سُرخی ( طنز و مزاح)۔۔احمد شہزاد

سُرخی ہونٹوں کی ہو یا اخبار کی ،نظریں سب سے پہلے اُدھر ہی جاتی ہیں۔اخبار کی سب سےبڑی سرخی آٹھ کالمی ہوتی ہے جبکہ خوبصورت ہونٹوں کی سرخی بڑی ظالمی ہوتی ہے۔اپنی بیوی کی سرخی مشکل سے ایک کالمی نظر آتی ہے جبکہ کسی اور کی سرخی آٹھ کالمی ہونے کے ساتھ ساتھ ظالمی بھی لگتی ہے۔ سُرخی واحد پروڈکٹ ہےجس پر تقریباًہر خاتون کے نہ صرف جملہ حقوق بلکہ جمیلہ حقوق بھی محفوظ ہیں۔

اردو اخبارکی سرخی نکالنے میں عباس اطہر کو یدِ طولیٰ حاصل تھا جبکہ ہونٹوں سے سرخی اتارنے میں اداکارعمران ہاشمی کو “لبِ طولیٰ ” حاصل ہے۔ظالم ہر فلم میں سرخی ایک سے ایک طریقے سےاتارتا ،اس کی ہیروئنیں فلم میں ایسے دو چار ایکسٹرا سین فرمائش کر کے ڈلواتیں تا کہ انہیں کچھ نہ کرنا پڑے جوکچھ بھی کرنا ہو عمران ہاشمی ہی کرے۔

آپس میں محبت کرنے والے جب تنہائی میں ملتے ہیں توسرحدی جھڑپوں کے موافق محبتی چھیڑ چھاڑکا آغازسرخی والے محاذ سے شروع ہوتا ہے ۔ یہاں سے دادِ محبت دیتے اور آگے بڑھتے ہوئے اصل لڑائی مورچہ زن ہو کر کہیں کونوں کھدروں میں لڑی جاتی ہے۔

لپ اسٹک وہ اسٹک ہے جو ہر خاتون کے سنگھارکا بنیادی جزو ہے وہ عورت ہی کیا جو سرخی نہ لگاتی ہو ۔عورت کی زیبائش کا آغاز سرخی سے ہی ہو تا ہے اور سرخی پر ہی ختم ہوتا ہے۔سُرخی وہی جو ہونٹوں کو چھو جائے اور دل کو لبھا جائے۔ نازنیوں کے نازک ہونٹوں پر لگی لپ اسٹک کسی بھی رنگ کی ہو ، سرخی ہی کہلاتی ہے۔

جب سے لپ اسٹک ہونٹوں پر لگنا شروع ہوئی ہے اس میں صرف موجودہ دور ایسا ہے یعنی کورونا کی وجہ سے لپ اسٹک کم استعمال ہو رہی ہے اسکی بنیادی وجہ کہ کورونا کے ڈرسےنہ لپ اسٹک کھائی جا رہی ہے نہ دکھائی دے رہی ہے۔لپ اسٹک کو مشترکہ ملکیت تصور کیا جا تا ہےیوں مالِ مفت کھانے میں سرکاری فنڈ کے بعد لپ اسٹک کھانے کا نام آتا ہے مگر جب سے کورونا شروع ہوا ہے اس میں کمی آ گئی ہے ورنہ اس سے پہلے ایک دوسرے کے ہونٹ بات بے بات چھو جاتے تھے ۔

ہونٹ جب دوسرے ہونٹوں سے ملتے ہیں تو انہیں بوس و کنار کہتے ہیں یعنی ہونٹ وہی ہیں جو دوسرے ہونٹوں میں پیوست ہو کر بحرِ بے کنار ہوجائیں ۔ ہمارا دوست بوس و کنار کو” باس و کنار” کہتا ہے کیونکہ سب سے زیادہ باس ہی “کنار و بے کنار” ہوتے ہوئے ہونٹوں سے لپ اسٹک صاف کرتے ہیں۔ خوبصورت ہونٹوں پر سرخی لگی ہو تو دانت کِھل اُٹھتے ہیں اگریہی سرخی شوہر کی شرٹ پر لگی ہو تو دانت ہل جاتے ہیں۔

اخبارات کی سرخیاں کبھی حکمرانوں، کبھی اپوزیشن اور کبھی عوام پر بجلیاں گراتی ہیں وہیں گلاب چہروں کے حسیں لبوں کی سرخی عاشقوں پر ایسا ایسا ظلم ڈحا تی ہیں کہ خدا کی پناہ ………… ایسے ہی کسی حسینہ سے عاشق نے کہا کہ
سبب ہم نے پوچھا ہونٹوں کی لال سرخی کا
کہا ظالم نے طنز سے تمھارا خون پیتے ہیں

پہلے زمانے میں محبوبائیں اپنے محبوب کو رومال پرسُرخ پھول کاڑھ کر بھیجا کرتیں یا پھر رومال پر ہونٹوں کی سُرخی کا نشان بنا کر بھیجتیں۔آج کل یہ سُرخی واٹس ایپ ، ان باکس یا براہ رست پہنچ جاتی ہے

ہونٹ کو لَب بھی کہتے ہیں ،بچپن میں جب لفط “لبِ سڑک ” کہیں پڑھتے یا سُنتے تو سمجھ نہیں آتی تھی کہ لب اور سڑک کا کیا تعلق ہے لیکن انگلینڈ کے سفر نے اس لفظ کی وضاحت خوب اچھے طریقے سے کرا دی جب کوئی جوڑا سڑک پر لب سے لب ملاتا تو اس لفظ کی تشریح خوب سمجھ آتی جب اُن کے لب آپس میں سے ملتے تو ایسے میں ہم بس کچیچیاں ہی وَٹ سکتے اور تو اور جب جپھیاں وہ ڈالتے کڑاکے ہمارے نکل جاتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

پہلے نازک اور پتلے پتلے ہونٹ اپنی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہوتے تھےموجودہ دور میں موٹے اور بُھربھرے ہونٹ بنانے کا فیشن زوروں پر ہے ۔ اب لڑکیاں ایسے ایسے ہونٹ بنواتی ہیں جیسے لگتا ہے چہروں کی” بُل “فائٹنگ ہونے لگی ہے۔(پنجابی میں ہونٹ کو “بُل “کہتے ہیں)
شاعروں نے ہونٹوں پر بے شمار اشعار کہے ہیں میر تقی میر کا شعر زبانِ زدِ عام ہے ۔
نازکی اُس لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
لیکن پنجابی شاعر نے تو سرخ ہونٹوں پر شعر کہہ کر بات ہی ختم کر دی ۔
لالی تیرے بُلاں دی
ایسی تیسی پُھلاں دی!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply