اپنا بھی خیال رکھیں

انسان اپنی زندگی میں بہت سارے جذبات ، احساسات اور تجربات سے گزرتا ہے ، بعض اوقات تو خوشی اور غم بھی اتنے پُراثر ہوجاتے ہیں کہ سنبھالے ہی نہیں جاتے، کیا آپ نے کبھی سوچا کہ آخر ہم انسان ان جذبات کو اپنے اوپر حاوی کیسے کرلیتے ہیں؟ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ یہ عمل ہارمونز کے محرک ہونے کے بعد تیز ہوجاتا ہے ، بالکل، ایسا بھی ہے کیونکہ یہ بھی قدرت کا ایک قانون ہے جسے کیمیائی تبدیلی کہتے ہیں جو جسم میں مختلف تبدیلیوں کے دوران وقوع پذیر ہوتی ہے۔، اسی لیئے آپ نے دیکھا ہوگااکثر نوجوان اسی عُمر میں باغی اور جذباتی ہوجاتے ہیں۔ چند بچے بچیاں اسی احساسات میں غلط قدم بھی اُٹھا لیتے ہیں یا کچھ انسانی روپ میں بھیڑیئے اُن کا غلط استعمال کرجاتے ہیں، یہ وقت ماں باپ کے لئے انتہائی آزمائش کا ہوتا ہے ۔ ماہر نفسیات اُن احسا سات کی بہت سی بُنیادی وجوہات بتاتے ہیں ۔۔

دراصل ہر زندہ انسان اپنے آپ سے تقریباً ہروقت گفتگو کرتارہتا ہے اور جب بلوغت کا وقت آتا ہے تو پورے جسم میں ایک ہلچل مچ جاتی ہے جیسے زلزلے سے زمین ہلنے لگتی ہے اور شعور سوچنے سے قاصر ہوجاتا ہے تو ایسے وقت میں انسان کے جذبات اُس کا ساتھ دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن دراصل وہ جذبات اُس کوایک خوابی دُنیا سے متعارف کروارہے ہوتے ہیں لاشعور میں، جہاں وہ اپنے لیئے ایک نئی اور پرفیکٹ دُنیا بنتا دیکھ رہا ہوتا ہے اور اپنے آپ سے باتیں کررہا ہوتا ہے دراصل اُسے یہ یقین ہوتا جا تا ہے کہ ’یہ میری اصلی دُنیا ہے یہی میرا مُستقبل ہے، میرا مُستقبل ایسا ہی ہوگا‘ مگر یہ یقین اتنا گھسا پٹا ہوتا ہے کہ اگر کوئی اُسے یہ کہہ دے کہ ابھی محنت کرلو ورنہ مُستقبل میں بہت پچھتاؤگے تو وہ بہت زیادہ جذباتی ہوجاتا ہے اور لڑائی جھگڑے پر بھی اُتر آتا ہے ، بہت سے بچے اُسے بددُعا سمجھ رہے ہوتے ہیں اور اپنا یقین توڑ بیٹھتے ہیں جبکہ ایسے بھی بچے ہوتے ہیں جو اُسے اپنی انا کا مسئلہ بناکر محنت کرکے کامیاب ہوکر دکھاتے ہیں اورچند کو چھوڑکر باقی مغرور ہوجاتے ہیں۔ اور ایسے وقت میں انسان ایک ایسے جذبے سے بھی گزرتا ہے کہ اگر وہ جذبہ شدّت پکڑلے تو یا تو وہ زندگی کو سمجھنے لگتا ہے یا پھرزندگی سے بہت بُری طرح مایوس ہوجاتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب ایسے وقت میں کہ ٹیکنالوجی اپنے عُروج پر ہے تو انسانی مزاج میں بہت بڑی اور تیز تبدیلی آگئی ہے ، کل کو جو حضرات اپنے بچیوں کو کوایجوکیشن میں پڑھانے کے روادار نہیں تھے آج اُن کی بیٹیاں بڑی سے بڑی جامعات میں پڑھنے جارہی ہیں ، لوگ برائی کو جلدی اڈاپٹ کر رہے ہیں ،لیکن ایسے لڑکے لڑکیاں بھی ہیں جو حالات سے نبرد آزما ہیں۔ایسے بچے ہمارے معاشرے کے لیے کہ جہاں بُرائی اور بے حیائی سر چڑھ کر بول رہی ہو رحمت کا باعث ہیں۔سیکھنے اور اصلاح کا عمل انسان کی موت تک جاری رہتا ہے۔ انسانی جذبات کا بگاڑ ہو یا اصلاح ہو یہ انسان کی خود سے گفتگو کے رُخ بدلنے سے ہی آتی ہے ، انسان دوسروں کی نسبت خود سے زیادہ باتیں کرتا ہے اسی وجہ سے وہ اپنے ہر عمل کا ذمہ دار خود ہوتا ہے اور ان جذبات کے کنٹرول کرنے کے لئے اپنی خود کی گفتگو کو بہتر اور مثبت بنانا ضروری ہوتا ہے اور ان سب کے لئے آپ کو اپنے آپ سے دوستی کرنی ہوگی خود کو ترجیح دینی ہوگی ، اپنا اور اپنے خیالات ، جذبات اور احساسات کا خیال رکھنا ہوگا ۔ آپ اپنے تمام خیالات کو کنٹرول نہیں کرسکتے یہ ناممکن ہے مگر آپ خود کے لئے کیا پسند کرتے ہیں یہ آپ کے اختیار میں ہے۔آپ کو دوسروں کا بہت زیادہ خیال ہوتا ہے ، اپنا بھی خیال کریں۔

Facebook Comments

عبداللہ ابن علی
ایک معمولی انسان اور عام سا مسلمان، تقلید سے عاجز اور تحقیق کا دلدادہ، جامعہ کراچی شعبہ ابلاغِ عامہ کا طالب علم اور ادنٰی سا لکھاری۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply