درندوں کی بستی۔۔اُسامہ ریاض

شہر کا بوڑھا دیوانہ گورکن سر میں خاک ڈالے بال نوچتا ہوا، تعفن زدہ گلیوں میں مارا مارا پھر رہا ہے کہ اس کے علاوہ سارا شہر وبا کے ہاتھوں میٹھی نیند سو چکا ہے۔ چیلیں اور کوّے اپنے منہ پر رومال باندھ چکے ہیں کہ جسموں سے اُٹھتی بُو ان کے  نتھنوں میں گھس کر نسلیں تباہ کر رہی ہے۔ چاند پر چرخہ کاٹتی بوڑھیا اپنا تخت و تاج چھوڑ کر کائنات میں پھیلتی گھٹن کے باعث خودکشی کر چکی ہے۔ سورج سیاہ پڑ گیا ہے کہ اس کے سامنے اب فقط گدھ منڈلا رہے ہیں۔ شہ رگ سے لہو ٹپکتی سیاہ چہروں والی لاشیں بکھری پڑی ہیں۔ اداسی گھول کر فضا میں بکھیر دی گئی ہے کہ گلفروشوں کی سب دکانیں ویران ہو چکی ہیں۔ نسیمِ بوئے بہار روٹھ گئی ہے۔ کنویں میں پانی کی جگہ خون بھر چکا ہے۔ وہ کہانیاں جن میں لکھا تھا کہ منتر پڑھ کر انسان کو جانور بنا دیا جاتا تھا وہ کہانیاں اس شہر پر لاگو ہو گئی ہیں کہ اب قبرستان اور شہر کا فاصلہ مٹ چُکا ہے۔

قمار خانے کی میز پر شیطان اور وبا آمنے سامنے بیٹھے ہیں۔ مگر وبا کا چہرے پر   اضطرابِ شکست ہے، اور ہاتھوں میں کپکپی ہے۔ وبا شیطان سے بولی کہ میں ایک سرزمیں پر گئی جو آدم خوروں کی بستی تھی۔ وہ اپنے بچوں کا خون پیتے تھے۔ وہ سوچنے والوں کی بوٹیاں نوچتے تھے۔ وہ خدا کے نام لیوا خدا کی مقدس کتاب کے سامنے بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ وہ جائیدادوں کی خاطر ماؤں بہنوں بیٹیوں کو غیرت کے نام پر قتل کر دیتے تھے۔ وہ انصاف کے ممبروں پر بیٹھ کر عصمت فروشی کرتے تھے۔ وہ لوگوں کو بھٹیوں میں جلا کر ایمان تازہ کرتے تھے۔ وہ وحشی تھے اور انہیں اپنی وحشت پر کوئی ندامت نہیں تھی۔ وہ سرزمیں بانجھ تھی، وہاں خوابوں پر پابندی تھی۔ وہاں لوگ ہنسنے اور رونے کا فرق نہیں جانتے تھے۔ وہ امن کی فاختہ کے خون سے مقدس خدا کی آگ جلاتے تھے۔ وہاں محبت کرنے والوں کے سروں کو مہیب گولوں سے اُڑا دیا گیا تھا۔ وہاں رقص و سنگیت فحاشی تصور کیا جاتا تھا۔ وہاں کی آخری رقاصہ بسترمرض پر دم توڑ چکی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ آدم خوروں کی بستی تھی اور مجھے ان سے ڈر لگتا ہے۔ شیطان وبا کو دلاسہ دیتے دیتے رو پڑا ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply