وبا کے دنوں میں پڑھی گئی ایک کہانی۔۔روبینہ فیصل

وہ پورے ایک دن کا خواب تھا۔وہ شخص، خواب جیسا،بالکل اس کے سامنے کھڑا تھا، اپنے پو رے قد اور چمکتے چہرے کے ساتھ، اس کی پوری شخصیت پر متانت کی بڑی واضح چھاپ تھی۔
“تو یہ ہے وہ؟” لڑکی نے خود سے سوال کیا۔
ہاں،وہی تو ہے، مینا، جس کی تلاش میں، شاید اپنی پیدائش سے ہی بھٹکتی پھرتی تھی۔اور ابھی بھی اس کو ملنے کئی کوسوں اور کئی سالوں کا سفر طے کر کے آئی تھی۔وہ کون تھا، وہ نہیں جانتی تھی، اس کا پیشہ کیا تھا، وہ یہ بھی نہیں جانتی تھی اور نہ ہی مینا کو یہ سب جاننے میں کو ئی دلچسپی تھی۔اسے جس چیز میں دلچسپی تھی وہ تھی ” محبت”، جو اس دراز قد کے گورے چٹے شخص کے پو ر پو ر سے چھلکتی جاتی تھی اور احساس ِ تحفظ (حیرت کی بات تھی تحفظ کا احساس ایک اجنبی سے؟)۔ایسے محبت بھرے انسان کی تلاش میں اس کی روح کا خالی پن بڑھتا جا رہا تھا، تلاش تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔۔ مگر آج۔۔ آج، شاید وہ ختم ہو گئی تھی۔۔ اسے دیکھتے ہی ایک پل میں ہی میناکے دل نے یہ فیصلہ سنا دیا تھا۔میناکو بڑے بڑے خواب دکھانے اور محبت کے بلند و بانگ دعوے کرنے والوں سے ڈر لگا کرتا تھاکیوں نہ لگتا اس کی زندگی کی کتاب میں ان وعدوں اور خوابوں کی کرچیاں جا بجا بکھری پڑی تھیں۔ وہ ان سب کو سمیٹ کر ان کی قبروں پر ماتم نہیں منانا چاہتی تھی وہ بس ایک سچ کے ساتھ جینا چاہتی تھی، وہ سچ جو شاید آج اس کے سامنے کھڑا تھا۔

وہ سیدھا سادہ  سا نظر آنے والا شخص مینا کا سفری سامان تھامے، سرجھکائے خاموشی سے اس کے آگے آگے چل رہا تھا۔ اس نے لڑکی کو نظر بھر کر دیکھا بھی نہیں تھایا دیکھا ہوگا مگر دیکھنے سے جو حیرت یا مسرت ملی تھی وہ اس کا اظہار نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ اظہار کرنے کے معاملے میں ہمیشہ مار کھا جا یا کرتا تھا، وہ ایک کم گو اور گہرا انسان تھا۔اسے بولنے سے زیادہ ہنسنے میں دلچسپی رہا کرتی تھی مگر اب تو وہ ہنس بھی نہیں رہا تھا۔۔مینا کے چہرے اور لباس کی سادگی اس کو حیران کر رہی تھی کیونکہ اعتماد کے راستے پر یوں تن کرچلنے والی لڑکیاں دیکھنے میں اتنی سادہ  کہاں ہو اکرتی ہیں۔لڑکی کی ذات میں چھپا یہ تضاد اسے حیران اور پریشان کر رہا تھا مگر وہ سر جھکائے خاموشی سے اس کے آگے آگے چلا جا رہا تھا۔ اب وہ دونوں ساتھ ساتھ ٹیکسی میں بیٹھے اپنے اپنے اندر کے اضطراب کو چھپا رہے تھے۔ ملنے کا یہ سفر تو طے کر لیا تھا اور یہ موقع آبھی گیا تھا مگر آگے کیا ہونے والا تھا، دونوں اس معاملے میں بلینک تھے۔۔۔۔بلائنڈ تھے۔

اس شخص جس کا نام قمر تھا ،اس نے نہیں سوچا تھا کہ جب وہ اس اجنبی لڑکی سے ملے گا تو کیا کہے گا۔مینا نے بہرحال ایک لمبی فہرست تیار  کر رکھی تھی۔ اس کو ایک گمان تھا کہ وہ اس ایک دن میں اپنی زندگی کی پوری کی پوری کہانی اس انجان شخص کے حوالے کر نے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اُن دونوں میں بہت سی باتیں مشترک ہو نے کی وجہ سے ہی میناکے ذہن میں یہ خیال شدت سے جڑ پکڑتا جا رہا تھا اسی لئے تو یہ ملاقات ممکن ہو سکی تھی۔وہ اس شخص سے کیوں ملنا اور اس کے ساتھ ڈھیروں باتیں کرنا چاہتی تھی، اس کا اس لڑکی کے پاس کوئی واضح جواب نہیں تھا ،مگر وہ ایسا چاہتی تھی یہ ایک اٹل بات تھی۔۔ ایک ایسے شخص پراپنی زندگی کا بار لاد دینا چاہتی تھی، جس نے اس سے نہ کوئی وعدہ کیا تھا، نہ اسے کوئی خواب دکھایا تھا اور سب سے بڑھ کرجسے وہ ٹھیک طرح سے جانتی تک نہ تھی۔۔

یہ شاید ان سب حادثات کا رد ِ عمل تھا جو اس کی زندگی میں اس تیزی اور اس فراوانی سے رونما ہو ئے تھے ،کہ ان کے ملبے تلے دب کر وہ مٹتی جا رہی تھی۔ وہ اس” ایڈونچر” کو اپنے آپ کو بچانے کی آخری کوشش کے طور پر بھی دیکھ رہی تھی۔

مینا کی روح کا بوجھ اب تک ہواؤں نے اٹھایا تھا، آسمان پر اڑتے پرندے رک کر اس کی باتیں سنا کرتے تھے، جھیل کے پانی میں اٹھتی بیٹھتی لہریں اس کے آنسو اپنے دامن میں سمیٹا کر تی تھیں،مختصراً  قدرت ہی کسی نہ کسی طرح اس کی تنہائی کی مسیحائی کر دیا کرتی تھی۔اس لڑکی کی تاریخ یہ تھی کہ وہ جس انسان کو چھوتی وہی پتھر کا نکل آتا تھا یا کوئی سایہ سا بن جا تا تھا، اس لئے وہ اب اس شخص کو جاننے سے پہلے،انسانوں کی دنیا سے کہیں بہت دور نکل آئی تھی، اسی وجہ سے اس کی دنیا انسانوں سے خالی اور سایوں سے بھر گئی تھی مگر آج اسے ایک گمان تھا کہ آج وہ ایک” انسان “سے ملنے والی ہے اور اب تک اس کا یہ گمان سچ ہی لگ رہا تھا۔ وہ سایہ نہیں تھا، وہ ایک انسان تھا، سچ مچ کا انسان، مٹی کا بنا، جس کو اپنے وجود کی مٹی کا بھر پو ر احساس تھا، اور جس کی مٹی اس لڑکی کے آنسو پی جانے کی طاقت رکھتی تھی۔ اس نتیجے پر وہ ان دونوں کے درمیان ہونے والی دو تین سالوں پر پھیلی خط و کتابت کے بعد پہنچی تھی۔

کاغذ پر لکھے اس شخص کے فقط الفاظ ہی اس کے دل کو خوشی اور اطمینان سے بھردیا کرتے تھے۔۔ وہ سوچوں میں گم تھی کہ ٹیکسی منزل پر پہنچ کر رک بھی چکی تھی۔ وہ ٹیکسی سے اترتے ہوئے بولا “آئیے آپ کو ایک خوبصورت جگہ لے کر جا تا ہوں “۔

مینا، ہپناٹئز ڈ سی اس کے پیچھے پیچھے چلتی جا رہی تھی، وہ جو اپنی زندگی کا ہر چھوٹا بڑا فیصلہ کرنے کی خود عادی تھی۔ جسے لگتا تھا، دماغ کو ایک پل بھی ڈھیلا چھوڑا تو وہ دھڑام سے زمین بوس ہو جائے گی۔ اس کے اعتماد کے بار بار ٹوٹے جانے کے عمل نے اسے شاکی طبعیت کا بنا دیا تھا مگر اب وہ سب حصار توڑ چکی تھی اور اپنی طبعیت کے برعکس ایک فیصلہ کر کے یہاں تک آچکی تھی۔۔۔ اس اجنبی،کے ساتھ ایک” انجان جگہ” پر کھڑی تھی جس کے بارے میں قمرنے کہا تھا کہ” خوبصورت جگہ “۔اس جگہ پر گلا ب ہی گلاب تھے۔ وہ شخص انجان تھا، مگر پھر بھی مینا کے بتائے بغیر ہی جان گیا تھا کہ اس کے نزدیک خوبصورتی “گلاب “ہے۔مینا کی زندگی بھر کی حسرت ایک ایسا ہی گلاب تو تھا جس کا رنگ اور خوشبو سچی ہو۔ مینا کو یہ بات اتنی بھائی کہ دل میں پھوٹنے والی محبت کی کچی کلی یکا یک پو رے گلاب میں بدل گئی۔۔ وہ اس شخص سے جس کی اب تک وہ عزت کر رہی تھی، محبت کرنے لگی۔ اس کے اندر سے آواز آئی گرفتاری کا وقت ہوا چاہتا ہے۔۔ ایسی گرفتاری جس کی نہ جانے وہ کب سے متمنی تھی۔۔

وہ دونوں گلابوں سے گزر کر کمرے کے دروازے تک پہنچ گئے، درواز ہ کھلتے ہی گلاب کی خوشبو ان کے ساتھ ساتھ کمرے میں داخل ہو گئی۔مینا تھکی ہو ئی تھی اس لئے وہ کمرے میں بچھے پلنگ پر نیم دراز سی لیٹ گئی۔قمرسامنے صوفے پر خاموشی سے جا بیٹھا، اسے خبر تھی کہ آج وہ صرف ایک بہترین سامع ہو گا، کچھ باتیں ملنے سے پہلے ان کے درمیان طے ہو چکی تھیں۔

مینا، ا س کے پاس اپنے عمر بھر کے صدموں سے جان چھڑانے آئی تھی۔۔ وہ اس کمرے میں سب کچھ دفنانے آئی تھی مگر وہ اندر سے گھبرا رہی تھی۔۔ گھبراہٹ کے آثار چہرے پر نظر نہ آئیں اس بوکھلاہٹ میں اپنے ماتھے پر آئے بالوں کو وہ بار بار پیچھے جھٹکتی جا رہی تھی۔ یہ راز وہی جانتی تھی کہ جب بھی وہ بہت زیادہ گھبراہٹ کا شکار ہو تی، اسے چھپانے کی خاطر وہ غیر ارادی طور پر بالوں کو پیچھے کر نے لگ جا یا کرتی تھی۔۔ اس کی یہ غیر ارادی حرکت قمر کے لئے ایک پُر کشش عمل تھی،اس کا دل اس کی جانب بے اختیار کھنچنے لگا ۔ متانت چہرے پر ہی نہیں تھی، وہ شخص سچ میں متین تھا، اسی لئے ضبط کیے بیٹھا رہا، کیونکہ ان دونوں کے صوفے اور بیڈ کے درمیان زمانہ اور زمانے دونوں حائل تھے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے لئے انجان تھے مگر کیسے انجان تھے کہ ان کا ایک دوسرے سے ہر بات کہہ دینے کو دل کر رہا تھا۔مینا نے جب اس سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا تو وہ نہ جانے اسے کوئی ساحر سمجھ رہی تھی جو اپنے سحر سے اسے ماضی کے تمام دکھوں اور دھوکوں سے نجات دلا دے گا، حال کو جینا سکھا دے گا اور مستقبل کے تمام اندیشوں کو اس کے دل و دماغ سے غائب کر دے گا؟ پتہ نہیں وہ اسے کیا سمجھ رہی تھی مگر اس پوری کائنات میں اس کی زندگی کی اصلی کہانی سننے کا واحد اہل شخص وہی تھا، ا سکے بارے میں مینا کو رتی برابر بھی شک نہیں تھا۔

قمر بھی اس پر اعتماد کر رہا تھا۔ اس لڑکی کو دیکھتے ہی جو اس کا بھول پن قمر کو نظر آیا تھا،مینا کے کردار کی سچائی کی مزیدگواہی کے لئے کافی تھا۔

زندگی کی کہانی ایک دن میں کیسے ختم ہو گی، مینا کے نزدیک یہ تو اب سوال ہی نہیں رہا تھا۔۔ باہر بکھرے گلاب اورقمرکی چاند جیسی روشن پیشانی کو دیکھتے ہی مینا کی دکھ بھری کہانی، جس میں اس کی ذلت اور ہونے والی ناقدریوں کے کئی ابواب تھے، مینا کے اندر ہی کسی بے جان چیز کی طرح،ڈھیر ہو گئے  تھے۔۔مینا کو اب اپنی کہانی سنانے سے کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی تھی۔۔ ابھی ابھی اس کی زندگی کی کہانی اس کے اندر ہی مر گئی تھی اور اب صرف سامنے بیٹھا شخص اس کے لئے ایک زند ہ حقیقت تھا۔۔ اپنے پورے قد بت کے ساتھ۔۔ اتنا زندہ، اتنا دراز قد کہ تمام دنیا اس کے سامنے چھوٹی سی، بے اوقات  سی لگنے لگی۔۔ شاید وہ یہی چاہتی تھی کہ کوئی ایسا جادوگر آئے جو اس کی سوچوں کو، دل کو اور اس کے جسم کو ایسے جکڑ لے کہ وہ سب کچھ بھول جائے ماسوائے اس جادوگر کے۔۔۔ اس ساحر کا سحر کام کر رہا تھا مگر ایک عجیب بات بھی ہو نے لگی، جب وہ اپنی زندگی بولنے لگا تو میناکو وہ مضبوط شخص جس کا وہ سہارا لینے آئی تھی ایک دم سے ایک بھولا سا، ننھا سا بچہ  لگنے لگ گیاتھا۔کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ایک شخص ایک ہی وقت میں آپ کو اپنا “سہارا “بھی لگے اور ساتھ میں اسے دیکھ کر،اسے سن کر آپ کے اندر “سہارا “دینے کی خواہش بھی پیدا ہوجائے۔ اور آپ اس شخص کو سینے میں چھپا بھی لینا چاہتے ہوں اور اس کے سینے میں چھپ بھی جانا چاہتے ہوں۔۔بیک وقت۔۔۔

اس پیچیدہ سوال نے مینا کو یکا یک دو عورتوں میں تقسیم کردیا، ایک بہت کمزور اور ایک بہت مضبوط عورت میں ۔۔وہی ہوا، جادوگر کا جادو چل چکا تھا اور اس نے مینا کو اپنے جادو سے دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا مگر دونوں حصے اپنی اپنی جگہ بالکل مکمل لگ رہے تھے۔۔ تشنگی کا احساس نہ کمزور لڑکی میں باقی رہا تھا اور نہ مضبوط عورت میں۔

قمر کی گفتگو کا سلسلہ کچھ زیادہ طویل نہیں تھا اور پھر اس کے بعداس کو کسی کام سے باہر جانا تھا وہ چلا گیا۔مینا،اس کے جاتے ہی نہا دھو کر فریش ہو کر اسی صوفے پر جا لیٹی جہاں وہ کچھ دیر پہلے بیٹھا تھا۔ صوفے نے اسے اپنی آغوش میں سمیٹ لیا اور وہ جلد ہی کچی پکی نیند کی وادیوں میں اتر گئی۔۔ لیٹنے سے پہلے اس نے اپنی پسندیدہ غزل ریکارڈر پر چلا دی تھی۔کچھ دیر اسی حالت میں لیٹے لیٹے گزر گئی اور پھر بند آنکھوں کے پیچھے سے مینا کو چاند  کا ہلکا عکس نظر آنے لگا۔۔” تو وہ آگیا ہے”۔۔قمر کمرے میں آچکا تھا۔۔ اونگھتے ہو ئے بھی قمر کی نظروں کی تپش سے اس کے رخسار جل رہے تھے، وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔اسی اثنا میں قمر دور پڑی کرسی پر بیٹھ چکا تھا۔

وہ چاک و چوبند ہو کر بیٹھ گئی اور پھر سے ان دونوں کی باتوں کا کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو چکا تھا کیونکہ ان کے درمیان کتنی ہی قدریں، کتنی ہی عادتیں،کتنے ہی شوق مشترک تھے۔
باتیں کرتے کرتے نہ جانے قمر کو کیا ہوا۔۔ شاید ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا تھا یا پل بھر کو پیچھے رہ جانے والے رشتوں کی گرہ ڈھیلی پڑ گئی تھی، جو بھی تھا وہ ایکدم سے اٹھا اور مینا کے بالکل قریب آبیٹھا۔مینا کے بکھرے بال جنہیں وہ بہت دیر سے دور دور سے دیکھ رہا تھا، انہیں اپنے ہاتھوں سے سنوارنے لگا، وہ جیسے سالوں سے اسی ایک لمحے کی منتظر تھی وہ مسحور سی ہو گئی۔۔ کسی اجنبی کے ہاتھوں کا لمس اتنا پیارا بھی ہو سکتا ہے، اتنا عقیدت سے بھرا ہوا بھی ہو سکتا ہے؟ اس کے اندر اٹھنے والے اس سوال کے بعد ان کے ہونٹوں نے ملاپ کا سفر طے کرنے میں ایک منٹ بھی نہیں لگایاکہ اس شخص کے ہونٹوں میں بھی، ہاتھوں کی طرح پیار کے لمس کے ساتھ ساتھ عزت دینے کا واضح اشارہ تھا۔۔ وہ اسے یوں چھو رہا تھا جیسے کوئی قیمتی چیز ہو۔۔ نہیں۔۔بلکہ جیسے کوئی نازک چیز ہو، جو زور سے ہاتھ لگانے سے ٹوٹ جا ئے گی۔محبت کے ایک مقام پر تو مینا کو یہ احساس بھی ہوا جیسے وہ اسے کوئی دیوی سمجھ کے اس کی پو جا کر رہا ہے۔۔ چومنے میں محبت سے بھی زیادہ عقیدت اور حیرت تھی۔۔ اس پیاری سی لڑکی کے لئے عقیدت،قمر کے اندر سے پھوٹ رہی تھی اور حیرت،مینا کے بھول پن اور خود سپردگی کی وجہ سے ہو رہی تھی۔ وہ مینا کو چومتے چومتے بار بارکہہ اٹھتا “دل کر رہا ہے بس تمھیں چومتا جاؤں۔۔۔”

گلاب کے پھولوں کے بعد اس فقرے نے لڑکی کو رُلا دیا۔۔محبت ایسے بھی مل سکتی ہے۔ ایسے ہی کسی اجنبی سے کسی دور مقام پر، یو نہی بے وقت اور غیر متوقع طور پر۔۔وہ تو اس تھوڑے سے وقت میں سچ مچ کی دیوی ہی بن گئی ۔۔۔

اور پھریہ وقت بھی گزر گیا جس کو پانے کے لئے ان دونوں نے ایک ایک دن گزارا ایک ایک لمحہ گن گن کر گزارا تھا۔۔
اور پھر مینا سے قمر بچھڑ گیا۔۔ بغیر کسی وعدے کے بغیر کسی دعوے کے۔۔وہ بچھڑ گیا۔
مگرمینا کا کبھی نہ ختم ہونے والا سفر ختم ہوا،وہ جو ایک سچ کی تلاش میں بھٹک رہی تھی مکمل ہوچکی تھی۔ کمرے میں گلاب کی خوشبو پھیلی رہی، نا محرم جسموں کے ملاپ کے باوجود ان کے درمیان ہو نے والی محبت “محرم” رہی۔۔مینا کا دل گلاب بن چکا تھا اور قمر کی زندگی میں یہ دن ایک خوشگوار یاد کا بیج بن جائے گا جو اس کی سپاٹ زندگی کو ہمیشہ خوبصورت کلیاں دیتا رہے گا۔

مینا کی سب پرانی کہانیاں مر گئی ہیں اور اب اسے جب بھی قمر کا پیار اور احترام سے بھرا لمس یاد آتا ہے تو وہ ہنس لیتی ہے اور دوبارہ پانے کی تڑپ میں رو بھی لیتی ہے۔۔ منافقوں کی دنیا میں ذلت اور ٹھکرائے جانے کے دن جب اس پر اترتے ہیں تو وہ اس عزت کو یاد کر کے خود کو سنبھال لیتی ہے جو اس ایک دن میں اسے ملی تھی۔۔ ایک دن میں کو ئی اپنی پو ری زندگی کیسے جی سکتا ہے؟ایک انسان ایک دن میں ایک کہانی کو کیسے مکمل کر سکتا ہے۔۔؟

قمر اب بھی اس سے جدا ہے، وہ اس کی زندگی میں نہیں ہے۔۔ مگر وہ،میناکے اندر زندہ ہے۔۔ اس کے اندر ہی کہیں رچ بس گیا ہے۔۔ بھلازندگی دینے والے ہاتھوں کو کون بھول سکتا ہے، عزت دینے والی نظروں کو کون بھلا سکتا ہے۔ وہ انجان شخص اس کے ساتھ نہیں چلتا، وہ پھر سے اکیلی ہے مگر ایسی اکیلی نہیں جیسے پہلے ہوا کرتی تھی اب وہ ایسی اکیلی ہے کہ اس کے اندر پورا ایک شخص آباد ہے۔۔ایک پوری دنیا کی طرح۔”
کہانی ختم شد

Advertisements
julia rana solicitors

آج جب کرونا کی وبا پھیلی ہو ئی ہے۔ لوگ اپنے اپنے گھروں میں نظر بند ہیں ایسے میں ایک لڑکی،کسی گمنام رائٹر کی لکھی یہ سالوں پرانی کہانی کو پڑھتے پڑھتے رو پڑی ہے۔کیا سالوں زندہ رہنے کے بعد بھی لوگ سچی محبت اور عزت کی کمی کی وجہ سے مردہ رہتے ہیں اورکیا سالوں مردہ رہنے کے بعد بھی ایک دن کی محبت،ایک قطرہ عزت، انسانوں کو زندہ کر سکتی ہے۔۔؟واہ!وہ محبت کی یہ انوکھی کہانی پڑھ کر حیران ہو رہی ہے،ایسی کہانی جسے نہ یہ سماج مانتا ہے اور نہ ہی کوئی مذہب پناہ دیتا ہے،مگر پھر بھی وہ لڑکی مینا کی خوش قسمتی پر رشک کر رہی ہے کہ چلو کوئی تو ہے جو محبت کے پھل کا مزہ چکھ گیاہے،سچ کی تلاش میں اس کا سچ سے سامنا ہو ہی گیا،چاہے ایک دن کے لئے ہی سہی۔ورنہ آج کے دور میں تو محبت ایک پرانے زمانے کی رسم ہی بن کے رہ گئی ہے جسے بس لوگ رسم کی طرح ہی مناتے ہیں، نبھاتے نہیں۔۔ اور سچی محبت ایسی متروک شئے بن چکی ہے کہ بس آثار ِ قدیمہ کے کھنڈرات میں سے ہی ملے تو ملے اور چونکہ انسانوں کے سایہ بننے کے عمل کو روکا نہیں جا رہا تھا اور نہ ہی محبتوں میں ملاوٹ کو مائنڈ کیا جا رہا تھا۔۔ بس ہر طرف موو آن موو آن کا شور تھا۔ ایک چھوڑ دوسرا پکڑ۔۔بھاگم دوڑ اور نفسا نفسی تھی اور محبت کا دوسرا نام بلکہ ” اصلی نام “بس “دھوکہ” ہی رہ گیا تھا۔۔ لوگ تو اس صورتحال کو قبول کر چکے تھے اور اس کے عادی ہو تے جا رہے تھے مگر ایسی صورتحال پر قدرت پریشان ہورہی تھی اور پھرپریشانی بڑھتے بڑھتے اتنی بڑھی کہ فطرت نے خود ہی انسانوں کو چھوٹا کرنے اور سایوں کو لمبا کرنے کا فیصلہ کر لیا۔۔۔کھوٹے رشتوں اور منافقتوں کا اتنا تعفن پھیل رہا تھا کہ وبا بر حق لگنے لگی تھی۔
جو انسان سچائی کو وائرس کی طرح چمٹ گئے تھے اور” اس” کی موت کا باعث بن گئے تھے، ان انسانوں کو وائرس چمٹنے لگا اور پھر لوگ مرنے لگے اور وبا پھیلتی گئی۔جھوٹوں کے ساتھ مٹھی بھر سچے بھی مارے جانے لگے اور وبا پھیلتی گئی یہاں تک کے اس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اور پھر لوگوں کو گھروں میں بند ہو نے کے حکم جاری ہونے لگے، انسان کی انسان سے ملنے پر پابندیاں لگنے لگیں۔۔ کیونکہ اب فطرت نے انسانوں کو قید کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔۔
مگرکہانی پڑھنے والی لڑکی کو یقین ہو چلا ہے کہ اب راستہ کھلے گا، آسمان سے شفق دبے قدموں، گھروں کے آنگن میں اترے گی اور دلوں کی بد رنگی بھی دھل جائے گی۔ سچائی کے گلاب کسی معصوم کے لئے صرف” ایک دن” کے لئے نہیں بلکہ سدا کے لئے مہکیں گے۔ منافقت اور دھوکے کی سڑاند ختم ہو گی، فضا میں ” سچ کی خوشبو “بسے گی۔۔ کائنات زندہ ہو گی اور شرط یہ ہو گی کہ انسان” انسان کا بچہ” بنے گا تو رہے گاورنہ مرے گا۔۔ فطرت بھی خود کو بچانے کی کوشش میں یہ تجربہ کر رہی ہے بالکل مینا کی طرح جو خود کو بچانے کی آخری کوشش کی خاطر” ایک دن کی محبت” اور” سچ” کو پانے کااپنی زندگی کا انوکھا اور مشکل ترین تجربہ کر گزری تھی۔۔اور وہ لڑکی سوچ رہی تھی کہ منزل چاہے” سچائی”
اور”محبت” ہی کیوں نہ ہو اورتجربہ کرنے والا انسان ہو یا فطرت، گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو انگلی ٹیڑھی کرنی پڑ جاتی ہے۔۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”وبا کے دنوں میں پڑھی گئی ایک کہانی۔۔روبینہ فیصل

  1. A beautiful story which reflects the fast changing dynamics of our times. Rubina Faisal, like all the extraordinary writers has the gift to foresee the future. Post Corona world would be different. In our short lives, we have seen far to many watershed moments. Of course, there is no guarantee that the present crisis would be the last of such defining moments

Leave a Reply