پنجابی ہنرمندی ، تانبے کے برتن/منصور ندیم

تانبے کے برتن یونیسکو میں درج پنجابیوں کا غیر محسوس ورثہ
پنجاب میں ہلچل مچانے والے ثقافتی اور مذہبی مرکز امرتسر کے مضافات میں واقع ایک پُرسکون شہر جنڈیالہ گرو کی تنگ گلیوں سے گزریں تو آپ کو دھاتی چادروں سے ٹکراتی ہوئی کاریگروں کی “ٹھک ٹھک” آوازیں ایک ایسی منزل کی طرف لے جائیں گی جہاں سکھ برادری کے تھاتھرس کاریگروں کی ایک محنتی برادری نظر آتی ہے، جو دو صدیوں سے اس غیر رسمی قصبے میں پیتل اور تانبے کے برتن تیار کر رہے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جنڈیالہ کے مترادف ہتھوڑے کی آواز اور مدشن کی آواز آہستہ آہستہ مدھم ہوتی جارہی ہے، یہ سنہء 1838 کا ذکر ہے، جب انیسویں صدی کے ہندوستان میں سکھ بادشاہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے مقامی لوگوں کے لئے دھات کے ہنرمندوں کو کشمیر سے بلا کر پنجاب یعنی اپنی سلطنت کے قلب میں بسانے کا سوچا، اس نے کشمیر سے ہنرمندوں کو ترغیب دے کر جنڈیالہ گرو میں بسا ڈالا، وہاں تانبے اور پیتل کے عظیم و مرکزی تجارتی شہر بنا ڈالے۔ مشترکہ ہندوستان میں یہ دونوں مقام پیتل کے برتن اور گھریلو مصارف کی اشیاء کی ہنرمندی سے برتن بنانے والے کاریگروں کی نسبت سے معروف ہوئے۔
پنجاب کی زمین کو تانبے، پیتل اور کانسی کے برتنوں کی ہنرمندی کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، جو روایتی طور پر پورے برصغیر میں استعمال ہوتے ہیں۔ بر صغیر میں تانبے اور کانسی کے برتنوں کو کھانا بنانے کے لیے صحت کے حوالے سے بہترین دھات سمجھا جاتا ہے، اس کی ایک وجہ قدیم ہندوستان میں آیوروید ( قدیم ہندوستانی مکتبہ طب) کی ترغیب بھی شامل رہی ہے۔ اس لئے جنڈیالہ گرو ہندوستان میں ایک علاقہ ہے جہاں پر تھاتھروں کے نام سے ایک سکھ آبادی ہے، جو قدیم ہندوستان میں گجرنوالہ سے یہاں ہجرت کرکے آئے ان کے قریب 400 خاندانوں پر مشتمل آبادی آج کے مشرقی پنجاب میں آباد ہیں اور اس روزگار سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے یہ ہجرت سنہء 1947 کی تقسیم کے بعد کی، کشمیری مسلم تھاتھرس برادری پاکستان ہجرت کر گئے، اور جو گجرنوالہ میں 400 ہندو تھاتھرس تھے، وہ خاندان پاکستان سے ہجرت کرکے جنڈیالہ گرو چلے گئے، ثقافتی، نسلی اور آبادیاتی تبادلے نے گجرنوالہ سے جیسے یہ فن چھین لیا۔ خیر آج بھی پاکستان میں اس ہنرمندی سے وابستہ لوگ موجود ہیں۔
ویسے تو پنجاب کے پاس یہ وراثت 200 سال پرانی ہے، لیکن یہ صدیوں پرانی روایتی دستکاری اب معدوم ہوتی دکھائی دے رہی ہے، جس کی وجہ جدید برتنوں کا استعمال جیسے اسٹین لیس اسٹیل، پلاسٹک اور سیرامک اور شیشہ اب ہماری روزمرہ کی زندگی میں ہر جگہ موجود ہے۔ حالانکہ اس کے باوجود آج بھی پنجاب کے ہر گھر میں آپ کو تانبے یا کانسی کا بنا یوا کوئی نہ کوئی برتن یا فن پارہ بہرحال ضرور ملےگا۔ اب اس فن سے متعلقہ لوگ بھی پچھلی چند دہائیوں کے دوران، مختلف دوسرے پیشوں میں منتقل ہوگئے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کچھ لوگ شوقیہ آج بھی اس دستکاری کے بارے میں جاننے اور اس منفرد دستکاری کو خریدتے ہیں، حتی کہ عرب ممالک میں آج بھی کسی نہ کسی درجے میں ان کو پسند کیا جاتا ہے۔ نگر بالمجموع یہ شعبہ پہلے کی نسبت انحطاط کا شکار ہوا ہے۔ مگر یہ وہ واحد ثقافت ہے جسے سنہء 2008 میں دہلی میں مقیم ایک مورخ اور کمیونٹی ڈویلپمنٹ ماہر ڈاکٹر یامینی مبائی نے اس دستکاری کے لیے یونیسکو میں نامزدگی کا دستاویز تیار کرنے کے لیے کام کیا۔ اور بالآخر سنہء 2014 میں پورے ہندوستان یا برصغیر کا واحد پیشہ جسے یونیسکو کی غیر محسوس ثقافتی ورثے Intangible Cultural Heritage of Humanity کی فہرست میں کیا گیا۔
نوٹ :
1- ایسا نہیں ہے کہ کانسی اور تاببے سے صرف برتن ہی بنتے ہیں، بے شمار گھریلو سجاوٹ کی اشیاء بھی بنتی ہیں ۔
2- الہ دین کا چراغ بھی تانبے کا یہ تھا، جسے پنجابی ہنرمندوں نے ہی بنایا تھا، دنیا کی ہر تہذیب پنجابیوں کے احسان تلے دبی ہوئی ہے اگر یہ چراغ نہ بناتے تو عرب کا اتنا بڑا تمثیلی کردار کبھی تشکیل نہ پاتا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply