جلا کے مشعل جاں ہم جنوں صفات چلے جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے دیار شام نہیں منزل سحر بھی نہیں عجب نگر ہے یہاں دن چلے نہ رات چلے آج اُسے نفسیاتی ہسپتال میں داخل ہوئے دو← مزید پڑھیے
اپنی ایک انگریزی نظم کا آزاد ترجمہ جو 1995 میں لکھی گئی۔ یہ نظم شری لنکا کےبودھی شاعر شکرارتھؔ کی اس تھیوری پر مبنی تھی کہ گوتم بدھ کے تناسخ کی لڑی میں ایک اور جنم ابھی باقی تھا← مزید پڑھیے
میں اگر شاعر تھا، مولا، تو مری عہدہ برائی کیا تھی آخر؟ شاعری میں متکفل تھا، تو یہ کیسی نا مناسب احتمالی؟ کیا کروں میں؟ بند کر دوں اپنا بابِ لفظ و معنی؟ اور کہف کے غار میں جھانکوں ،← مزید پڑھیے
ریمنڈ چلتا رہا، چلتا رہا، اپنی چھوٹی مگر مضبوط ٹانگوں کے ساتھ۔ موٹی سوت کی بنیان کے اوپر چیک دار قمیض اور اس کے اوپرکالے رنگ کی بھاری جیکٹ، سر پر اونی ٹوپی، ہاتھوں پہ دستانے، برفانی بوٹ۔ پورا سماں← مزید پڑھیے
سُرخی ہونٹوں کی ہو یا اخبار کی ،نظریں سب سے پہلے اُدھر ہی جاتی ہیں۔اخبار کی سب سےبڑی سرخی آٹھ کالمی ہوتی ہے جبکہ خوبصورت ہونٹوں کی سرخی بڑی ظالمی ہوتی ہے۔اپنی بیوی کی سرخی مشکل سے ایک کالمی نظر← مزید پڑھیے
کوئی سبطِ آدم بھی ہے اور مجھ سے سوا اس جہاں میں کہ میں اک اکیلا ہی حقدار و مختار ہوں جدِ امجد کی اس حق رسی کا؟ جو اندر سے میرے یہ آواز ابھری تو میں نے یہ چلّا← مزید پڑھیے
(جولائی 2019 کے پہلے ہفتے لندن میں ہوئی دو ہولناک اموات سے ماخوذ ٹوٹے پھوٹے لفظوں سے جوڑی ہوئی ایک کہانی) وہ نیروبی کے قریب چھوٹے سے گاؤں میں غریب کسان کے گھر پیدا ہوا, غربت سے کبھی سمجھوتہ نہ← مزید پڑھیے
میں جنگل میں کبھی آباد تھا پیڑوں کی آبادی میں ان کے سنگ اگُتا تھا جڑیں میری سلامت تھیں مگر لاکھوں برس پہلے جڑیں ٹانگوں میں بدلیں، تو نباتاتی حکومت نے مجھے’ جنگل نکالا‘ دے کے یہ تلقین کی ۔۔۔۔جاؤ← مزید پڑھیے
بحر خفیف میں رن۔آن۔ لائنز کے التزام سے تحریر کردہ ایک نظم ——————– میں تو لمبے سفر پہ نکلا ہوا اک مسافر تھا، ایک شب کا مکیں سوچتا تھا کہ رات بھر کے لیے اب جو ٹھہرا ہوں، کیوں نہ← مزید پڑھیے
کل نَفسِ ذَائَقہ اُلمَوت (سورۃ ، ال عمران آ ئۃ 581، حصہ اولیٰ) —————— میں چلا جاؤں گا ، میں جانتا ہوں میں چلا جاؤں گا، اس سے بہت پہلے کہ ہوا برف کی الکحل جلباب ا تارے سر سے← مزید پڑھیے
بہرام پورے کے لوگ سال میں دو فصلیں کاشت کرتے تھے ایک گندم تھی جب وہ پک کر تیار ہوجاتی تو کاٹنے کے بعد نصف اپنے گھروں میں رکھتے اور باقی بچ جانے والی گندم کو فروخت کردیتے جس سے← مزید پڑھیے
پوری دنیا کی مادری زبانوں کے نام او کہندی سی جہڑی پھُلاں وِچ خَوشبواں رہندی سی ستو یں شام توں اَگّے کوئی رات نئیں ستویں دن دی شام نوں مِلنا ست رنگ دیہاڑے ہَس ہَس کھِڑنا جَھلیےپَکھیے! ایس توں چنگی← مزید پڑھیے
میرے ذہن میں آج بھی مولوی جبار گل کی باتیں نقش ہیں کہ ہمارے ہاں جہیز کو اس لئے بھی خصوصی اہمیت حاصل ہے،کہ لڑکے والے لڑکی کو شادی کے لئے نقد رقم ادا کرتے ہیں۔ اس رقم کا مطلب← مزید پڑھیے
خواب آنکھوں میں پرونے کی اجازت ہے تجھے شب ِ ہجراں میں بھی سونے کی اجازت ہے تجھے ہسپتال کے صحن میں ڈوبتے سورج کی مدھم کرنیں اور رات کی پھیلتی تاریکی اس کی امید کے دیے کی لو بھی← مزید پڑھیے
شعر سلطنت دست بدست آئی ہے جام ِ مئے خاتم ِجمشید نہیں نظم باب ِ اول طالبعلم ایک سلطنت کیا ہے؟ کہوں مَیں، تو کہوں گا اتنا سلطنت؟ ۔۔۔۔ مملکت ، اقلیم، قلمرو ، احقاف دست سے دست تک؟ اخراج← مزید پڑھیے
بہادر شاہ ماں باپ کی بے عزتی کو چپ چاپ سہہ کر گھر آگیا ،وہ چاہتا تو زبردستی ماں بیٹے کو اٹھا کر لے آتا یا کوئی اور ترکیب نکالتا لیکن اس کا منتشر ذہن اسے کسی ایک نقطے پر← مزید پڑھیے
کلو زویم۔ آرچ آف کونسٹنٹائن، پیلاٹن ہل اور مسٹر اُفیذی سے ملنا o روم کی بلندوبالا عمارات کی پیشانیوں پر روم کی عظمتوں کی کہانیوں کی ماتھا پٹیاں سجی ہیں۔ ایک ابدیت والا شہر۔ o مذہبی انتہا پسندی کی جنونیت← مزید پڑھیے
پڑھیے دریائے چناب کے کناروں پر آباد بستیوں سے محبت اور ضرورت کے درمیان جھگڑے کا ایک سچا واقعہ، اس سچے واقعے سے جنم لیتی کہانی کے کردار مقام، نام سب فرضی ہیں منظر نگاری اور تحریر میں کسی طرح← مزید پڑھیے