یہ بو جھل ننگے پاؤں لیے، جب دروازہ پر پہنچی تو وہاں صرف اندھی ممتا ہی بانہیں پھیلائے کھڑی تھی۔۔باقی سب گھر والے کہاں تھے، باپ، بھائی، بھابی ۔۔ شاید وہ سب گھر کی بے گناہ بیٹی کی واپسی پر ماتم کر رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“بھابھی  کیا ہو گیا ہے آپ کو؟۔ آپ کمرے میں تو آتی ہیں مگر کوئی بات تک نہیں کرتیں
“سنو!میرے اور بھی بہت کام ہیں، جب فارغ ہوئی نا!،تو بات بھی کر لوں گی تم سے۔۔بھابھی نے لاپروائی سے بغیر اس کی طرف دیکھے جواب دیا۔
“بھابی! بھیا کیسے ہیں؟۔مجھے لوٹے دوسرا دن ہے، مگر ابھی تک ان کو نہیں دیکھا۔ بھیا ٹھیک تو ہیں نا؟”۔
“کیسے ٹھیک ہو سکتے ہیں ان حالات میں۔۔۔بہت دنوں بعد آج آفس گئے تھے، مگرجلد ہی واپس آگئے۔ کہتے ہیں  لوگوں کی اُٹھتی، چیختی نظروں کا سامنا نہیں کر سکتا”۔بھابی کے لہجے میں حقارت کو وہ محسوس کر رہی تھی۔۔
“کیا مطلب بھابی!!کیا بھیا نہیں جانتے کہ  ان کی بہن بے قصور ہے۔۔میں کسی کے ساتھ  بھاگی تو نہیں تھی اغوا ء کیا گیا تھا مجھے بھابی۔ اس کی آنکھیں نم ہو چکی تھیں ، کیونکہ وہ ان لوگوں کو صفائی دے رہی تھی جن کا اس کے زخموں پر مرہم رکھنا فرض بنتا تھا

اچھا!ٹھیک ہے،چلو مان لیتے ہیں کہ بے قصور ہوتم، مگرلوگوں کو کیسے یقین دلاؤ گی تم؟ہاں۔
” آپ سب کولوگوں کی پرواہ کیوں ہے بھابھی”۔
“سننا چاہتی ہو کیوں ہے؟کیونکہ انہی لوگوں میں تمھارا سسرال بھی ہے۔وہ لوگ تو بالکل ہی خاموش ہیں۔۔یہ ساتھ دوسری گلی میں ہی تو گھر ہے ان کا۔اب اتنا تو تم بھی سمجھ سکتی ہو نا کہ سسرال کی خاموشی کا کیا مطلب ہوتا ہے؟۔

اور وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ خاموشی کا کیا مطلب ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریک کمرے میں دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھی، دور خلاؤں میں اپنی کھوئی زندگی تلاش کر رہی تھی۔مگر ان خلاؤں میں بھی سوائے سناٹے اور اندھیروں کے اور کچھ نظر نہ آیااسے۔۔وقت کے ساتھ ساتھ ناامیدی بڑھتی جا رہی تھی۔۔ اسے پتا بھی نہ چلا کب بھابھی کمرے میں داخل ہوئی۔
یہ لو بات کرو آپی سے۔اس کی بھابھی موبائل اس کی جانب بڑھاتے ہوئے بولی۔
“بھابی لائٹ آف کر کے جائیے گا۔” اس نے فون   بھابی کے ہاتھ سے موبائل لیتے ہوئے کہا ۔
جو انسان میرے سب سے زیادہ قریب تھا،جس انسان سے مجھے سب سے زیادہ امید تھی، جس کے آنے کا مجھے شدت سے انتظار رہا۔ کیااب وہ غیروں کی طرح مجھ سے فون پر بات کرے گا۔۔آپی!آخر آپ سب کس گناہ کی سزا دے رہے ہیں مجھے؟  اور اگر  ملنا گوارا  نہیں آپ کو تو فون بھی کیوں کیا آپ نے؟۔
” میری جان۔۔۔۔۔ بہت شرمندہ ہوں، شوہر کی طبیعت  بہت خراب ہے نا، اسی لیے  نہیں آسکی۔ مگر بہت جلد آؤں گی”۔
” جھوٹ بول رہی ہیں آپ!کچھ بھی  نہیں ہوا آپ کے شوہر کو۔۔۔ آپی!ایسا کیوں کر رہے ہیں آپ سب میرے ساتھ؟
” میں سمجھ سکتی ہوں میری جان کہ تمہارے ساتھ  وہاں کیا ہورہا ہے۔۔۔مجھے معاف کر دو ،تمہاری طرح میں بھی  جاہلیت کی قید میں ہوں،مجھے اپنی بے گناہ بہن  سے ملنے کی اجازت نہیں۔۔مگر میں  بہت جلد آؤں گی۔بھلا! اپنی بہن  کو ایسی حالت میں  اکیلا کیسے چھوڑ سکتی ہوں۔
“چھوڑ چکی ہیں آپ مجھے آپی۔۔صرف آپ ہی ہیں،بابا،بھیا، میرا سسرال کوئی بھی تونہیں میرے پاس۔بالکل اکیلی رہ گی ہوں میں آپی”۔
میرے سسرال  کی مسلسل خاموشی نے امی کو بھی بالکل خاموش کردیا ہے۔ابا نے مسجد تک جانا چھوڑ دیا ہے،بھیا کئی روز سے آفس سے چھٹیاں کررہے ہیں،کہتے ہیں لوگوں کی نظروں کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ۔۔

آپی آپ دعا کریں نا کہ اللہ ان کا دل میری طرف سے صاف کردے،کوئی راستہ نکال سے

بہن نے پھر سے دو چار تسلیاں دے کر یہ کہتے ہوئے فون بند کردیا کہ میں کوئی راستہ نکالتی ہوں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلی صبح اپنے ساتھ قیامت لے کر طلوع ہوئی۔۔۔

جب سے واپس آئی تھی اُس کی  روٹین  بن گئی تھی کہ فجر کے وقت جاگ کر ،وضو کرکے واپس اپنے کمرے میں چلی جاتی،پھر کسی ضرورت ے تحت ہی باہر نکلتی،کیوں کہ گھر میں ماں کے علاوہ کوئی منہ تو لگاتا نہیں تھا،دیکھنا تک گوارا نہ کرتا تھا تو ایسے میں باہر سب کےبیچ بیٹھ کر کیا کرتی۔۔۔

آج فجر کے بعد ظہر ،عصر بھی گزر چکی تھی،لیکن وہ  باہر نہ آئی ۔۔۔ماں کا دل بیٹھا جارہا تھا،بے چینی کے عالم میں کئی بار اُس کے کمرے کادروازہ بجا چکی تھی۔۔لیکن جواب ندارد۔۔۔

مسلسل درواز بجانے سے بھائی کو بیزاری ہورہی تھی،غصے میں  میں پر چِلانے لگا کہ کیوں شور کررہی ہیں ،وہ سو رہی ہوگی،اُسے اور کام ہی کیا ہے،باپ کا دل لیکن ذرا دیر کو پریشان ہوا تو وہ دروازے کی جانب بڑھنے لگا۔۔۔

دروازہ بجانے پر کوئی جواب نہ پاکر ۔۔بیٹے سے کہا کہ دروازہ توڑنے میں مدد کرے۔۔۔بیٹا بادلِ ناخواستہ  دروازے کی جانب بڑھا۔۔۔مسلسل کوشش کے بعد بالآخر دروازہ  کا لاک ٹوٹ ہی گیا۔۔سامنے دلخراش منظر ان سب کا منتظر تھا۔۔

بیٹی کی لاش پنکھے سے لٹکی ان سب کی عزت  کو سلامی دے رہی تھی!

۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر  ہوس سے شروع ہونے والی، کہانی کا اختتام، انسانوں کی بستی میں، ایک بے گناہ کی مویت پر ہوا۔  بغیر پہرے کے، بھوک آزاد ہو جاتی ہے، پَر لگ جاتے ہیں اسے۔ مرد بے لگام چھوڑ دیا جائے تو وہ خاکی شیطان بن جاتا ہے۔ اورپھر ہمارے شہر گاؤں، آزاد او ر بے لگام کتوں سے بھر جاتے ہیں۔یہ چاروں طرف پھیل جاتے ہیں۔ یہ آوارہ کتے ہمارے گھروں کے اندر بھی شکار کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ہوس و بھوک کا یہ سارا کھیل، اسی معاشرے اور ہماری آنکھوں کے سامنے پروان چڑھتا ہے۔۔ہم سب بھی اس کھیل میں کئی کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ کبھی تو ہم خودبھی شکاری بن کر،کسی کا جسم نوچ رہے ہوتے ہیں اور کبھی کبھی تماشائی بن کر داد دے رہے ہوتے ہیں، اور اگر ہوس کا شکار،ہمارا اپنا گھر ہو جائے،توپھر  ماتم کر رہے ہوتے ہیں۔۔مگر،  اس کھیل میں سب سے بھیانک انجام  اس معصوم جان کا ہوتا ہے، جسے بیل کے خونی کھیل کی طرح آخر میں مار دیا جاتا ہے۔ اور اگر بد قسمتی سے اُس کی جان بچ بھی جائے نا، تو پھر  یہ لوگ، یہ معاشرہ خود ہی اس سے زندگی چھین لیتا ہے۔ جیسے اس لڑکی کو اپنوں اور معاشرے نے مار ڈالا تھا۔۔
اس بے حس اور مردہ معاشرے کے لیے فقط اتنا ہی کہ ” انا اللہ وانا الیہ راجعون ” ۔۔۔ نہ کہ اس لڑکی کے لیے!

Facebook Comments

عاطف ندیم
Atif Nadee m MSc . Sociology MSc . Gender and Women Studies Profession. Teaching

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ریپ۔۔۔عاطف ندیم

  1. دل کو چھو لینے والی تحریر ، معاشرے کی بالکل صحیح عکاسی ، شاید کہ سمجھے کوئی !

Leave a Reply