• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • حضرت محمد ﷺ بطور ترقی پسند رہنما۔سیاسی اور سماجی اصلاحات/مکالمہ سیرت ایوارڈ۔۔۔محمد اشتیاق

حضرت محمد ﷺ بطور ترقی پسند رہنما۔سیاسی اور سماجی اصلاحات/مکالمہ سیرت ایوارڈ۔۔۔محمد اشتیاق

پروردگار کی حکمت تھی کہ اس نے تمام پیامبروں کو فی زمانہ معزز خاندانوں میں پیدا کیا جن کی سماجی حیثیت شک و شبہے سے بالاتر ہو۔ حضور پاک ﷺ کی پیدائش بھی ایک ایسے خاندان میں ہوئی جس کی مکّہ میں قدرومنزلت سب سے زیادہ تھی۔ حضور کے دادا عبدالمطلب خانہ کعبہ کے متولی تھے۔ خانہ کعبہ زمانہ جاہلیت میں بھی عزت و جاہ کا مقام تھا اور خانہ کعبہ کے متولی کو اس معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اس کی بات غور سے سنی جاتی تھی اور اہمیت دی جاتی تھی۔

حضور پاکﷺ اپنے خصائل سے قبل از اسلام ہی شہر مکہ میں ایک نمایاں سماجی شخصیت کے طور پہ پہچانے جاتے تھے۔ آپ ﷺ نے اپنے قول و فعل کی پختگی سے صادق اور امانتداری سے امین کا لقب پا لیا تھا۔ اپنی پیشہ ورانہ ایمانداری اور محنت سے مکہ کے سرمایہ کاروں کی شراکت داری کا سب سے پہلا انتخاب بن گئے تھے۔ اہلیان مکہ ان کے اعلیٰ اخلاق کے قائل تھے اور ان کی شرافت کی گواہی دیتے تھے۔ خانہ کعبہ کی تعمیر کے دوران حجر اسود کی تنصیب کا اعزاز حاصل کرنے کے لئے قبیلوں کے درمیان تلواریں میانوں سے باہر آئیں تو اتفاق آپ ﷺ پہ ہوا۔ آپ نے بھی سب کی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی حکمت عملی سے سب کو اس اعزاز میں شریک کیا۔ احساس ذمہ داری کا یہ عالم کہ ہجرت کے وقت، جو جان کے دشمن تھے ان کی امانتوں کی اتنی فکر کہ اپنے جان سے عزیز بھائی کو موت کے بستر پر تو لٹا گئے مگر اپنی امانتداری پر سوالیہ نشان نہ لگنے دیا۔

مدینے میں داخل ہوتے ہیں تو اس معاشرے کی بنیاد رکھتے ہیں جس کو قیامت تک مثال کے طور پہ پیش کیا جانا تھا۔ اوس و خزرج جو ایک دوسرے خون کے پیاسے تھے، ان کے درمیان پہلے معاہدے اور پھر تربیت کے ذریعےعزت واحترام کا رشتہ قائم کیا، ان کو اتنا معزز بنا دیا کہ وہ “انصار” قرار پائے، جن کی اولاد میں سے بھی کوئی آجاتا تو خلفاء تک احترام سے کھڑے ہو جاتے تھے۔ مہاجرین اور اہل مدینہ کے درمیان “مواخات” کا معاہدہ کیا اور دو مختلف مزاج رکھنے والے گروہوں کو ایسے محبت کی ڈور سے باندھا کہ کبھی تعصب پیدا نہ ہو سکا ۔

مدینے میں جب ایک نئے معاشرے کی بنیاد رکھی توامن وآشتی کے لئے یہود کے ساتھ ایک سماجی معاہدہ کیا۔ یہودی اوس وخزرج سے کہیں پہلے بخت نصر کے حملوں سے بھاگ کر یہاں آباد ہوئے تھے۔ ان کا مدینہ پر گہرا اثرورسوخ تھا۔ ان سے امن قائم کیے بغیر وہاں کسی مستحکم معاشرے کا تصور عبث تھا۔ اس لئے مسلمانوں اور مختلف یہودی قبیلوں کے بیچ مذہبی رواداری، انصاف، دفاع، اور مواخذے کا ایک امن معاہدہ کیا جسے “میثاق مدینہ” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس میثاق نے نوزائیدہ ریاست کو درکار ابتدائی استحکام دیا۔ مدینہ اور اس کے نواح میں موجود قبائل سے امن اور مشترکہ دفاع کے اس معاہدے سے ایک طرف مدینے کے رہنے والوں کو سکون ملا تو دوسری جانب مسلمانوں کو مضبوط ہونے کے لئے موقع۔

قرآن کا پہلا اترنے والا لفظ “اقراء” تھا۔ تعلیم کی اہمیت پر اس سے بہتر زور نہیں دیا جا سکتا تھا۔ حضور پاک ﷺ نے تعلیم کے فروغ کو اپنی حکومتی پالیسی کا حصہ بنایا۔ مدینہ آنے سے پہلے ہی حضرت مصعب بن عمیر رض کو تعلیم دینے کے لئے بھیج دیا۔ ہجرت مدینہ کے بعد قبا میں مدرسہ قائم کیا بعد ازاں مسجد نبوی میں تعلیم کے شوقین لوگوں کے لئے رہائش اور کھانے کا انتظام کیا۔ انہیں “اصحاب صفہ” کہا گیا۔ یہاں ہمہ وقت طالبعلم تعلیم کے حصول میں مشغول رہتے ۔ “اصحاب صفہ ” کی تعداد 400 تک تھی۔ تعلیم کو دی جانے والی اہمیت کا اندازہ اس رعایت سے لگایا جا سکتا ہے جو جنگ بدر کے قیدیوں کو دی گئی۔ جو قیدی پڑھنا لکھنا جانتے تھے ان کو موقع دیا گیا کہ وہ مسلمانوں میں سے کسی کو پڑھنا لکھنا سکھا دے اور آزادی کا حقدار بن جائے۔ یہاں یہ سبق بھی دیا گیا کہ تعلیم کے حصول کے لئے کسی کافر سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔ حضور ﷺ نے علم کو اپنی میراث قرار دیا۔

آپ ﷺ نے طبقاتی اونچ نیچ کو یکسر باطل کر دیا۔ اسلام کی تعلیمات میں انسانوں کی جس برابری کا سبق دہرایا گیا ہے اس کی عملی مثال ریاست مدینہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ حضرت بلال رض جو افریقہ سے لائے گئے ایک غلام تھے، کو “سیدنا بلال” بنا دیا۔ یہ اسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ جب خلیفہ کا حکم ہوتا ہے تو وہ غلام، سیف اللہ حضرت خالد بن ولید رض کا احتساب کرتے ہوئے ان کا عمامہ اتار دیتا ہے اور خالدبن ولید سر جھکائے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ سیف اللہ کا وہ سر احکام الہی کے آگے جھکا تھا۔ یہ حکم کسی غلام یا آزاد حیثیت سے بالاتر تھا۔ یہ “کسی عربی کو عجمی پہ اور عجمی کو عربی پہ فوقیت نہیں ہے” کا عملی مظاہرہ تھا۔ اپنے غلاموں کے ساتھ ایسا نیک برتاؤ کہ زید بن حارثہ رض اس محبت کی ڈوری سے بندھ کر اپنے حقیقی باپ کے ساتھ جانے سے انکار کر دیتا ہے اور اپنا نام تاریخ میں “زید بن محمد” لکھوا جاتا ہے۔ آپ ﷺ ایک غلام کے بیٹے کو سپہ سالار بنا کر بھیجتے ہیں تو مکے اور مدینے کے معزز خاندانوں سے تعلق رکھنے والے جید صحابی سر تسلیم خم کر کے اس کے احکامات پہ عمل کرتے ہیں ۔

حضور پاک ﷺ عورتوں کے حقوق کے علمبردارتھے۔ آپ ﷺ نے اسلام کے اصولوں کے مطابق عورت کو عزت، احترام اور حقوق دئیے۔ ازواج مطہرات کو خانگی معاملات میں اختیار دے کر اس کا عملی ثبوت دیا۔ عورتوں کی کسی معاملے میں رائے لیا جانا مکہ کی روایات کے خلاف تھا لیکن آپ کے گھر کی خواتین کو یہ حق حاصل تھا۔ آپ ﷺ نے عورتوں کو وہ حقوق دئیے جن کا تصور تب بھی ناممکن تھا۔ ایک آزاد کردہ لونڈی نے جب خیارعتق کے مطابق اپنا نکاح فسخ قرار دیا تو آپ ﷺ نے اس کے خاوند کی افسردہ حالت کی وجہ سے اس عورت کو بلا کر سفارش کی۔ اس عورت نے تب بھی سفارش ماننے سے انکار کیا تو اس کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے آپ ﷺ نے اس کے نکاح کو ختم کر دیا کیونکہ آزادی کے بعد سابق شوہر کے ساتھ رہنا یا نہ رہنا اس کا اختیار تھا۔

غرضیکہ حضور ﷺ نے ایک ایسے فلاحی، رفاحی، سیاسی اور روشن خیال معاشرے کی بنیاد رکھی جس کے بنیادی اصولوں سے انحراف کرتا کوئی نظام، فلاحی یا رفاحی معاشرہ تشکیل نہیں دیا جا سکتا۔ کسی بھی فلاحی معاشرے کا تجزیہ کیا جائے تو وہ آپ کو ریاست مدینہ کے وضع کردہ بنیادی ڈھانچے پر استوار ملے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم خود اس معاشرے کی بنت کریں، ناکہ زبانی جمع خرچ اور وقتی فائدے کے لئے اس کی تشہیر پر ہی اکتفا کریں۔

Facebook Comments

محمد اشتیاق
Muhammad Ishtiaq is a passionate writer who has been associated with literature for many years. He writes for Mukaalma and other blogs/websites. He is a cricket addict and runs his own platform ( Club Info)where he writes about cricket news and updates, his website has the biggest database of Domestic Clubs, teams and players in Pakistan. His association with cricket is remarkable. By profession, he is a Software Engineer and has been working as Data Base Architect in a Private It company.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply