گھروندا ریت کا(قسط4)۔۔۔سلمیٰ اعوان

اور جب خلیج بنگال کی مون سون کلکتے پر چھاجوں پر پانی برسا رہی تھیں۔ دھرم تلے میں واقع پیل پایوں اور خوبصورت جھلیموں والے اُس وسیع وعریض گھر کے آراستہ پیراستہ کمرے میں اُسے انگوٹھی پہناتے ہوئے اُسے ایک باربھی یہ خیال نہ آیا تھا کہ سانولی سی رنگ والی یہ سروقد لڑکی جس کے حُسن ساد ہ نے پہلی ہی نظر میں اُس کے دل کے خوابیدہ تاروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اور جو اب طاہرہ پنیّ کی بجائے طاہرہ رحمن بن رہی ہے۔ آنے والے سالوں میں ایک انتہائی تیز طرّار اور رُعب دوب والی بیوی ثابت ہوگی۔

آسمان کے سینے میں چھید ہو گئے تھے جن میں سے پانی ایک تواتر کے ساتھ بہہ رہا تھا۔آنگن میں اُگے کیلے کے درخت ہوا کے زور سے جُھکے پڑتے تھے اور اسوک کے پھولوں کا رنگ نکھرتا جا رہاتھا۔
پر اتنی تیز بارش کا اثر اُس گھر میں ہونے والی تقریب پر بس معمولی ساتھا۔ مشرقی پر اتنی تیز بارش کا اثر اُس گھر میں ہونے والی تقریب پر بس معمولی ساتھا۔ مشرقی اور مغربی بنگال دونوں ہی اِس کے عادی ہوگئے تھے۔ اِن بارشوں سے اُنہیں کہیں فرار تھا۔

منگنی کی رسم بڑے ہال میں ہورہی تھی۔ دودھیا ٹیوبوں کی روشنی کے ساتھ ساتھ سینکڑوں موم بتیوں کی زرد زرد روشنی کمرے میں پُرسرار سا اُجالا بکھیر رہی تھی۔ مو م بتیاں خوبصورتی کے ساتھ ساتھ دفاعی انتظامات کے تحت روشن کی گئی تھیں کہ اگر برقی روشنیاں گُل ہوجائیں تو اندھیرا بدشگونی کا موجب نہیں بننا چاہیے۔ جیون کا یہ بندھن رنگ وبُو کے ساتھ شروع ہوا اور ایسے ہی ختم ہو۔
طاہرہ کی ماں اس سلسلے میں کچھ زیادہ ہی تو ہم پرست واقع ہوئی تھی۔ بڑی بہو اور بیٹی کو کوئی بیس بار تاکید کی ہوگی۔ دس بار خود اُٹھ کر جائزہ لیا تھا۔

شانتی نکیتن اور لیڈی برے بورن کالج کی شوخ وشنگ لڑکیوں نے اُدھم مچاکر کمرہ سر پر اُٹھا رکھاتھا۔
وہ جب طاہرہ پنّی کے منجھلے اور بڑے بھائی کے ساتھ رسم کی ادائیگی کے لئے ہال میں آیا تو اُس کا سواگت جس طرح ہوا وہ اُسے بوکھلانے کے لئے کافی تھا۔ لڑکیوں سے تو اُس کا خاندان بھی اَٹا پڑا تھا۔ یوں بھی وہ چھ سال تک لڑکیوں کے ساتھ پڑھتا رہا تھا۔ گھبرانے والی بات تو نہ تھی پر ایک تو کلکتہ کی کان کاٹتی لڑکیاں دوسرے موقع محل کی مناسبت۔
خوشگوار موسم کے باوجود اُس کی پیشانی قطروں سے بھر گئی اور چہرہ سُرخ ہوگیا۔ بے بسی سے اُس نے دور کونے میں بیٹھی اپنی بہن دُلدو آپاکو دیکھا جو چیت پورروڈ سے آئے ہوئے اپنے سُسرالی عزیزوں کے ساتھ مل کر بنگلہ لوک گیت گا رہی تھیں۔ اُنہوں نے اُس کی پریشانی کا خیال کیا اور فوراً ہی اُٹھ کر اُ س کے پاس چلی آئیں اُس کے شانوں پر محبت سے اپنے دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے اُنہوں نے کہا۔
”اے گھبرا کیوں گئے ہو؟ اپنے ہی تو لوگ ہیں۔“
خوبصورت لڑکیوں کے جلو میں گلابی ساڑھی میں لپٹی طاہرہ پنّی کو عین اُس کے سامنے صوفے پر لا کر بٹھا یا گیا۔
دُلدو آپا نے انگوٹھی اُس کے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے کہا۔
”لو پہناؤ اِسے۔“
اور وہ تذبذب میں ڈوبا یہ سوچ رہا تھا کہ وہ اب کیا کرے۔ حواس تو قابو میں ہی نہ تھے۔ دائیں بائیں کے فرق کا کیا پتہ چلتا۔ اُ س کی بہن نے اِ س مشکل کو سمجھا اور اُنہوں نے جب اُس کا ہاتھ پکڑ کر دُلہن کی طرف بڑھانا چاہا تو لڑکیوں نے بہُت غُل غپاڑہ مچایا۔
”کیا کرتی ہیں دُلدوآپا۔ واہ اتنے تو دُودھ پیتے بچے ہیں۔“
دو تین لڑکیوں کا قلقاریاں مارتی ہنسی کا غُبارہ جیسے فضا میں پھٹا۔
”لو میاں شادی کرنے آئے ہیں۔“
اور دُلدوآپا جھلّاکر بولیں۔
”نیک بختو دم لو۔ کچھ پھر کے لئے بھی رکھ لو۔“
پر لڑکیاں تو جیسے اُدھار کھائے بیٹھی تھیں۔ یوں تابڑ توڑ حملے کیے کہ وہ مزید بوکھلا گیا۔ اب طاہر ہ پنّی کی ماں نے مداخلت ضروری سمجھی۔
”بس کرو اب۔بہتیرا ستالیا ہے باقی کا شادی پر اُدھار۔“
دائیں بائیں معمر خواتین آکر کھڑی ہوگئیں اور اُن کی مدد سے اُس نے اِس پُل صراط کو جس پر سے وہ پھسلا جاتا تھا جیسے تیسے کر کے پار کر ہی لیا۔
پھر جب مونسونوں کا سارا زور شورختم ہوگیااور وہ برس برس کر ہانپ گئیں۔ تب وہ اپنے چیدہ چیدہ عزیزوں کے ہمراہ اُسے کلکتہ سے بیاہ کر ڈھاکہ لے آیا۔ اُس قدیم تاریخی گھر میں اُتارنے کی بجائے وہ اپنی دُلہن کو بیت المنیرہ لے گیا جہاں تین کمروں کا ایک خوبصورت سا گھر اُ س نے کرائے پر لے لیاتھا۔

جہاں آرا اور دُلدو آپا چاہتی تھیں کہ دُلہن اُس گھر میں اپنا پہلا قدم رکھے جو اُ ن کے باپ کی میراث تھا۔اُنہوں نے اِس پر زور بھی دیا۔ دوسری بہنوں اور بھائیوں نے بھی اپنی سی کوشش کی کہ وہ چند دنوں کے لئے دُلہن کو اُس گھر میں رکھنا چاہتے ہیں۔ اُن کے اصرارکو اُس نے خوبصورتی سے ٹال دیا۔ پرجہاں اآپا کے سامنے اُ س نے اپنے پھپھولے ضرور پھوڑ دئیے تھے۔
”آپ مجھے مجبور مت کریں۔ میں ایسی رسوم اور شگن ویہاروں کا ہرگز قائل نہیں۔ اب اتنی ممتا پھٹ پڑی ہے اُنہیں میری۔جب وقت تھا تو کوئی منہ لگانا پسند نہیں کرتاتھا۔
اُس نے قسم کھا رکھی تھی کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو کر کبھی اِس گھر میں نہیں رہے گا۔ وہ گھر جہاں وہ سدا اجنبی ہی رہا۔ اب تو نہ صرف وہ صاحب روزگار تھا بلکہ ایک عدد بیوی کا شوہر بھی بن گیا تھا۔اب ایسے میں وہ اپنی قسم توڑتا اور اُس ماحول میں چندسانس لینے کے لئے دوبارہ آتا جس کی متعفّن اور دُھوا ں دُھواں فضا میں اُس کا دم گھُٹتا تھا۔
بہنوں، بھاوجوں اور بہنوئیوں نے چبا چبا کر باتیں تو کیں۔ لیکن بھاوجوں نے شکر بھی ادا کیا کہ مصیبت ٹلی۔مُفت میں جو یہاں ڈٹ کر بیٹھ جاتے تو کیا ہوتا؟ گھر تو پہلے ہی تنگ ہو رہا ہے۔ پر چوتھے اور پانچویں نمبر والی بڑی تلملائیں۔ دونوں نے اکٹھے بیٹھ کر دیور اور دیورانی کے چیتھڑے کر ڈالے۔ سات پُشتیں گن ڈالیں۔
آنے والی کا اُونچا مقدراُن کی نس نس میں زہر گھول رہا تھا۔ اپنا ہر دُکھ اُنہیں یاد آیا تھا اور وہ خون کے آنسو روئی تھیں۔ اپنے اپنے شوہروں کا دیور سے موازنہ کرتے ہوئے دونوں نے شوہروں کے ساتھ ساتھ اپنے نصیبے کو بھی جی بھر کر کوسا۔

طاہر ہ رحمن ایک ذمہ دار بیوی ثابت ہوئی۔ اپنے نئے نویلے ہنڈے پر نئی نویلی دُلہن کے ساتھ اُس نے اولڈ اور نیو ڈھاکہ کی ہر گلی اور سڑک کو روندا جہاں اُ س کے عزیز اور رشتہ دار رہتے تھے۔ اُس کا خاندان ڈھاکہ کی قدیم تہذیب کا علمبردار تھا۔ گھر کی خواتین بُرقعے کے بغیر باہرنہ نکلتی تھیں۔ پر وہ اِن دقیانوسی جھمیلوں میں بالکل نہ پڑا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply