سُنا ہے قندوز میں بچے مرے ہیں۔۔۔ غازی سہیل خاں

دنیا کے ہر ایک مذہب میں انسانی جان کو قدرحاصل ہے اسلام میں بھی اس حوالے سے واضح تعلیمات موجود ہیں۔قرآن میں سورہ المائدہ میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جس کسی نے ناحق کسی انسان کا قتل کیا تو گویا اُس نے پوری انسانیت کا قتل کیا۔ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے باوجود دنیا میں بے گناہوں کا قتل عام جاری ہے وہ چاہے دنیا میں جمہوریت اور انسانی اخوت و محبت کے دعویدار ممالک ہو ں یا نام نہاد امن قائم کرنے والے ٹھیکہ دار ممالک۔غرض جمہوریت اور امن و آشتی کے ان دعوے داروں نے انسانیت کا قتل عام کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی ہے۔ہم دیکھتے ہیں امریکہ نے عراق اور اٖفغانستان کو کھنڈرات میں کیسے تبدیل کیا، ہم نے شام کو بھی اُجڑتے دیکھا،ہم نے غوطہ میں بچوں کے چیتھڑے ہواؤں میں اُڑتے بھی دیکھے،ہم نے شوپیان میں آسیہ اور نیلو فر کی لاشیں بھی دیکھیں، ہم نے معصوم بچوں کی چڑھتی جوانیوں کے جنازوں کو کاندھے بھی دیے، ہم نے پیلٹ گنوں سے کھلتے گلابوں کو اندھا ہوتے ہوئے بھی دیکھا۔غرض  چہارسو انسانیت کو لُٹتے اور اُجڑتے دیکھا،مگر اس کے باوجود بھی کہیں سے نام نہاد انسانیت کے الم برداروں اور امن کے ٹھیکہ داروں کے لبوں کو ہلتے نہیں دیکھا ……ہاں! جہاں پہ ان شیطانی قوتوں کو اپنے مفادات کی حاجت محسوس ہوتی ہے وہاں پہ یہ ڈرامے کرنے میں  پیش پیش رہتے ہیں۔

بہر حال مجھے اصل میں حال ہی میں قندوز افغانستان میں ایک مدرسہ میں بچوں کے قربان ہونے کا درد بیان کرنا ہے۔سانحہ یوں ہے کہ 3اپریل کو افغانستان کے علاقے قندوز میں افغانستان (نیٹو فوج)کے فضائی حملہ میں تقریباً 150سے زائد افراد شہید ہو گئے جن میں بڑی تعداد میں حافظ قرآن بچوں کی تھی اور یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا جب مدرسے میں دستار بندی کی تقریب جاری تھی۔دستار بندی کی تقریب اس وقت منعقد ہوتی ہے جب کسی مدرسہ میں بچے اللہ تعالی کی کتاب کو اپنے سینے میں محفوظ کر نے کا عمل مکمل کر لیتے ہیں اور بعد ازاں ان بچوں کی اپنے والدین اور عزیز و اقرباء کی موجود گی میں ان کی حوصلہ افزائی کے طور پر ان کی دستادر بندی کی جاتی ہے۔بالکل اسی طرح سے افغانستان کے قندوز علاقے میں بھی ان معصوم بچوں نے اللہ تعالیٰ کے کلام کو اپنے سینے میں محفوظ کر لیا تھااور اب اسی خوشی میں تھے کہ کب ہماری دستار بندی ہو جائے۔ ۔ لیکن ان کو کیا خبر تھی کہ ظالم ہماری  چارسال کی  محنت کو،ہماری  خوشیوں کو پل بھر میں ملیا میٹ کر کے درندگی اور ظلم کی ایسی تاریخ رقم کریں گے کہ جس کی مثال ملنی مشکل ہو جائے گی۔
مدرسے کے بچے ہنستے اور خوشی سے جھومتے اپنے والدین کے سامنے بس اسی انتظار میں تھے کہ اب ہم اس کامیابی کے بعد گھر جائیں گے، اسی بیچ افغانستان کی درندہ صفت فوج نے اچانک اس مدرسہ پر   بارود کی برسات کر دی جس کے نتیجے میں معصوم بچوں کے  جسموں کے ٹکڑے ہر طرف بکھرے پڑے دیکھے گئے۔

اس واقعہ تک تو براہ راست نیٹو کی فوج نے افغانستان پر ہزاروں ٹن بارود برسا کر وہاں کے ہنستے بستے شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔ مگر آج افغانستان کی ہی فوج نے نیٹو کے اشاروں پر ان معصوم بچوں کی زندگیوں کو یہ کہتے ہوئے چھین لیا کہ اس مدرسے میں طالبان کے کمانڈر موجود تھے۔دوسری جانب افغان طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ وحشی فوج نے بھارتی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے مدرسہ پر بمباری کی جب کہ اس الزام میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ بمباری کے دوران مدرسے میں کوئی طالبان رہنما موجود تھا۔طالبان نے اپنی ویب سائٹ پر تصدیق کرتے ہوے کہا ہے کہ جارح امریکی و کٹھ پتلی فوجیوں نے بھارتی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے صوبہ قندوز ضلع دشت ارچی پٹھان بازار کے علاقے میں واقع”ہاشمیہ عمریہ“نامی دینی مدرسہ پر ایسے وقت شدید بمباری کی،جب وہاں معمول کے مطابق حفاظ کرام اور دینی علمائے کرام کی دستار بندی کی تقریب جاری تھی،اس حملے میں 150علمائے کرام،طلبہ،حفاظِ کرام اور ان کے عزیز و اقارب شہید و زخمی ہوئے۔

رپورٹس کے مطابق یہ پہلا موقع ہے جب کسی حملہ میں بھارتی طیارو ں کو استعمال میں لایا گیا ہو۔قندوز کے مرکزی ہسپتال میں موجود عبدلخلیل نامی عینی شاید کا کہنا تھا کہ اس نے مدرسے میں خود کم از کم 35لاشیں دیکھیں ہیں،وہ فضائی حملے کے بعد جائے واقعہ پر سب سے پہلے پہنچنے والے افراد میں شامل تھا۔حملہ کے بعد مدرسہ کسی مذبح خانے  کا منظر پیش کر رہا تھا،جہاں ہر جانب خون،انسانی اعضاء اور کٹی پھٹی لاشیں بکھری ہوئی تھی۔یعنی ہر جانب قیامت صغریٰ کا کرب ناک منظر پیش ہو رہا تھا۔ہر سو خون ہی خون معصوم بچوں کے جسموں کے انگ انگ کو جیسے الگ الگ کر کے کاٹا گیا ہو۔سوشل میڈیا پر ان بچوں کی لاشوں کا نظارہ کرنا ہمارے لئے بہت مشکل بن گیا۔لیکن افسوس صد افسوس! دنیا میں نام نہاد امن قائم کرنے والے اور خون ریزی کو بند کرنے والے کھوکھلے دعویداروں پر جن کو فرانس اور امریکہ میں کسی ایک انسان کا مرنا نظر آتا ہے،جن کو دنیا میں کتوں اور بلیوں کا مرنا نظر آتا ہے، جن کو ملالہ کا زخمی ہونا بھی نظر آتا ہے(جو کہ مغربی سازش کے تحت  زخمی کی گئی) اور ملالہ کے درد کو اپنا درد جان کر دنیا کے سامنے انسانیت کا غمخوار کے طور پر پیش کرنا بھی آتا ہے۔

لیکن   اِن کو قندوز میں معصوم بچوں کے جسموں کے  چیتھڑے اُڑتے نظر نہیں آئے۔آرمی پبلک اسکول پر حملے کے حوالے سے پورے پاکستان میں مہینوں احتجاج ہوا شمعیں روشن کی گئی،ہندوستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں پر زور انداز میں اس وحشیانہ حملہ کی مذمت ہوئی اور ہونی بھی چاہیے تھی۔ لیکن افسوس قندوز میں قیامت صغریٰ بپا ہونا امن کے داعیوں کو نظر نہیں آیا۔کالم نگاروں اور تجزیہ نگاروں اور دنیا کے میڈیا کو فرانس میں ہوئے حملے کو بریکنگ نیوز کے طور پر دکھایا تو جاتا ہے اور ایک دن میں ہزاروں کالم بھی لکھے جاتے ہیں۔ لیکن قندوز میں ہوئے قتل عام ان کی نظروں سے نہیں گزرا۔ ہاں اسٹیفن ہاکنگ اور سری دیوی کی موت پہ خوب ماتم کیا گیا بلکہ ان کو جنت میں لے جانے کے لئے خوب بحثیں بھی ہوئیں ،کالمز بھی لکھے گئے لیکن قندوز کے بچوں کے لئے کسی نے ماتم نہیں کیا۔کیوں کرتے وہ افسروں اور حکمرانوں کے بچے نہیں تھے، وہ تو غریب گھروں سے تعلق  رکھتے تھے ،ان کے لئے آنسو بہانا کیوں؟ہاں چھوڑئے نا وہ بچے حافظ تھے کون سے امریکی یونی ورسٹی میں زیرِ تعلیم تھے۔انہیں اب کون سا انجینئر بننا تھا اور یہ تھوڑے ہی ڈاکٹر بنتے،یہ خاک ڈاکٹر بنتے!ہماری سوچ ایسی ہی ہے ہم تو فرانس پر روتے ہیں، انگریزوں کے کسی بچے کو اگر کانٹا بھی چبھ جائے تو ہمیں معاً درد محسوس ہوتاہے

۔ہمیں تو ان معصوموں کے قتل پر ماتم کرنا بھی گوارا نہیں، ہمارے کام متاثر ہوتے ہیں، مرنے دو بس ہم نے یہ سُنا ہے کہ افغانستان میں بچے مرے ہیں تو کیا ہوا؟حالانکہ قندوز میں معصوم بچوں کا بہیمانہ قتل عام عالمی ضمیر کے چہرے پر ایک طمانچہ ہے۔اس حملے سے عالمی امن پر تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جس کے لئے دنیا کو جاگنا چاہیے۔دنیا کو یہ دو غلہ پن چھوڑ دینا چاہیے اور غیر جانبداری سے دنیا میں ہو رہے مظالم کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔اپنے حقیر مفادات کی خاطر کسی کے لئے بات کرنا انتہائی گھٹیا عمل ہے۔ ہم جانتے ہیں دنیا کی شیطانی قوتیں اور اسلام دشمن عناصر اسی مسئلہ کو اچھالیں  گی جس سے ان کے حقیر مفادات کو فائدہ پہنچے مگر بحیثیت اُمت ہمیں ہر کسی طرح کے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔ بھلے ہی اس میں ہماری ذات بھی کیوں نا متاثر ہو۔”نبی مہربانﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں۔ اگر ایک عضو کو تکلیف ہو تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے یعنی آنکھ کو تکلیف ہو سارا جسم اسے محسوس کرتا ہے اور اگر پا ؤں کو درد ہو تو جسم کے ہر ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمیں اپنے اندر جھانک کر دیکھنا ہوگا کہ کیا اس واقعہ سے ہمیں تکلیف پہنچی ہے،کیا ہماری آنکھ سے کوئی آنسو بہہ نکلا کہ ہم نے دنیا کے ضمیر کو بیدار کرنے کی کوشش کی؟نہیں بلکہ ہمارا حال اس کے برعکس ہے۔ ہم اسٹیفن ہاکنگ اور سری دیوی کی طبی موت مرنے پر ماتم کرتے ہیں۔ لیکن معصوم بچوں کے قتل عام پر جیسے ہمارے لب سی لیے جاتے ہیں۔ہمیں چاہیے کہ ایسے واقعات کے خلاف ہم آواز بلند کریں تا کہ دنیا کی کوئی شیطانی قوت معصوم انسانیت کو دن دھاڑے موت کے گھاٹ نہ اُتارسکے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ قندوز کے شہداء کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور لواحقین کو صبر عطا کرے۔آمین!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply