قطامہ۔۔۔رفعت علوی

جب وہ ملا تو خود میں اپنی دسترس میں نہ تھا۔۔
ایک رومان زدہ اور حُسن پرست ادھیڑ عمر کے مرد کی انوکھی محبت کی دکھی کہانی!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آندھی کی طرح آئی اور طوفان کی طرح میری زندگی پہ چھا گئی
اس میں کچھ تو تھا۔۔۔۔سب سے الگ۔۔۔۔سب سے جدا
وہ گھر میں داخل ہوتی تو جیسے گھر کا موسم ہی بدل جاتا ،گویا

“کس کی خوشبو ہے دروبام ہیں مہکے مہکے

کون جلتا ہے تیرے شہر میں صندل کی طرح”

بچوں کے چہرے کھل اٹھتے، پہلے وہ ابو کے پاس ان کے بستر پر بیٹھ جاتی، ابو شفقت اور محبت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے پھر وہ اسمنا کی دادی امی کے کمرے کی طرف جاتی ،جو اس کے کھانے کےلئے اپنے پاس کچھ نہ کچھ ضرور رکھتی تھیں، ان کی آشیرباد لے کر بچوں کے کمرے میں چلی جاتی۔
گھر میں کون تھا جو اس کو پسند نہ کرتا ہو ،بس ایک ہماری بیگم تھیں، جو اس سے خار کھاتی تھیں، اس کو دیکھتے ہی ان کی تیوریوں پر بل پڑ جاتے اور وہ زیر لب بڑبڑاتیں
آگئی قطامہ۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا بتاؤں کیا لش پش چال تھی اس کی۔۔۔۔میں تو اس کو چلتا دیکھ کر دم بخود رہ جاتا، وہ جب بھی ہمارے گھر میں داخل ہوتی ،تو مجھے لگتا رات کی رانی کی مہک نے ہمارے گھر کو گھیرلیا ہے۔
اس کی کئی چیزیں اس کو دوسروں سے ممتاز کرتی تھیں ان میں ایک تو اس کے خوبصورت پیر میں بندھی وہ ننھی منی سی پازیب تھی جو اس کے سہج سہج قدم اٹھانے پر جلترگ بجانے لگتی تھی اور دوسرا اس کا مختصر ہوتا ہوا باریک سا سرخ سکارف جو اس کے گلے میں ربن کی طرح جھولتا رہتا۔

ریشمی چمکدار گھنیرے بال، سفید رنگ، نیلی چمکدار پُرکشش آنکھیں اور بھرا بھرا جسم، حسن نسواں کی مکمل تفسیر، جب وہ ایک توبہ شکن انگڑائی لے کر ایک خاص زاویے سے گردن کو لوچ دے کر میری طرف اَدکھلی آنکھوں سے دیکھتی تو میرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے اور دل پہ چھریاں سی چل جاتیں۔

میں اس سے باتیں کرنا چاہتا مگر وہ مجھے بڑی بےاعتنائی سے دیکھتی اپنی نیلی نیم باز آنکھیں چھپکاتی ،مجھے نظر انداز کرکے کسی دوسرے کمرے میں چلی جاتی۔
اس کے دل میں کیا تھا مجھے کبھی معلوم نہ ہوسکا۔۔۔

وہ ہمارے پڑوس میں ہی رہتی تھی اور صبح کے وقت میرے آفس جانے سے پہلے ہمارے گھر کا چکر ضرور لگاتی، پھر رات گئے آتی اور بچوں کے ساتھ کسی رضائی میں گھس کر ذرا دیر کو آنکھ جھپک لیتی۔ واپس کب جاتی مجھے اس کا علم نہ ہوپاتا۔

چھٹی والے دن میری بڑی خواہش ہوتی کہ کاش آج بیگم جو اس کو دیکھ کر ہی جل بھن جاتی تھیں اپنی اماں جان سے ملنے میکےچلی جائیں اور بچے کرکٹ میچ میں مصروف ہوجائیں تاکہ مجھے اکیلے میں اس سے ملاقات کا موقع مل سکے اور اگر وہ راضی ہو تو کچھ دیر میں اس کو گودی میں بٹھا کر اس کے لاڈ اٹھاؤ ں،ناز برداریاں کروں اور اس کے ریشمی بالوں کے ساتھ کھیلو۔

مگر دل ِ بیتاب کی کبھی جاگی نہیں قسمت اور نہ کبھی ایسا وقت آیا۔ جیسے جیسے اسکی بےاعتنائی بڑھتی جاتی ویسے ویسے میرا جذبہ شوق روز بروز بڑھتا جاتا۔۔

ایک دن وہ الہڑ حسیناؤں کی طرح ڈولتی مٹکتی آئی تو اپنے ساتھ ایک بالکل سیاہ بھجنگ بلا بھی لے کر آئی۔
اس موٹے پلے ہوئے تھلتھلاتے جسم والے بلے کو دیکھ کر مجھے اس کے ذوق جمال پر سخت حیرت ہوئی اور ساتھ میں رقابت کا احساس بھی ہوا،
مگر وہ جو کہتے ہیں نا کہ عشق نہ پوچھے ذات، اور دل کا کیا ہے کسی گدھے پر بھی آسکتا ہے، اس لئے دل پر جبر کرکے خاموش ہو رہا۔

ایک دن مجھے آفس میں دیر ہوگئی، رات گئے واپس آیا تو گھر میں ایک غیرمعمولی خاموشی چھائی ہوئی تھی، بچوں کے منہ پھولے ہوئے تھے، دادی امی کے کمرے میں روشی بند تھی،کچن کا دروازہ پاٹو پاٹ کھلا ہوا تھا اور بیگم صاحبہ کا چہرہ خوشی سے کھلا پڑ رہا تھا۔

میں نے اپنے کمرے میں جا کر کپڑے بدلے اور گھر کی غیر معمولی خاموشی پر غور کرتا ہوا کھانے کی میز پر آگیا
وہ قطامہ آج پھر آئی تھی تمھاری چہیتی”، میری بیگم نے کھانے کی میز پر زہریلے لہجے میں اطلاع دی
آخر تم کو اس کلموہی سے اتنی دلچسپی کیوں ہے بیگم تڑخ کر بولیں
میں اس کے جواب میں بغلیں جھانکنے لگا پھر جھینپی ہوئی آواز میں بولا
بیگم تم بھی نا۔۔۔بات کا بتنگڑ بنا دیتی ہو، اتنی خوبصورت تو وہ ہے
ہوگی۔۔۔وہ چودھویں کا چاند مگر میرا گھر تو خراب کر رہی وہ منحوس
آخر ہوا کیا میں نے پہلو بدل کر پوچھا۔۔۔۔۔
ہونا کیا تھا۔۔۔حرافہ آج بھی دودھ جھوٹا کر رہی تھی، میں نے بھی تاک کر ایسی جھاڑو ماری کہ یاد کرے گی کمبخت منحوس۔۔۔۔کیسی مٹک مٹک کر چلتی تھی، اب دیکھو لنگڑا لنگڑا کر چل رہی ہے۔۔۔۔
اوپس۔۔۔۔۔
اف۔۔۔اتنی خوبصورت بلی پر ایسا ظلم؟۔میں نے دبی زبان سے احتجاج کرتے ہوئے کہا
تارِ رگِ جاں سخت ہے، مضراب نہ ٹوٹے، پس شیشہ دل نازک است، ہاتھ ذرا ہلکا رکھنا تھا حضور۔ آج یقین آیا کہ کوئی میں عورت بھی اپنے مرد کی زندگی میں کسی دوسری مونث کو برداشت نہیں کرسکتی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ دن اور آج کا دن اس عفیفہ نے پھر ہمارے گھر میں قدم نہ رکھا، لگتا ہے یا تو اس پوم پوم ڈارلنگ کو وہی کالا بھجنگ بلا بھگا لے گیا یا پھر وہ ہماری بیگم کی خشمگین نگاہوں اور ظلم و ستم کی تاب نہ لا سکی
آخر کو بے زبان بھی نظروں کی زبان سمجھتے ہیں!

Facebook Comments

رفعت علوی
لکھاری،افسانہ نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply